موبائل فون پر عائد سیلز ٹیکس واپس لینے کیلیے 48 گھنٹے کا الٹی میٹم

بزنس رپورٹر  اتوار 7 اپريل 2013
کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر ہارون اگرکراچی الیکٹرانکس ڈیلرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین ادریس میمن کے ساتھ پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کررہے ہیں۔  فوٹو: ایکسپریس

کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر ہارون اگرکراچی الیکٹرانکس ڈیلرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین ادریس میمن کے ساتھ پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کررہے ہیں۔ فوٹو: ایکسپریس

کراچی: کراچی،لاہور چیمبرآف کامرس، کراچی و لاہورالیکٹرانکس ڈیلرز ایسوسی ایشن نے نگراں حکومت کی جانب سے موبائل فون کی درآمد پر 500 اور1000 روپے سیلزٹیکس کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے ایس آراو 280 کو 48 گھنٹوں میں واپس لینے کا مطالبہ کردیا ہے۔

بصورت دیگرکسٹم ہاؤس کا گھیراؤ، کاروبار بند کرنے اور عدالت میں پٹیشن دائر کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ ہفتہ کو کراچی پریس کلب میں مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کراچی چیمبر آف کامرس کے صدر ہارون اگر، کراچی الیکٹرانکس ڈیلرز ایسوسی ایشن (کیڈا)کے صدر محمد ادریس میمن، لاہور سے ٹیلی فون کے ذریعے لاہور چیمبر کے نائب صدر ابوذر اورلاہور الیکٹرانکس ڈیلرز ایسوسی ایشن کے صدر بابر محمود نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نگراں حکومت کا کام صرف شفاف انتخابات کرانا ہے نہ کہ یکطرفہ بنیادوں پر ایس آراوز جاری کرتے ہوئے تجارتی وصنعتی سرگرمیوں کو متاثر کرنا ہے۔

پریس کانفرنس کے دوران لاہورچیمبر، کراچی، لاہور الیکٹرانکس ڈیلرز ایسوسی ایشن کے نمائندوں نے نگراں حکومت کے حالیہ فیصلے کے خلاف باقاعدہ مزاحمتی تحریک شروع کرنے کا اعلان کیا لیکن کراچی چیمبر کے صدر ہارون اگر کی جانب سے کسی بھی ہڑتال کا حصہ بننے کے بجائے مقامی تجارت کو متاثر کرنے کے حامل حالیہ متنازع تمام ایس آر اوز کو واپس لینے کے لیے حکومت پر دباؤبڑھانے کا اعلان کیا گیا۔ پریس کانفرنس سے خطاب میں ادریس میمن نے کہا کہ ایس آر او 280(I)2013 سمیت دیگر متنازع ایس آراوز کے اجرا میں سابق حکومت کی حمایت یافتہ بیوروکریسی ملوث ہے جو اپنے اس طرز عمل سے منظم انداز میں پاکستانی عوام تاجروصنعت کاروں میں یہ تاثر عام کرنا چاہتی ہے کہ سابقہ دورحکومت موجودہ نگراں حکومت سے بہتر تھی۔

انہوں نے کہا کہ سابقہ حکومت نے اختتامی لمحات اورنگراں حکومت نے حال ہی میں متنازع ایس آر اوز جاری کرکے اسمگروں کے مفادات کو بھرپور تحفظ فراہم کرنے کی کوشش کی ہے، پاکستان میں سالانہ 24 لاکھ موبائل فونز درآمد ہوتے ہیں جن میں سے 50 فیصد برانڈڈ اسمارٹ فونز افغانستان، ایران، دبئی ودیگر خلیجی ممالک کو ری ایکسپورٹ کردیے جاتے ہیں، ایس آراو280 کے اجرا کے بعد درآمدکنندگان نے اپنی شپمنٹس روک دی ہیں جبکہ صرف ایئرفریٹ یونٹ کراچی میں ایک لاکھ سے زائد موبائل یونٹس کی کلیئرنس بھی رک گئی ہے جو تاجروں میں اشتعال کا باعث بن رہی ہے۔

4

انہوں نے حکومت کو خبردار کیا کہ اگر48 گھنٹوں میں ایس آراو280 واپس نہ لیا گیا تو کسٹم ہاؤس کراچی سمیت تمام ڈرائی پورٹس، بندرگاہیں اورایئرپورٹس سے کنسائنمنٹس کی کلیئرنس روک دی جائیں گی، جب مزاحمت کا یہ سلسلہ شروع ہوگا تو کراچی چیمبر کے رکن تاجروصنعتکار بھی ہمارے احتجاج میں شریک ہونے پر مجبور ہوں گے۔ کراچی چیمبرکے صدرہارون اگر نے کہا کہ نگراں حکومت کی جانب سے جاری کردہ ایس آر اوکا مقصد ریونیو بڑھانا نہیں بلکہ کم کرنا ہے، چائے، پلاسٹک، ٹیکسٹائل، گارمنٹس ودیگردرآمدی مصنوعات کے حوالے سے جو نئے متنازع ایس آر اوز جاری کیے گئے ہیں وہ ریونیومیں خطرناک حد تک شارٹ فال کا باعث بنیں گے۔

لاہور چیمبر آف کامرس ینڈ انڈسٹری کے نائب صدر ابوذر شاد نے کہا کہ ہمیں افغانستان ٹریڈ کی جانب دھکیلنے کی سازش کی جا رہی ہے، ملک میں غیرقانونی اقدامات پروان چڑھ رہے ہیں، رات کو سوکر صبح اٹھیں تو ایک نیا ایس آر اوجاری کردیا جاتا ہے، اسمگلروں کو تحفظ دیا جارہا ہے۔ لاہور الیکٹرانکس ڈیلرز ایسوسی ایشن کے صدر بابر محمودنے مطالبہ کیا کہ ایس آر او 280(I)2013 کو واپس لیا جائے کیونکہ اس سے نہ صرف موبائل فون کا کاروبار تباہ ہوجائے گا بلکہ اسمگلنگ کو بھی فروغ ملے گا جو پہلے ہی معیشت کو تباہ کررہی ہے۔

انہوں نے درآمدی سطح پر اسمارٹ فون پر ایک ہزار روپے سیلز ٹیکس کے نفاذ پر شدید احتجاج کیا اور کہا کہ نگران وزیراعظم کاروبار دشمن ایس آر اوز کے اجرا کا سختی سے نوٹس لیں کیونکہ اس وقت معیشت کو پہلے ہی بہت سے اندرونی و بیرونی چیلنجز کا سامنا ہے اور ان حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے ایف بی آرکو تاجردشمن پالیسی اختیار کرنے کے بجائے پیشہ ورانہ اصولوں کی بنیاد پر منصفانہ اقدامات بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔