جمعیت علماء اسلام (ف) کی بڑھتی ہوئی سیاسی مشکلات

شاہد حمید  بدھ 21 مارچ 2018
جمعیت علماء اسلام (ف) کی بڑھتی ہوئی سیاسی مشکلات
 فوٹو: فائل

جمعیت علماء اسلام (ف) کی بڑھتی ہوئی سیاسی مشکلات فوٹو: فائل

پشاور: سینٹ انتخابات کوگزرے نصف ماہ ہونے کو آیا ہے تاہم طوفان کے اثرات اب تک محسوس کیے جا رہے ہیں، تحریک انصاف ہو یا جے یوآئی، ان کے اندر اس طوفان کی وجہ سے جو طلاطم پیدا ہوا اس کی وجہ سے یقینی طور پر بہت سے مسائل پیدا ہوئے۔

تاہم اب نصف ماہ گزرنے کے بعد پارٹیاں رفتہ، رفتہ معاملات کو سنبھالنے کی طرف چل پڑی ہیں کیونکہ اگلا مرحلہ عام انتخابات کا ہے جو بالکل قریب آچکا ہے اور تمام پارٹیوں نے پوری تیاری کے ساتھ انتخابی میدان میں اترنا ہے یہی وجہ ہے کہ جمیعت علماء اسلام(ف)جس کے صوبائی امیرمولانا گل نصیب خان نے اپنی شکست پر پارٹی کے مرکزی امیر کوغصہ بھی دکھایا اور زور بھی دکھانے کی کوشش کی اور یہ سلسلہ بدستور جاری ہے کہ انہوں نے ایک جانب تو مرکز وصوبہ کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے ذریعے تحقیقات پر رضامندی ظاہر کی تو ساتھ ہی دوسری جانب مرکز کی جانب سے صوبائی تنظیموں سے امیدواروں کی نامزدگی اور حکومت سازی کے وقت وزیراعلیٰ و ووزراء کی نامزدگی سمیت تمام اختیارات واپس مانگ لیے ہیں جس کی وجہ سے نئی مشکلات پیدا ہونگی۔

چونکہ مولانا فضل الرحمن اس حوالے سے بھی مشکلات کا شکارہیں کہ مسلم لیگ(ن)کے قائدمیاں نوازشریف نے سینٹ چیئرمین کے انتخاب میں ان کے تین ارکان پر بھی شک کا اظہار کیا ہے جس کے بعد مولانا فضل الرحمن نے انھیں مطمئن کرنے کی کوشش کی ہے تاہم جو دراڑ پیدا ہوئی ہے اس کے نتیجے میں اب جے یوآئی کو سنجیدگی سے مسلم لیگ(ن) سے راہیں الگ کرنے کے لیے سوچنا ہوگا۔

تاہم یہ فیصلہ اس لیے قدرے مشکل ہے کہ ایک جانب تو چھٹا بجٹ آرہا ہے اورجے یوآئی نہیں چاہے گی کہ وہ چھٹے بجٹ کے پیش ہونے سے پہلے ہی حکومت سے نکل کر اپوزیشن میں جا بیٹھے جبکہ ساتھ ہی دوسرا اہم مسئلہ ایم ایم اے کے حوالے سے بھی ہے کیونکہ ایم ایم اے کی بحالی ہوتے، ہوتے رہ جاتی ہے، جماعت اسلامی یہ اعتراض اٹھا لائی ہے کہ ایم ایم اے کے غیر فعال ہونے کے وقت اس کی صدارت جماعت اسلامی کے پاس تھی اور قاضی حسین احمد مرحوم اس کے آخری صدر تھے اس لیے یہ بات وہیں سے شروع کرتے ہوئے ایم ایم اے کی صدارت جماعت اسلامی کے حوالے کی جائے نہ کہ مولانا فضل الرحمن کو اس کا صدر بنایا جائے۔

جب ایم ایم اے کا قیام عمل میں آیا تھا اس وقت شاہ احمد نورانی، قاضی حسین احمد اور مولانا سمیع الحق جیسی شخصیات اس کا حصہ تھیں اور ان حالات میں مولانا فضل الرحمن جنرل سیکرٹری کے عہدے پر مطمئن ہوگئے تھے۔ تاہم اب صورت حال الگ ہے اور مولانا فضل الرحمٰن کی کوشش ہے کہ وہ ایم ایم اے کے صدر کے طور پر اس اتحاد کی قیادت کریں۔ تاہم دوسری جانب جماعت اسلامی بھی بڑے طریقے سے اپنے پتے کھیل رہی ہے اور وہ پکے ہوئے پھل کی طرح سب کچھ جے یوآئی کی جھولی میں نہیں پھینکنا چاہتی یہی وجہ ہے کہ ایک جانب تو یہ کہا جا رہا ہے کہ بیس مارچ کو ایم ایم اے کی بحالی بھی ہوجائے گی اور اس کی مرکزی تنظیم کا اعلان بھی کردیا جائے گا تو ساتھ ہی جماعت اسلامی کی مرکزی مجلس عاملہ کے ارکان اس بات پر بھی غور کررہے ہیںکہ ایم ایم اے کی بحالی ہونی چاہیے یا پھر عام انتخابات کے لیے تحریک انصاف کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی جائے کیونکہ جماعت اسلامی، تحریک انصاف کی مقبولیت سے ملنے والے فائدے کو بھی کھونا نہیں چاہتی نہ ہی حکومتوں کے اختتامی فیز میں اس کا ساتھ چھوڑنا چاہتی ہے۔

یہ عام خیال کیا جا رہا ہے کہ اگر ایم ایم اے بحال ہو بھی جائے تو جماعت اسلامی اور جے یوآئی حکومتوں میں رہتے ہوئے یہ دورانیہ پورا کرنے کی کوشش کریں گی اور حالات بھی یہی پتا دے رہے ہیں کیونکہ خیبرپختونخوا میںوزیراعلیٰ پرویزخٹک بہر طور جماعت اسلامی کو مئی تک اپنے ساتھ رکھنے کی کوشش کریں گے تاکہ انھیں صوبائی اسمبلی میں اکثریت بھی حاصل رہے اور ساتھ ہی آئندہ مالی سال کا بجٹ بھی سہولت کے ساتھ پاس کرا لیا جائے اور یہ ایک ایسا مرحلہ ہے جس کی وجہ سے تحریک انصاف کی قیادت ہو یا پھر صوبائی حکومت کے بڑے، وہ اپنے ان ارکان کے خلاف بھی ہاتھ ہولا رکھنے پر مجبور ہوگئے ہیں جنہوںنے سینٹ کے انتخابات میں پارٹی پالیسی اورڈسپلن کی خلاف ورزی کی جس کے نتیجے میں نہ صرف یہ کہ پی ٹی آئی کا ایک امیدوار شکست سے دوچار ہوا بلکہ دوسری جانب پیپلزپارٹی اورمسلم لیگ(ن)کے امیدواروں کو بھی کامیابی ملی، اگرچہ یہ بات پی ٹی آئی اورصوبائی حکومت کو ہضم نہیں ہو رہی ہوگی اور وہ ان ارکان کے خلاف کاروائی کے خواہاں ہونگے تاہم بجٹ منظوری نے ان کے ہاتھ باندھ دیئے ہیں۔

وزیراعلیٰ پرویز خٹک جو میدان سیاست کے گھاگ کھلاڑی ہیں وہ اس بات کو بخوبی جانتے ہیں کہ بجٹ منظوری کے موقع پر اگران کے پاس اکثریت نہ ہوئی تو وہ بجٹ منظور نہیں کرا پائیں گے اور اکثریت ان کے پاس صرف اسی صورت رہ سکتی ہے کہ جب وہ ان ارکان کے خلاف کاروائی سے گریز کریں جنہوںنے سینٹ انتخابات کے موقع پر پارٹی پالیسی پر عمل نہیں کیا یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی اور حکومت کے اندر سے بھی یہ بات سامنا آنا شروع ہوگئی ہے کہ حکومت کا اس وقت سارا فوکس آئندہ مالی سال کے بجٹ کی منظوری پر ہے اور بجٹ منظوری کا عمل مئی کے مہینے کے وسط تک ہی ہو پائے گا جس کے بعد نہ تو حکومت کے پاس اتنا وقت ہوگا کہ کسی رکن کے خلاف کاروائی کر پائے اور نہ ہی کاروائی کے مطالبے میں وہ شدت باقی رہے گی جو تین مارچ کے فوراً بعد تھی جس میں اب وقت گزرنے کے ساتھ کمی آنا شروع ہوگئی ہے، اس صورت حال میں یقینی طورپر وزیراعلیٰ پرویزخٹک کے لیے مارچ اور اپریل گزارنا قدرے مشکل ہوگا تاہم وہ اپنے سیاسی تجربے سے کام لیتے ہوئے یہ سفر سہل بنالیں گے۔

اسی صورت حال کو لیتے ہوئے حکومتی سطح پراس بات پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ بجٹ سیشن سے قبل اسمبلی اجلاس نہ بلایا جائے کیونکہ اگراسمبلی اجلاس بجٹ سے قبل بلایا جاتا ہے تو اس اجلاس میں سینٹ انتخابات میں پیداہونے والا طوفان ہی زیر بحث رہے گا جس کی وجہ سے بہت گرد اڑے گی، پی ٹی آئی کے وہ ارکان جن کے نام پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کے حوالے سے سامنے آتے رہے ہیں وہ بھی خاموش نہیں رہیں گے اور اس وجہ سے حکومت کو بیک فٹ پر جانا پڑے گا کیونکہ اگر حکومت بیک فٹ پر نہ گئی تو یہ ارکان اپنی ناراضگی کا اظہار بجٹ کے موقع پر کرسکتے ہیں اس لیے یہ وقت حکمت کے ساتھ معاملات کو آگے بڑھانے کا ہے اور اسی حکمت سے تحریک انصاف کی قیادت اور صوبائی حکومت کام لے رہی ہے جس کے تحت باغی ارکان کے خلاف کاروائی کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے اور ساری کی ساری توجہ بجٹ پر مرکوز کردی گئی ہے تاکہ بجٹ پاس ہو جائے کیونکہ اس کے بعد اصل مراحل عام انتخابات کے لیے ٹکٹوں کی تقسیم اورنگران سیٹ اپ کا قیام ہوگا جس کے لیے مشاورت تیز کردی گئی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔