تاریخ، غیر اصولی فیصلے اور سیاست دان

ڈاکٹر توصیف احمد خان  بدھ 21 مارچ 2018
tauceeph@gmail.com

[email protected]

پیپلز پارٹی کے شریک چیئر پرسن آصف علی زرداری نے اپنی پارٹی کے سینئر ترین رہنما رضا ربانی کو سینیٹ کا چیئرمین نامزد کرنے سے انکارکیا اور پیپلز پارٹی کو الوداع کہنے والے آزاد امیدوار صادق سنجرانی کو سینیٹ کے نئے چیئرمین کے تحت قبول کیا۔ اپنے ارب پتی تاجر ساتھی اور پیپلز پارٹی میں نووارد سلیم مانڈوی والا کو ڈپٹی چیئرمین منتخب کرانے میں بھی کامیاب ہوئے۔

رضا ربانی گنتی کے ان چند رہنماؤں میں شامل ہیں جنھیں دائیں اور بائیں بازو کے سیاسی رہنما پسند کرتے ہیں۔ میاں نواز شریف نے بھی میاں رضا ربانی کا نام ملک کے اہم ترین عہدے کے لیے تجویزکیا تھا جب کہ قوم پرست سیکیولر رہنما حاصل بزنجو، جماعت اسلامی کے سربراہ سراج الحق اور جمعیت علمائے اسلام کے مولانا فضل الرحمن بھی رضا ربانی کے حامیوں میں تھے۔ رضا ربانی نے سینیٹ کو صوبوں کا حقیقی ترجمان بنانے کے لے دن رات محنت کی تھی۔ آئین میں کی گئی 18ویں ترمیم کے مصنفین میں رضا ربانی شامل تھے۔

پھر وہ مسلسل پارلیمنٹ کی بالادستی اور انسانی حقوق کی پاسداری کا درس دیتے تھے۔ سینیٹر فرحت اﷲ بابر او رمیاں رضا ربانی پیپلز پارٹی کے ان رہنماؤں میں شامل ہیں جو لاپتہ افراد کے معاملے کو منطقی انجام تک نہ پہنچانے پر پشیمانی کا اظہارکرتے ہیں۔ رضا ربانی جمہوریت کو ملک کے بچاؤکا واحد راستہ قرار دینے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ سینئر صحافی  حامد میرکا مفروضہ ہے کہ مقتدر قوتیں رضا ربانی کو اہم عہدے پر دوبارہ فائز کرنے کے حق میں نہیں تھیں۔ زرداری صاحب نے مقتدر قوتوں کی ڈکٹیشن کو قبول کرلیا ۔

خواجہ ناظم الدین کا تعلق بنگال سے تھا۔ انھوں نے بنگال میں مسلم لیگ کو مقبول بنانے اور پاکستان کی حمایت کے لیے تاریخی کوشش کی تھی۔ خواجہ ناظم الدین بنگال  پریمیئر کے عہدے پر تعینات تھے۔ قیام پاکستان کے بعد وہ محمد علی جناح اور لیاقت علی خان کے بعد تیسرے اہم رہنما سمجھے جاتے تھے۔11 ستمبر 1948ء کو جناح کے انتقال کے بعد خواجہ ناظم الدین کو ملک کا گورنر جنرل مقرر کیا گیا۔  پہلے وزیر اعظم نوابزادہ لیاقت علی خان کے قتل کے بعد انھیں وزیر اعظم منتخب کروالیا گیا ۔

وہ قیام پاکستان سے پہلے مشرقی بنگال کے پریمیئر عہدے پر فائز تھے۔ خواجہ ناظم الدین جن کی مادری زبان بنگالی تھی مگر جب محمد علی جناح نے مشرقی پاکستان کے پہلے دورے میں ڈھاکا یونیورسٹی میں اردو کو ملک قومی زبان بنانے کا اعلان کیا تو خواجہ ناظم الدین نے اس فیصلے کی حمایت کی جس کی بناء پر وہ ڈھاکا اور بنگالی عوام میں تنہا رہ گئے تھے۔ خواجہ ناظم الدین نے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالا تو جنرل ایوب خان نے مطالبہ کیا کہ دفاعی بجٹ میں اضافہ کیا جائے۔

خواجہ ناظم الدین کی ترجیحات میں تعلیم، صحت اور مہاجرین کی آبادکاری جیسے اہم معاملات شامل تھے، یوں خواجہ ناظم الدین نے جنرل ایوب خان کی تجویز کو مسترد کردیا۔ پنجاب کے پریمیئر میاں ممتاز دولتانہ نے خواجہ ناظم الدین حکومت کو پردہ سیمیں سے ہٹانے کے لیے فسادات میں اہم کردار ادا کیا۔ تیسرے گورنر جنرل غلام محمد نے خواجہ ناظم الدین حکومت کو برطرف کردیا۔

خواجہ ناظم الدین کی برطرفی نے مشرقی بنگال کے عوام میں احساس محرومی پیدا کیا۔ محققین کا کہنا ہے کہ گورنر جنرل غلام محمد کے اس فیصلے کے پس پشت سیکریٹری دفاع میجر جنرل ریٹائرڈ اسکندر مرزا اور فوج کے سربراہ جنرل ایوب خان تھے۔ حسین شہید سہروردی بنگال کے مقبول رہنما تھے۔ وہ بنگال کے پریمیئر کے عہدے پر تعینات رہے۔  ہندوستان کے بٹوارے کے وقت وہ بنگال کے پریمیئر تھے۔ پارٹیشن کے وقت بنگال کے شہروں اور گاؤں میں شدید مذہبی فسادات رونما ہوئے۔ مہاتما گاندھی نے ان فسادات کو روکنے کے لیے بنگال کا دورہ کیا۔

انھوں نے حسین شہید سہروردی سے درخواست کی کہ وہ کلکتہ میں رک جائیں اور فسادات روکنے کی کوشش کریںاور بعد میں جب وہ پاکستان آئے تو انھیں پاکستان میں لائسنس دینے سے انکار کردیا۔ منٹگمری (ساہیوال) کی بار ایسوسی ایشن نے سہروردی کو وکالت کا لائسنس جاری کیا۔ حسین سہروردی کی قیادت میں عوامی لیگ قائم ہوئی۔ عوامی لیگ میں مولانا  بھاشانی اور دیگر بائیں بازو کے کارکن شامل ہوئے۔ سہروردی کو 1955ء میں ملک کا وزیر اعظم مقررکیا گیا۔

1955ء میں مصر میں قوم پرست رہنما جمال عبدالناصر اقتدار میں تھے۔ انھوں نے نہر سوئزکو قومی تحویل میں لے لیا۔ یہ مصر کی خودمختاری اور ترقی کے لیے انتہائی اہم فیصلہ تھا۔ برطانیہ اور فرانس نے نہر سوئزکی حیثیت کو تبدیل کرنے پر احتجاج کیا اور اپنی فوجیں نہر سوئز پر قبضے کے لیے بھیج دیں۔ اسرائیل نے برطانیہ اور فرانس کی مدد کی۔ مصر کے صدر جمال عبدالناصر نے برطانیہ اور فرانس کی فوجوں کے خلاف مزاحمت کا فیصلہ کیا۔

صدر اسکندر مرزا نے برطانوی دباؤ پر فیصلہ کیا کہ نہرسوئزکے قبضے میں برطانیہ اور فرانس کی حمایت کی جائے گی۔ سہروردی صاحب پر اس فیصلے کی حمایت کے لیے دباؤ پڑا۔ انھوں نے عوامی لیگ کے رہنماؤں سے کہا کہ اس اہم مسئلے پر صدر اسکندر مرزا کی حمایت کر کے جمہوریت کو مستحکم کیا جاسکتا ہے۔

مولانا بھاشانی اور بائیں بازو کے رہنماؤں نے اس پالیسی کو سامراج نوازی قرار دیا اور سہروردی صاحب سے کہا کہ ایک غیر اصولی فیصلہ کرکے وہ اپنا تشخص خراب کریں گے اور بعد میں مقتدرہ آپ کی حکومت کو رخصت کردے گی مگر مفاہمت نہ ہونے پر مولانا بھاشانی کی قیادت میں بائیں بازو کے کارکن عوامی لیگ سے علیحدہ ہوئے اور نیشنل عوامی پارٹی کا قیام عمل میں آیا مگر 6 ماہ بعد صدر اسکندر مرزا نے سہروردی حکومت کو برطرف کردیا ۔

بعد ازاں 1958ء میں سہروردی نے ایوب حکومت کو چیلنج کیا۔ راولپنڈی سازش کیس (1951ء)سے لے کر بہت سے سیاسی قیدیوں کے مقدمات سہروردی صاحب نے لڑے مگر تاریخ میں ان کے نام کے ساتھ مقتدرہ کی پیروی کا الزام لگا رہا۔ ذوالفقار علی بھٹو اگرچہ مقتدرہ کے ذریعے اقتدار میں آئے مگر پھر پیپلز پارٹی قائم کی اور جنرل ایوب خان کی آمریت کو چیلنج کیا۔ انھوں نے سندھ اور پنجاب میں مقبولیت حاصل کی اور 1970ء کے انتخابا ت میں ان صوبوں سے کامیاب ہوئے۔

مشرقی پاکستان سے عوامی لیگ کامیاب ہوئی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے عوامی لیگ کے مقابلے پر  جنرل یحییٰ خان کی حمایت کی اور ملٹری آپریشن کی حمایت کی۔ اقتدار میں آنے کے بعد 80 ہزار جنگی قیدیوں کی بھارت اور بنگلہ دیش سے واپسی کے لیے اقدامات کیے۔ انھوں نے اس ملک کو ایٹم بم کا تحفہ دیا مگر جنرل ضیاء الحق نے 4 اپریل 1979ء کو ذوالفقار علی بھٹو کو ایک متنازعہ مقدمے کی بنیاد پر پھانسی دیدی۔

علاوہ ازیں میاں نواز شریف حکومت نے ایٹمی دھماکاکیا، مگر جنرل پرویز مشر ف نے ان کا تختہ الٹ دیا۔ 2008ء میں پھر میاں نواز شریف ایبٹ آباد فوجی کارروائی، میمو اسکینڈل اور ریمنڈ ڈیوس کے معاملات پر مقتدرہ کی ہم نوائی کی۔ انھوں نے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو دی گئی توہین عدالت کی سزا کا خیر مقدم کیا مگر وہ اقتدار میں آنے کے بعد پھر مقتدرہ کے غیض وغضب کا شکار ہوئے اور اقتدار سے محروم کردیے گئے۔ بقول سینئر سیاست دان میاں نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز عبوری حکومت کے قیام کے بعد جیل جانے والے ہیں۔

آصف زرداری نے اپنے قریبی ساتھیوں کی گرفتاریوں کے بعد پہلے تو مقتدرہ کو چیلنج کیا پھر ملک سے باہر چلے گئے اور پھر واپسی کے بعد سے پیپلز پارٹی کی سربراہ بے نظیر بھٹو کی پالیسی سے منافی پالیسی اختیارکی، یوں وہ ایک طویل یو ٹرن کے ذریعے مقتدرہ کے قریب ہوگئے۔ زرداری  نے سینیٹ کی چیئرپرسن شپ کھودی مگر اب مستقبل میں وفاق میں حکومت بنانے کا خواب دیکھ رہے ہیں ، مگر ماضی میں رونما ہونے والے واقعات کے تجزیہ سے یہ واضح ہوتا ہے کہ تاریخ میں موقع پرستانہ فیصلے کرنے والے سیاستدان نہ تو مقتدرہ کی خوشنودی برقرار رکھ پائے نہ جمہوریت کو مستحکم کرسکے، یوں محسوس ہوتا ہے کہ مستقبل میں قائم ہونے والے ڈھانچے میں سویلین کا کردار مزید محدود ہوجائے گا ۔ یہ حکومتیں مقتدرہ کی زیر نگیں ہونگی اور ان کے پاس عوام کو دینے کے لیے کچھ نہیں ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔