شہنشاہی سیاست … عوام کو کیا ملا؟

علی احمد ڈھلوں  بدھ 21 مارچ 2018
ali.dhillon@ymail.com

[email protected]

آج پاناما لیکس کے بعد تمام سیاستدان اپنا اپنا ’’کردار‘‘ ادا کر رہے ہیں، شہنشاہی سیاست کو فروغ مل رہا ہے، اپنے ملک کی سینیٹ کو فتح کرنے کے لیے جوڑ توڑکیے جارہے ہیں، کاروباری شخصیات ان سیاستدانوں کو استعمال کرکے اپنا کردار ادا کر رہی ہیں، لیکن ان سب کاموں میں عام آدمی کو کیا مل رہا ہے؟

ان کی زندگی میں  کیا تبدیلی لائی جارہی ہے؟ وہی مہنگائی میں 500 فیصد تک کا اضافہ؟ وہی جعلی ادویات ؟ وہی تاریک راہوں  میں مارا جانا، وہی بیروزگاری، جرائم کا چڑھتا سورج، وہی آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی غلامی؟ عوام جائیں بھاڑ میں بلکہ وہ تو 70سال سے بھاڑ ہی جھونک رہے ہیں۔ پورے ملک کے ادارے لاچار بنا دیے گئے ہیں، پورے ملک کو ’’افراد خانہ‘‘ کے مطابق مختلف صوبوں میں تقسیم کرکے اسے خاندان میںبانٹ دیا گیا ہے ۔ بس کرنسی نوٹوں پر نواز شریف کی تصویریں چھپنے والی رہ گئی ہیں۔

بس  عوام کو کچھ ملے نہ ملے مگر ایک بات تو طے ہے کہ عوام کی خدمت کرنے والے اداروں کا کام ان شریفوں کو تحفظ دینا رہ گیا ہے، ان کاکام جاتی امرا کو مقدس جمہوری مقام قرار دینا، جھنڈے کا چاند ستارہ تبدیل کرکے اس پر ان کے اپنے نشان اور نیا قومی ترانہ ترتیب دیا جانا باقی رہ گیا ہے۔ عوام کا کیا ہے وہ تو جلسے جلوسوں میں آہی جاتے ہیں۔ کیوں کہ شہنشاہ جب بلائیں تو عوام نہ آئیں یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ اور پھر سب نے دیکھا کہ سینیٹ الیکشن میں کھربوں روپے چلے، چند قوتوں نے اسے ایسے فتح کیا جیسے سری نگرکو فتح کر لیا گیا ہو… عوام کو کیا ملا؟ کیا اب بھارت پاکستان کا پانی نہیں روکے گا؟ کیا اب پاکستان کے خلاف جن محاذوں پر کام ہو رہا تھا وہاں رک جائے گا؟

اور پھر شہنشاہ سیاست کے بیٹے بلاول نے نواز شریف کا چیئرمین سینیٹ نہیں بننے دیا، واہ کیا بات ہے، مزہ آگیا مگر عوام کو کیا ملا ؟ نواز شریف نے اپنی جگہ اپنے بھائی کو پارٹی صدر بنوا لیا، واہ کیا بات ہے، احد چیمہ نے اعتراف کیا کہ اس نے اربوں روپے کا غبن کیا، اس کی بیوی، سسر اور دوچار لوگ اس کے سہولت کار تھے،کمال ہوگیا مگر عوام کو کیا ملا؟ پیراگون سٹی میں سعد رفیق نے 40 کنال کی کوٹھی بنا لی عوام کوکیا ملا؟ شریفوں نے سیکڑوں فیکٹریاں لگا لیں، عوام کو کیا دیا ؟ عدالتوں نے خادم رضوی اور افضل قادری کو گرفتار کرکے پیش کرنے کا حکم دیا، ایجنسیوں نے رپورٹ دی کہ یہ بہت شاطر آدمی ہے، اس نے 20 دن تک داررلحکومت کو یرغمال بنائے رکھا ، مگر عوام کو کیا ملا؟ یہ ملک بائس کروڑ عوام کا ہے جنہیں یقین دلایا گیا تھا کہ سلطانی ٔجمہور کا آتا ہے زمانہ ، وہ اسی انتظار میں ستر سال گذار گئے، ان کے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرنے والے حکمراں نہ معلوم کن سیاروں میں گم ہوگئے، عوام کو بقول شاعر ’’مجھ کو راتوں کی سیاہی کے سوا کچھ نہ ملا‘‘ ۔

آج ہمارے سیاسی اداروں کی ترجیحات ہیں کہ شریفوں کی پاناما سے کس طرح جان چھڑائی جائے، شریفوں پرکیسز ختم کروائے جائیں، عمران خان کوکیسے شکست دی جائے، نواز شریف کوکیسے پارٹی صدر منتخب کیا جائے، مریم نوازکو کیسے حکومتی اختیارات دیے جائیں، کن کن پراجیکٹ کو شروع کیا جائے تو اتفاق فاؤنڈری کا پہیہ بھی ساتھ چلے گا۔ لیکن میرے ’’فاضل سیاستدانوں‘‘ کو اس سے کیا لگے؟ عوام اور ملکی معیشت جائے بھاڑ میں، ملک دیوالیہ ہو رہا ہے، کوئی بات نہیں … شہنشاہ سیاست نے سینیٹ کا قلعہ تو فتح کر لیا ہے ناں! عوام کا کیا ہے؟  وہ تو جب تک سانسیں ہیں تب تک زندہ ہیں۔ بقول عدیم ہاشمی

میں اس کے واسطے سورج تلاش کرتا ہوں

جو سوگیا مری آنکھوں کو رت جگا دے کر

بلوچستان میں بازی پلٹ دی گئی ، نیا وزیر اعلیٰ آگیا، جمہوریت کی ’’فتح‘‘ ہوگئی، مگر عوام کو کیا ملا؟ مریم نوازکو لاکھوں کا تاج پہنایا گیا ، واہ کیا بات ہے پارٹی کارکنوں کی، انھوں نے تو شریفوں پر اپنا حق ادا کر دیا، مگر عوام کوکیا ملا؟سندھ کے بیشتر علاقوں میں آج بھی عوام بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں، وہاں نہ کوئی سڑک، نہ کوئی اسکول، نہ کوئی اسپتال اور نہ کوئی لیبارٹری ہے، سپریم کورٹ کہہ کہہ کر تھک گئی مگر مجال ہے کہ کوئی ٹس سے مس ہوجائے اور محض کوڑا کرکٹ کو ہی ٹھکانے لگا دیا جائے۔ اگر یہ پیارے سیاسی رہنما کوڑا تک نہیں اُٹھا سکتے تو ایسے ’’شہنشاہ سیاست ‘‘ کو عوام نے چومنا تھوڑی ہے؟

اورکیا چومنے سے مریض صحت مند ہو جائے گا، کیا سندھ کا باسی پڑھا لکھا ہوجائے گا؟ کیا بینظیر انکم سپورٹ پروگرام سے 1 ہزار روپے ماہانہ حاصل کرنے والے یہ 21 ویں صدی کے غریب محلوں میں رہنا شروع ہوجائیں گے؟ شرم کی حد تو یہ ہے کہ سندھ کا باسی آج بھی بنیادی سہولتوں سے محروم ملیریا، ڈائیریا، چیچک، خوراک کی کمی سمیت بیشتر بیماریوں سے لڑ رہا ہے۔

مارچ ختم ہونے والا ہے، کیا آج ڈالر کا ریٹ ایک ایک دن میں چار روپے نہیں بڑھ رہا ؟آپ میرے کالم کا حوالہ چھوڑیں ہم تو ہیں ہی اس سسٹم کے ’’باغی‘‘… آپ گزشتہ ہفتے کے تمام قومی اخبارات میں شایع ہونے والی آئی ایم ایف کی سہ ماہی رپورٹ پڑھ لیں آپ کو بخوبی اندازہ ہو جائے گا جس کے مطابق پاکستان پر بیرونی قرض 103ارب ڈالر تک بڑھ جائے گا…پاکستان کو بیرونی ادائیگیوں کی مد میں اربوں ڈالر ابھی ادا کرنے ہیں، اس وقت اسٹیٹ بینک کے پاس ساڑھے 12 ارب ڈالر موجود ہیں، پاکستان سود کی مد میں سالانہ 3 ارب ڈالرز ادا کر رہا ہے جس سے معیشت کو مزید نقصان ہوگا… آج پاکستانی معیشت سخت ترین دباؤ کا شکار ہے،کرنٹ خسارہ بڑھ رہا ہے، امپورٹ بل میں اضافے سے آیندہ آنے والے دنوں میں پاکستان مزید ادائیگیاں کرنے سے بھی قاصر ہوگا… وغیرہ وغیرہ

اب بجٹ بھی ایک ماہ بعد آنے والا ہے۔ فرض کیا سو روپے کا بجٹ پیش کیا جائے گا، اس سو روپے کے قومی بجٹ میں سے پچاس روپے تو گزشتہ اور حالیہ حکمرانوں کے لیے گئے اندھا دھند ملکی وغیر ملکی قرضوں کے بیاج اور کنسلٹنسی کی نذر ہوجاتے ہیں۔ پچیس روپے دفاع میں گئے۔بقیہ پچیس روپے میں سے بیس روپے سرکاری ڈھانچے کی تنخواہوں اور مراعات کے بلیک ہول میں گر جاتے ہیں۔باقی رہ گئے سو میں سے پانچ روپے۔اس پانچ روپے میں 22کروڑ لوگوں کو کیا ملتا ہے ؟ فیصلہ عوام کو کرنا ہے کہ جب عوام کو کچھ نہیں ملا تو ان نااہل سیاستدانوں کو بھی کچھ نہیں ملنا چاہیے کیوں کہ عربی کی ایک کہاوت ہے کہ ہماری اپنی کوتاہیاں ہی ہمیں تباہی کی طرف لے جاتی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔