- معیشت کی بہتری کیلیے سیاسی و انتظامی دباؤبرداشت نہیں کریں گے، وزیراعظم
- تربت حملے پر بھارت کا بے بنیاد پروپیگنڈا بے نقاب
- جنوبی افریقا میں ایسٹر تقریب میں جانے والی بس پل سے الٹ گئی؛ 45 ہلاکتیں
- پاکستانی ٹیم میں 5 کپتان! مگر کیسے؟
- پختونخوا کابینہ؛ ایک ارب 15 کروڑ روپے کا عید پیکیج منظور
- اسلام آباد ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی رہنما کو عمرے پرجانے کی اجازت دے دی
- مشترکہ مفادات کونسل کی تشکیل نو، پہلی بار وزیر خزانہ کی جگہ وزیر خارجہ شامل
- پنجاب گرمی کی لپیٹ میں، آج اور کل گرج چمک کیساتھ بارش کا امکان
- لاہور میں بچے کو زنجیر سے باندھ کر تشدد کرنے کی ویڈیو وائرل، ملزمان گرفتار
- پشاور؛ بس سے 2 ہزار کلو سے زیادہ مضر صحت گوشت و دیگر اشیا برآمد
- وزیراعلیٰ پنجاب نے نوازشریف کسان کارڈ کی منظوری دے دی
- بھارتی فوجی نے کلکتہ ایئرپورٹ پر خود کو گولی مار کر خودکشی کرلی
- چائلڈ میرج اور تعلیم کا حق
- بلوچستان؛ ایف آئی اے کا کریک ڈاؤن، بڑی تعداد میں جعلی ادویات برآمد
- قومی ٹیم کی کپتانی! حتمی فیصلہ آج متوقع
- پی ایس 80 دادو کے ضمنی انتخاب میں پی پی امیدوار بلامقابلہ کامیاب
- کپتان کی تبدیلی کیلئے چیئرمین پی سی بی کی زیر صدارت اہم اجلاس
- پاکستان کو کم از کم 3 سال کا نیا آئی ایم ایف پروگرام درکار ہے، وزیر خزانہ
- پاک آئرلینڈ ٹی20 سیریز؛ شیڈول کا اعلان ہوگیا
- برج خلیفہ کے رہائشیوں کیلیے سحر و افطار کے 3 مختلف اوقات
نئی حکمت عملی کے بعد پاکستان زیادہ تعاون کر رہا ہے، جان بیس
واشنگٹن / کابل: افغانستان میں امریکی سفیر جان بیس نے کہا ہے کہ نئی امریکی حکمت عملی پرعملدرآمد شروع ہونے کے بعد پاکستانی حکومت قدرے زیادہ تعاون کر رہی ہے لیکن ابھی یہ پیش رفت کافی نہیں ہے۔
پاکستان کو ابھی قابل ثبوت کوشش کرنی ہوگی کہ پاکستان سے پیش آنے والے دہشت گرد حملوں کے خطرات کو ختم کیا گیا ہے جن کی وجہ سے افغانستان اور خطے کے دیگر ملکوں کو خدشہ لاحق رہتا ہے، جب تک طالبان کھلے دروازے سے اندر داخل نہیں ہوتے انھیں انتہائی شدید فوجی دبائو کا سامنا رہے گا۔ امریکی نشریاتی ادارے کے مطابق جان بیس نے یہ بات افغان سروس کو دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں کہی ہے۔ ایران کے الزام پر کہ افغانستان میں داعش کے فروغ کا ذمے دار خود امریکا ہے، جان بیس نے کہا کہ یہ مضحکہ خیز الزام ہے۔
افغانستان اور پاکستان کے چوٹی کے اہل کاروں نے امن اور باہمی اعتماد کے حصول کے عزم کا اعادہ کیا ہے، سفیر نے کہا کہ یہ بات اب طالبان پر منحصر ہے کہ وہ کیا بات پسند کرتے ہیں، انھوں نے کہا کہ افغانستان میں پائیدار امن کے حصول کے لیے لازم ہے کہ امن اور مفاہمت کا راستہ اختیار کیا جائے لیکن اِس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ امریکا طالبان کے لیے میدان خالی چھوڑ دے گا۔ ایسا نہیں ہوگا کہ ہم افغان سیکیورٹی فورسزسے کہیں کہ وہ اپنا کام بند کردیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔