سبق پھر پڑھ اطاعت کا

ڈاکٹر منصور نورانی  بدھ 21 مارچ 2018
mnoorani08@gmail.com

[email protected]

سینیٹ کے حالیہ انتخابات میں جوکچھ ہوا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ پہلے دن سے لے کر آخری روز تک ایک طے شدہ منصوبے کے تحت کچھ قوتوں نے اپنا کمال دکھایا۔ آصف علی زرداری نے تو ایک سال پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ سینیٹ کا اگلا چیئرمین بھی ہمارا ہی ہوگا اور وہ اُنہوں نے ایسا کر دکھایا۔ اِس معرکے کو سرکرنے کے لیے اُنہوں نے بڑی ہشیاری اور ذہانت سے سارا گیم کھیلا اوروہ اُس میں کامیاب بھی ہوئے۔

ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ ہرگز اپنے اِس مشن کو پورا نہیں کرسکتے تھے اگر اُصولوں کی سیاست کرنے والے خان صاحب کی اُنہیں مدد حاصل نہ ہوتی۔ بلوچستان جیسے پسماندہ صوبے کو اُس کا حق دلانا تو محض اِک بہانہ تھا۔ پس پردہ کوئی اور ہی کہانی تھی۔اُن کا یہ کہنا بھی کوئی اتنا وزن اور معنی نہیں رکھتا کہ ہم صرف مسلم لیگ (ن) کا راستہ روکنا چاہتے تھے،مگراپنے اِس مقدس فرض کی ادائیگی کے لیے ڈپٹی چیئرمین کے عہدے کے لیے پاکستان پیپلز پارٹی کے نامزد کردہ سلیم مانڈوی والا کو بھی ووٹ دینا نجانے اُن کے کن نظریاتی اُصولوں کے عین مطابق تھا۔ مسلم لیگ کا راستہ تو اُنہوں نے روک لیا یہ جانتے بوجھتے کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے دن اب تھوڑے ہی رہ گئے ہیں۔

لیکن کیا اُنہوں نے اپنے اِس عمل سے پاکستان پیپلز پارٹی کا راستہ بھی روک لیا ہے جس کے ڈی فیکٹو چیئرمین آصف علی زرداری ببانگ دہل یہ کہہ رہے ہیں کہ اگلا وزیراعظم بھی ہمارا ہوگا۔ ملکی سطح پر ہونے والے اگلے الیکشن میں زرداری صاحب کے بقول اگر مرکز میں پاکستان پیپلز پارٹی حکومت بنا لیتی ہے توکیا پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں اُن کا راج نہیں ہوگا اور وہ کیا اپنی مرضی ومنشاء کا کوئی قانون باآسانی منظور نہیں کروالیں گے۔ جس خوف اور ڈر سے اُنہوں نے مسلم لیگ (ن) کا راستہ روکا تھا اُسی خوف اور ڈر کی وجہ سے پیپلز پارٹی کے لیے یہ کام اُنہوں نے آسان کردیا ہے۔

ویسے بھی ملک کے موجودہ حالات اورواقعات یہ عندیہ بھی دے رہے ہیں کہ اگلے انتخابات کے نتیجے میں اِس ملک میں اب ایک ہنگ پارلیمنٹ ہوگی اور ایسی صورتحال میں زرداری صاحب جیسی سوجھ بوجھ رکھنے والے شخص کوکوئی مات بھی نہیں دے سکتا۔ تمام مبینہ خامیوں اور خرابیوں کے باوجود وہ ہماری بہت سی قوتوں کے لیے قابل قبول ہیں۔ اُنہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ کون کتنا با اصول اور باضمیر ہے۔ کس کی کتنی حیثیت اور قیمت ہے۔ مصالحت اور مفاہمت کے سارے داؤ پیچ وہ اچھی جانتے ہیں۔وہ یاروں کے یار ہیں اور بڑے سخی اوردل نواز ہیں۔ مشرف دور میں جیل کے دنوں کے اپنے ساتھیوں کو وہ کبھی نہیں بھولے۔ اکثرو اوقات وہ اُن کا تذکرہ بھی کرتے رہتے ہیں۔

ڈاکٹر عبدالقیوم سومرو بھی اُن کے ایسے ہی دنوں کا ساتھی ہے۔کراچی سینٹرل جیل میں اسیری کے دنوں میں اُس نے اُن کی بہت اچھی تیمارداری کی۔اِن خدمات کے عوض زرداری صاحب نے اُسے خوب نوازا۔وہ شخص سرکاری نوکری چھوڑ کرسیدھا سینیٹ کا ممبر منتخب ہوا اور آج اُس کا شمار زرداری صاحب کے سب سے زیادہ قابل اعتماد وستوں میں ہوتا ہے۔ سینیٹ کے حالیہ الیکشن میں وہ زرداری صاحب کے اِس کامل اور بھر پور اعتماد پر پورا بھی اُترا۔ بلوچستان، کے پی کے اورفاٹا سمیت جہاں جہاں اُسے بھیجا گیا اُس نے زرداری صاحب کی توقعات کے عین مطابق اپنا کام کر دکھایا اور سرخرو بھی ہوا۔ اُس کی اِن ہی خدمات کو دیکھتے ہوئے ہو سکتا ہے اگلے انتخابات میں بھی اُسے کچھ ایسی ہی بھاری ذمے داریاں سونپی جائیںگی۔

زرداری صاحب کو اچھی طرح معلوم ہے کہ کون سا اسٹروک کب کھیلنا ہے یا شطرنج کی بساط پرکون سا مہرہ کب چلنا ہے۔ یہ اُنہی کے اعلیٰ صلاحیتوں کا خاصہ ہے کہ اینٹ سے اینٹ بجا دینے کی دھمکیاں دینے کے باوجود وہ آج ہماری بالادست قوتوں کے لیے خان صاحب سے بھی زیادہ قابل قبول بنے ہوئے ہیں۔ اُن کے خلاف وہ سارے مقدمات ازخود ختم ہوگئے ہیں جن کی تاب نہ لاکر وہ مقدس اداروں کو دھکمیاں دینے پر اتر آئے تھے۔ اُن کی دوست ایان علی اپنی تمام رعنائیوں اور خوش خرامیوں کے ساتھ ترک وطن کر گئی اور کوئی اس کاکچھ بگاڑ نہیں سکا۔ ڈاکٹر عاصم حسین خود پر لگے 480 ارب روپے کی کرپشن کے الزامات کے باوجود اُسی اعلیٰ عدلیہ سے ریلیف پا کر دیار غیر کو چلے گئے ۔ سندھ حکومت رینجرزکی روز روز کی جن کارروائیوں سے پریشان تھی اور تلملا رہی تھی آج اچانک کیسے ختم ہو گئیں۔ قوم کے باشعور اور سمجھدار حلقے اچھی طرح جانتے ہیں کہ سب کچھ ایسے ہی نہیں ہو رہا۔ اِس کے پس پردہ بھی بہت سے راز پنہاں ہیں۔

میاں صاحب کو اب اچھی طرح جان لینا چاہیے کہ وقت اُن کے ہاتھوں سے نکلا جا رہا ہے۔ وہ چاہیں جتنا شور مچا لیں۔ سمجھوتہ کیے بناء اُن کی جان نہیں چھوٹنے والی۔ یہ ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ اور ’’عدل بحالی تحریک‘‘ کے نعرے کانوں کو تو اچھے لگتے ہیں لیکن حقیقت سے اِن کا دور دور کا بھی واسطہ نہیں۔اِس ملک میں اگر سیاست کرنی ہے تو پھر بالا دست قوتوں کی ہی مرضی ومنشاء کے مطابق کرنا ہوگی۔ جب جب کسی نے اُن کی گرفت سے باہر نکلنے کی کوشش کی اُسے نشان عبرت بنا دیا گیا۔ عوام کے بڑے بڑے اجتماع دیکھ کر میاں صاحب کو خوش فہمی میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں۔ جس طرح بلوچستان اسمبلی میں راتوں رات ارکان کو منحرف کر کے وہاں نون لیگ حکومت کا تیاپانچہ کر دیا گیا، ہمارے ملک میں کسی سیاسی پارٹی کو اِسی طرح توڑ دینا کوئی مشکل یا ناممکن کام نہیں ہے۔

ماضی میں بھی ایسا ہوتا آیا ہے۔ رضاحیات ہراج کی باتوں کو لائق اعتناء سمجھا جائے اور غلط فہمی کے خول سے باہر نکل کر سوچا جائے کہ جنوبی پنجاب تو کیا سارے ملک میں یہ کام باآسانی کیا جا سکتا ہے۔ مسلم لیگی اپنی وفاداریاں بدلنے میں دیر نہیں کیا کرتے۔ ایسا نہ ہوکہ وقت ہاتھوں سے نکل جائے اور پھر میاں صاحب کو جیل سے نکالنے والا بھی کوئی نہ ہو ۔ پچھلی بار تو سعودی حکمراں مہرباں ہوگئے تھے اِس بار تو وہ بھی مدد کو نہیں آئیں گے ۔ حالات تیزی سے اپنے منطقی انجام کو پہنچ رہے ہیں ۔ الیکشن سے پہلے پہلے احتساب عدالتوں کے فیصلے بھی آجائیں گے۔ بصیرت اوردانشمندی کا تقاضا یہی ہے کہ محاذ آرائی اور معرکہ آرائی سے اجتناب کیا جائے۔

جو ہوچکا اُسے اپنی غلطیوں اورکوتاہیوں کا شاخسانہ سمجھاجائے۔ یہ بات ذہن نشین کرلی جائے کہ اِس ملک میں کرپشن اور مالی بد عنوانیوں کے بڑے بڑے جرائم تو معاف کیے جاسکتے ہیں لیکن اداروں سے لڑائی اور محاذ آرائی برداشت نہیں کی جاسکتی ہے ۔ یہ ملکی خدمت کے کارنامے اور عوامی تائید وحمایت سب دھری کی دھری رہ جاتی ہے جب ادارے آپ سے خفا اورناراض ہوں۔طاقت کا سرچشمہ عوام نہیں کوئی اور ہے ۔ یہ جان لینے ہی میں عافیت ہے۔

ملک کو ایٹمی قوت بنانا، ترقی وخوشحالی کے راستے پرگامزن کرنا ، دہشت گردی سے نجات دلانا ، کراچی میں امن قائم کرنا، توانائی کا بحران حل کرنا کوئی حیثیت اور معنی نہیں رکھتا اگر ساتھ ساتھ اداروں کو خوش نہ رکھا جائے، اُن کی اطاعت نہ کی جائے۔ میاں صاحب چالیس برس سے سیاست میں ہیں لیکن ابھی تک یہ ہنر نہیں سیکھ سکے۔ یہ سبق نہیں پڑھ سکے۔انھیں یہ سبق اب پڑھنا بھی ہوگا اور اُس پرعمل بھی کرنا ہوگا تبھی جاکر وہ سیاسی طور پر زندہ وجاوید رہ سکتے ہیں۔جس روز اُنہوں نے اِس حقیقت کوجان لیا اُنہیں ایوان وزیر اعظم سے اپنے نکالے جانے کی وجوہات بھی سمجھ آجائیں گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔