جمہوریت، سیاست اورنمبروں کا کھیل

سردار قریشی  بدھ 21 مارچ 2018

علامہ اقبال پتہ نہیں جمہوریت کے حامی تھے یا مخالف، لیکن انھوں نے اس کی بالکل صحیح تعریف کی تھی کہ یہ ایک ایسا طرزِ حکومت ہے جس میں لوگوں کوگنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے۔ انگریز بھی اسے اعدادکا کھیل (نمبرز گیم) قرار دیتے ہیں یعنی اس کھیل میں جیت اْس کی ہوتی ہے جس کے پاس نمبر زیادہ ہوتے ہیں۔

جمہوری نظام میں اکثریت کے بل پر ہی حکومتیں تشکیل پاتی ہیں، انھیں ہر وقت اپنی اکثریت یا عددی برتری قائم رکھنے کا چیلنج درپیش ہوتا ہے،جب تک قائم رہتی ہے وہ برسرِ اقتدار رہتی ہیں اوراکثریت سے محروم ہوتے ہی حزب اقتدار حزب اختلاف میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ اسی طرح سیاست کے لیے کہا جاتا ہے کہ اس میں دوستیاں اور دشمنیاں مستقل نہیں ہوتیں،آج کے دشمن کل دوست بن سکتے ہیں اور آج کے دوست کل آپ کے دشمن ثابت ہوسکتے ہیں۔

سیاست کے لیے دوسری بات یہ کہی جاتی ہے کہ اس میں کامیابی لچک سے مشروط ہوتی ہے، جس سیاستدان کے پاس جتنی زیادہ لچک ہوتی ہے وہ اتنا ہی زیادہ کامیاب سمجھا جاتا ہے، غیرلچکدار شخص کے لیے اس کھیل میں کوئی جگہ نہیں ہوتی۔ جہاں تک اکثریت کا تعلق ہے تو یہ خالصتاً میرٹ پر عوام یعنی رائے دہندگان کے ووٹوں سے بھی ملتی ہے اور گھوڑوں کی تجارت (ہارس ٹریڈنگ) کے ذریعے غلط، غیرقانونی اور ناجائز طریقوں سے بھی حاصل کی جاتی ہے۔

وطن عزیز کی آج کل کی معروضی صورتحال کے مشاہدے سے ان سب باتوں کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے جہاں اسی سال متوقع عام انتخابات سے قبل، چند روز پہلے تک پارلیمان کے ایوان بالا (سینیٹ) کے اراکین اور پھر چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب کا مرحلہ درپیش تھا۔ سینیٹروں کے انتخاب میں تو مسلم لیگ (ن) نے میدان مار لیا مگر عددی برتری حاصل کرلینے کے باوجود وہ مذکورہ بالا دونوں عہدوں کے لیے اپنے امیدوار منتخب نہ کرا سکی، یوں اعدادکا یہ کھیل آصف علی زرداری نے جیت لیا جو لچک اورسیاسی سوجھ بوجھ کا مظاہرہ کرکے اپنے دونوں بڑے حریفوں میاں نواز شریف اور عمران خان کو پچھاڑنے میں کامیاب ہوگئے۔

آخری لمحات میں چیئرمین سینیٹ کے لیے متفقہ امیدوار لانے کے امکانات معدوم ہوچکے تھے، جوڑ توڑ کا سلسلہ عروج پر تھا اور رابطے تیزہوچکے تھے۔ خبر تھی کہ مسلم لیگ (ن) حاصل بزنجوکے نام پر غور کر رہی ہے، دوسری طرف بلوچستان کے وزیر اعلیٰ قدوس بزنجو اور آزاد سینیٹرز سے آصف زرداری کی ملاقات کو بھی بیحد اہم قرار دیا جارہا تھا۔ نواز شریف کے طلب کردہ حلیفوں کے اجلاس میں مطلوبہ ہدف سے زیادہ ووٹ حاصل ہونے کا دعویٰ کیا گیا جبکہ زرداری کیمپ کی طرف سے کہا جا رہا تھا کہ انھیں 59 سینیٹرز کی حمایت حاصل ہے۔

نمبروں کے اس کھیل نے ایک مرحلے پر نواز اور زرداری کو آمنے سامنے لا کھڑا کیا، نواز شریف نے پیشکش کی کہ اگر زرداری سبکدوش ہونے والے چیئرمین رضا ربانی کو دوبارہ چیئرمین کے لیے نامزد کریں تو وہ ان کی حمایت کریں گے، لیکن دوسری جانب سے ان کی پیشکش یہ کہہ کر مسترد کردی گئی کہ وہ ایسا نہیں چاہتے۔اْس وقت تک پیپلزپارٹی اورتحریک انصاف کے معاملات بھی فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوچکے تھے، جوڑتوڑ اور نمبروں کے اس کھیل میں جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان بھی کافی سرگرم نظر آئے جو دونوں بڑے حریفوں کے درمیان پْل کا کردار ادا کر رہے تھے۔

زرداری کو اس حقیقت سے قطعاً انکار نہیں تھا کہ چھوٹی بڑی تمام پارٹیاں رضا ربانی کے نام پر متفق ہیں لیکن وہ اس لیے انھیں دوبارہ نامزد کرنے کے خلاف تھے کہ ان کے بقول رضا ربانی نے نواز شریف کی آئینی خلاف ورزیاں نظراندازکی تھیں۔ یہ خبر بھی گردش کررہی تھی کہ پیپلز پارٹی کے کئی اہم رہنما زرداری کے اس فیصلے سے خوش نہیں تھے خصوصاً ایسے وقت جب تحریک انصاف، جے یو آئی، اے این پی اور فنکشنل لیگ نے بھی رضا ربانی کے نام پر اتفاق کرلیا تھا۔ یہ چہ مگوئیاں بھی کی جارہی تھیں کہ نوازشریف نے رضا ربانی کا نام تجویز ہی اس لیے کیا تھا کہ وہ انھیں چیئرمین شپ کی دوڑ سے باہر دیکھنا چاہتے تھے۔

حقیقت خواہ کچھ بھی رہی ہو ہم اْس تجزیہ نگار سے پوری طرح متفق ہیں، جس کے بقول آصف زرداری میں حیران کردینے کی صلاحیت بدرجہ اتم موجود ہے اور نواز شریف بھی اس سے بخوبی واقف ہیں۔ صرف اپنے ووٹوں کے بل پر نمبروں کا یہ کھیل جیتنا زرداری کے لیے آسان نہ تھا لیکن وہ اپنے بد ترین مخالفین کو بھی ساتھ ملانے میں کامیاب ہوگئے اور یوں انھوں نے ثابت کر دکھایا کہ بطور ایک کامیاب سیاستدان وہ نہ صرف مطلوبہ لچک رکھتے ہیں بلکہ گھوڑوں کی تجارت میں نفع کمانے کا ہنر بھی جانتے ہیں۔ سینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے عہدوں کے لیے پیپلزپارٹی کی طرف سے امیدواروں کا باقاعدہ اعلان بالآخر اتوار 11 مارچ کی شام چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی طرف سے کیا گیا۔ اس موقعے پر بلوچستان کے وزیر اعلیٰ قدوس بزنجو بھی موجود تھے۔

یوں چیئرمین سینیٹ کے لیے بلوچستان سے نومنتخب آزاد سینیٹرصادق سنجرانی پیپلزپارٹی کے حمایت یافتہ امیدوارکے طور پر سامنے آئے جبکہ ڈپٹی چیئرمین کے لیے پیپلز پارٹی کے سلیم مانڈوی والا کو امیدوار نامزدکیا گیا۔ بلاول بھٹو نے اعلان کیا کہ ان کے یہ دونوں امیدوار انتخاب میں مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں کا مقابلہ کریں گے جن کا اعلان پیرکی صبح متوقع تھا۔ انھوں نے کہا اس موقعے پر اپنے سینیٹروں کی تعداد بتانا چیٹنگ کے مترادف ہوگا، انتخاب کے دن سب کو پتہ چل جائے گا۔ اس موقعے پر قدوس بزنجو نے کہا کہ پیپلزپارٹی نے صادق سنجرانی کو اپنا امیدوار نامزد کرکے بلوچستان کے لیے قربانی کی نئی تاریخ رقم کی ہے اور بلوچوں کے دل جیت لیے ہیں، آج سے بلوچستان بھی پیپلزپارٹی کا ہے۔

بلاول بھٹو نے رضا ربانی کو پارٹی کا اثاثہ قرار دیتے ہوئے آصف زرداری کی ان سے ناراضگی کے تاثرکو غلط قرار دیا اور کہا ان کے لیے پارٹی کے پاس 2018ء کے عام انتخابات کے حوالے سے دوسرا پلان ہے۔ نوٹ کرنے کی بات یہ ہے کہ بلوچستان کے آزاد سینیٹروں کی مدد سے فیصلہ کن پوزیشن حاصل کرنے کا کھیل تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے شروع کیا تھا لیکن یہ سب پکے ہوئے پھل کی طرح پیپلزپارٹی کی جھولی میں آگرے جس نے نمبروں کا کھیل جیتنے کے فن میں زرداری صاحب کی مہارت کسی شک و شبہ کے بغیر ثابت کر دی اور انھوں نے صرف میا ں نواز شریف ہی کو نہیں بلکہ سب کو حیران کردیا۔

ٹھیک انتخاب کے دن صبح تک بھی مسلم لیگ (ن) اپنے امیدوار سامنے نہیں لا سکی تھی اور اس کے رہنماؤں سے صرف اتنا معلوم ہوسکا تھا کہ چیئرمین کے لیے اتحادی سینیٹر حاصل بزنجو اور پارٹی کے مشاہد اللہ کے نام زیر غور ہیں، لیکن جب پٹاری کھلی تو اس میں سے برآمد ہوئے راجہ ظفر الحق جو بمشکل فیس سیونگ کے لیے مطلوبہ ووٹ حاصل کرسکے، جبکہ پیپلز پارٹی ڈپٹی چیئرمین کے لیے اپنے امیدوار سلیم مانڈوی والا کو بھی جتوانے میں کامیاب ہوگئی اور مزے کی بات کہ پی ٹی آئی کے ووٹ بھی انھی کو پڑے۔

ہم نے بات شروع کی تھی جمہوری نظام، سیاست اور نمبروں کے کھیل سے، اب قارئین خود دیکھ لیں کہ اس حوالے اوپر جو باتیں کہی گئی تھیں وہ صحیح نکلیں یا غلط۔ اور تو اور جو عمران خان ایک دن پہلے تک کہہ رہے تھے کہ ان کی پارٹی پیپلز پارٹی کے حمایت یافتہ امیدواروں کو ووٹ نہیں دے گی وہ آخر میں آصف زرداری کے اتحادی بن کر سامنے آئے۔ انھوں نے عین وقت پر یہ اعلان کرکے سب کو چونکا دیا کہ ان کے سینیٹرز چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے عہدوں کے لیے بلاول بھٹو زرداری کے اعلان کردہ دونوں امیدواروں کو ووٹ دیں گے۔ تو جناب یوں ہوتی ہے جمہوری نظام میں لوگوں کی گنتی اور یوں کھیلا جاتا ہے سیاست اور نمبروں کا کھیل۔ احسن اقبال کو بھی اب تک اس قوت کا پتہ چل گیا ہوگا جس نے زرداری اور عمران کو ملا دیا تھا ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔