راؤ انوار کی گرفتاری؛ قانونی تقاضے پورے کیے جائیں

ایڈیٹوریل  جمعرات 22 مارچ 2018
کسی مفرور ملزم اور قتل جیسے واقعے میں شامل فرد کے لیے سیاستدانوں کو اپنے بیانات میں احتیاط کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ فوٹو: فائل

کسی مفرور ملزم اور قتل جیسے واقعے میں شامل فرد کے لیے سیاستدانوں کو اپنے بیانات میں احتیاط کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ فوٹو: فائل

نقیب اﷲ قتل کیس میں مفرور ملزم سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار بالآخر سپریم کورٹ میں پیش ہوگئے جہاں انھیں عدالتی حکم پر گرفتار کرلیا گیا۔ ایک عرصہ کی روپوشی کے بعد راؤ انوار کے عدالت کے سامنے پیش ہونے پر چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے راؤ انوار سے صائب سوال کیا کہ اتنے دن کہاں چھپے رہے، آپ تو بہادر اور دلیر تھے، یقین دہانی کرائی تھی پھر بھی آپ نے عدالت پر اعتماد نہیں کیا۔

جناب چیف جسٹس کے کمنٹس نے کئی باتوں کی طرف واضح اشارہ کردیا ہے، لیکن معاملے کا مثبت پہلو یہ ہے کہ عدالت میں پیشی کے بعد قانونی پراسیس میں آسانی رہے گی، راؤ انوار کے غائب ہونے سے کئی شکوک نے جنم لیا تھا جب کہ پیپلز پارٹی کے معاون چیئرمین آصف علی زرداری کی جانب سے ایک بیان میں راؤ انوار کو ’’بہادر بچہ‘‘ کہنے اور عدالت میں پیش نہ ہونے پر بااثر شخصیات کی جانب انگلیاں اٹھ رہی تھیں۔

کسی مفرور ملزم اور قتل جیسے واقعے میں شامل فرد کے لیے سیاستدانوں کو اپنے بیانات میں احتیاط کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ راؤ انوار کی گرفتاری کے بعد امید کی جارہی ہے کہ اس کیس میں تمام قانونی تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اور کسی بھی سیاسی دباؤ میں آئے بغیر مبنی بر انصاف فیصلہ سنایا جائے گا۔ قانون اپنا رستہ خود بنائے گا۔ قانون اور ریاست کے مظاہر جمہوری حکومتوں کے لیے ٹیسٹ کیس ہوا کرتے ہیں۔

گزشتہ روز سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ راؤ انوار عدالت میں پیش ہوں تو بچ جائیں گے۔ اس بات کا خدشہ ظاہر کیا جارہا تھا کہ راؤ انوار کی پیشی سے کچھ ناگفتہ حقائق اور سیاسی حواریوں سے متعلقہ انہونی داستانیں منظر عام پر نہ آسکیں اس لیے راؤ انوار کو منظر عام سے غائب کرنے کے لیے کچھ بھی اس کے ساتھ عدالت کے باہر ہوسکتا تھا۔ ماورائے عدالت قتل معاشرے کے بھیانک چہرے کو ظاہر کرتا ہے۔

واضح رہے کہ رواں سال 13 جنوری کو ملیر کے علاقے شاہ لطیف ٹاؤن میں نقیب اﷲ محسود کو دیگر 3افراد کے ہمراہ دہشت گرد قرار دے کر پولیس مقابلے میں قتل کردیا گیا تھا۔ واقعے کے بعد 27 سالہ نوجوان نقیب اﷲ کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر اس کی تصاویر اور فنکارانہ مصروفیات کے باعث سوشل میڈیا پر اس قتل کے خلاف کافی لے دے ہوئی اور میڈیا نے بھی اسے ہاتھوں ہاتھ لیا اور اس سفاکانہ قتل کی مذمت کی۔

بعد ازاں چیف جسٹس آف پاکستان کی جانب سے اس معاملے پر ازخود نوٹس لیا گیا جس کی سماعت جاری ہے۔ سپریم کورٹ نے صائب حکم دیا ہے کہ اس کیس کی آزادانہ تحقیقات ہونی چاہیے، راؤ انوار کو تحقیقات مکمل ہونے تک حفاظت میں رکھا جائے۔ راؤ انوار سے تفتیش کے لیے سپریم کورٹ نے 5 رکنی جے آئی ٹی بھی تشکیل دے دی ہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ ماورائے عدالت قتل کے حوالے سے ایک بڑے کیس کی تحقیقات میں شفافیت اور تمام قانونی تقاضے پورے کیے جائیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔