منصفانہ اقتصادی نظام کے وعدے

ایڈیٹوریل  جمعرات 22 مارچ 2018
بنیادی حقیقت یہی ہے کہ معاشی نظام آج بھی استحصال، لوٹ کھسوٹ، بندر بانٹ اور عدم مساوات سے پاک نہیں ہوسکا۔ فوٹو: فائل

بنیادی حقیقت یہی ہے کہ معاشی نظام آج بھی استحصال، لوٹ کھسوٹ، بندر بانٹ اور عدم مساوات سے پاک نہیں ہوسکا۔ فوٹو: فائل

بیرونی کھاتوں کے بلند خسارے، زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی و دیگر عوامل کی وجہ سے زرمبادلہ کی مارکیٹوں میں پاکستانی روپے کی قدر پھر گر گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے امریکی ڈالر 115.5 روپے کی بلندترین سطح پر پہنچ گیا.

انٹربینک مارکیٹ میں منگل کوامریکی ڈالر کی قدر3.2 روپے کے اضافے سے 113.85 روپے جب کہ اوپن مارکیٹ میں2.7 روپے کے اضافے سے114.5روپے ہوگیا، منگل کو انٹربینک مارکیٹ میں کاروبار کے آغاز سے ہی روپے کی بے قدری شروع ہوگئی تھی، بینکوں کے درمیان اس لین دین سے اوپن مارکیٹ میں بھی کرنسیوں کا توازن بری طرح بگڑگیا جس کی وجہ سے اوپن مارکیٹ میں کرنسیوں کی لین دین کچھ وقفے کے لیے بند کردی گئی۔

ڈالر کی اڑان اور اس کے نتیجہ میں پاکستانی روپے کے پھیکے پکوان کی اس دلگداز معاشی داستان کے بہت سارے پیچیدہ رازوں سے عوام سرے سے واقف نہیں، اور ہوتے بھی کیسے کہ معاشی اعدادوشمار کا گورکھ دھندا صرف بجٹ کی تفصیلات سے مشروط نہیں بلکہ ملکی اقتصادیات کے حقائق بھی قوم سے چھپائے گئے۔ ایک زمانہ تھا کہ بجٹ کی ابتدا اس بات سے شروع ہوتی کہ بجٹ سے عام آدمی متاثر نہیں ہوگا۔

خدا خدا کرکے اس گھسے پٹے فقرہ سے قوم کی جان چھوٹی مگر آج کا ملین ڈالر سوال یہ ہے کہ جس ملکی معیشت کے 2025ء میں دنیا کی25بڑی معیشتوں میں شمار ہونے کے بلند بانگ دعوے کیے جارہے ہیں وہاں پاکستانی روپے کی بے توقیری اور ڈالر کی حکمرانی کے عجیب تضادات نے سارا پول کیسے کھول دیا؟

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثارکا کہنا ہے کہ باہر پڑی ملکی دولت پاکستان لانا چاہتے ہیں جب کہ جسٹس عطا عمر بندیال نے قراردیا کہ بازار سے ڈالر خرید کر سب پاک کرلیاجاتا ہے۔ادھر اسٹیٹ بینک نے اپنے بیان میں بتایا کہ زرمبادلہ منڈیاں درست طور پر کام کررہی ہیں، انٹربینک مارکیٹ میں روپے اور ڈالر کے ایکس چینج ریٹ میں ایڈجسٹمنٹ ہورہی ہے۔

ادائیگیوں کے دباؤ کی وجہ سے روپے کی قدر میں گراوٹ ہوئی لیکن کسی بھی مصنوعی اتار چڑھاؤ کی صورت میں ایکشن لیا جائے گا۔ فاریکس ایسوسی ایشن آف پاکستان کے صدر ملک بوستان نے بتایا کہ بیرونی قرضوں کی وجہ سے زرمبادلہ منڈیاں مشکلات کا شکار ہوئی ہیں، کاروبار کے دوران ڈالر کو 116 روپے پر بھی دیکھا گیا اور صورتحال سے فائدہ اٹھانے کے لیے بعض چھوٹے بینکوں نے ڈالر کے انٹر بینک ریٹ118 روپے اور118.5 روپے بھی کوٹ کیے۔

انھوں نے بتایا کہ ڈالر کے انٹربینک میں اچانک اضافے سے اوپن مارکیٹ میں بحرانی کیفیت طاری ہوگئی تھی جہاں ایک گھنٹے سے زائد وقت تک امریکی ڈالر کی لین دین روک دی گئی لیکن تقریباً ساڑھے 12 بجے دوپہر اوپن مارکیٹ میں سرگرمیاں بحال ہوئیں۔

مشیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے حال ہی میں آئی ایم ایف  کی ڈکٹیشن نہ لینے کا اعلان کیا تھا لیکن آج اسی کی ڈکٹیشن پر ہی روپے کی قدر غیرعلانیہ طورپرکم کی گئی، منگل کو چند گھنٹوں میں ہی پاکستان پر واجب الادا88.89 ارب ڈالر مالیت کے بیرونی قرضوں کا حجم بھی ہوشربا حد تک بڑھ گیا ہے۔

ذرائع کے مطابق ملکی ایکسپورٹ، ترسیلات زر میں کمی اور امپورٹ بل میں مسلسل اضافہ سے روپے پر دباؤ اور ڈالر کی قیمت میں مزید اضافہ ہوگا، یہ بات یہاں قابل غور ہے کہ معاشی مبصرین نے ادائیگیوں کے توازن میں مضمر کمزوریوں کی بار بار نشاندہی کی۔

ایک سابق مشیر خزانہ نے اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ2016-17  کے دوران پاکستان کا تجارتی خسارہ 30 ارب ڈالرتھا، برآمدات میں تین فی صد کمی آئی، جب کہ درآمدات میں اکیس فیصد اضافہ ہوا، ان کا کہنا تھا کہ ملکی اقتصادیات میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ درآمدات ، برآمدات سے بڑھ گئی ہوں ، اور یہ تقابلی تفاوت بھی اس وقت رونما ہوئی جب عالمی مارکیٹ میں خام درآمدی تیل کی قیمتیں گر رہی تھیں ۔آج ترسیلات زر19ارب ڈالر سے کم ہوکر17ارب ڈالر رہ گئی ہیں۔

اس طرح 16ارب ڈالر خسارے کا سامنا ہے ، ماہر اقتصادیات ڈاکٹر قیس اسلم کا کہنا ہے کہ ہماری امپورٹ میں مسلسل اضافہ اور ایکسپورٹ میں مسلسل کمی ہورہی ہے، بیرون ملک پاکستانیوں کی طرف سے ترسیلات زر میں 2ارب ڈالر کی کمی ہوئی ہے جو تشویش ناک ہے۔ انھوں نے تجویز دی کہ اسٹیٹ بینک فوری مداخلت کرے اور ڈالر کی قیمت کو منجمد کرے۔اخباری خبر کے مطابق بیرونی کھاتوں کے بلند خسارے، زر مبادلہ کے ذخائر میں کمی و دیگر عوامل کی وجہ سے زرمبادلہ کی مارکیٹوں میں پاکستانی روپے کی قدر پھر گر گئی ہے۔

یہ تو ماہرین اقتصادیات اور تاجر برادری کے اندازے ہیں مگر بنیادی حقیقت یہی ہے کہ معاشی نظام آج بھی استحصال، لوٹ کھسوٹ، بندر بانٹ اور عدم مساوات سے پاک نہیں ہوسکا بلکہ ملک کرپشن اور اشرافیائی مفادات کی دلدل میں اتر گیا ہے جہاں خط افلاس سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کا والی وارث کوئی نہیں، مہنگائی کا سیلاب آنے والا ہے، پٹرول مصنوعات کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں۔

حکومت نے اس وقت بھی تیل کی قیمتوں میں کمی کے ثمرات سے عوام کو محروم رکھا جب انٹرنیشنل مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں مسلسل گررہی تھیں،اوپیک ممالک میں ہلچل مچی ہوئی تھی اور تیل پیدا کرنے والے ممالک صورتحال سے نمٹنے کی تدبیریں کر رہے تھے، مگر کسی حکومت نے عوام کی دستگیری نہیں کی اور نہ انھیں ریلیف ملا۔ اگر ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کے سماجی، تعلیمی، بلدیاتی اور معاشی حالات پر نظر ڈالی جائے تو ایشیا کا خوبصورت شہر کہلانے والا شہر قائد آجکل موئن جو دڑو کی تصویر پیش کررہا ہے۔

جہاں شہری علاقوں کو صاف پانی، خالص دودھ اور ٹرانسپورٹ کی سہولتیں میسر نہیں ہیں، شہریوں کو سرکاری نرخ پر دودھ نہیں مل رہا، دودھ کے بیوپاریوں کا موقف اور ان کو درپیش مشکلات کو سننے کے بعد لازم تھا کہ ایڈمنسٹریشن اپنے حکم پر عملدرآمد کراتی مگر دودھ کی دکانیں بند رہیں، شہری پینے کے صاف پانی کی قلت کے بعد مہنگا دودھ خرید رہے ہیں جب کہ روزگار کے مواقع سکڑتے جارہے ہیں ، معیار زندگی کی بہتری کی امید ایک زوال پذیر معیشت یا اشرافیائی اقتصادی نظام سے عام آدمی کی کیا دیرپا توقعات ہوسکتی ہیںاور عوام حکومتی معاشی ترقی کے خوشنما دعوؤں اوردلفریب وعدوں کا کیسے اعتبار کریں کہ منگل کو چند گھنٹوں میں ہی پاکستان پر واجب الادا 88.89ارب ڈالر مالیت کے بیرونی قرضوں کا حجم ہوشربا حد تک بڑھ گیا۔

حقیقت یہ ہے کہ اکتوبر2017 سے معاشی اتار چڑھاؤ کی چہ میگوئیاں شروع ہوچکی تھیں اور اسحاق ڈار کی لندن روانگی اور کیسز کی سماعت کے بعد معیشت کی صورتحال کا کئی زاویوں سے محاسبہ کیا گیا، ماہرین کا مطالبہ تھا کہ ایک مکمل وزیرخزانہ کی ضرورت ہے جو عالمی اقتصادی اور مالیاتی اداروں سے معاملات کی درستگی کے لیے حکمت عملی تیار کرے، حکومت کے ناقدین کا کہنا تھا کہ حکومت کو معاشی ایمرجنسی لگانی چاہیے تھی۔

گذشتہ دنوں مشیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے ورلڈ اکانومک فنانس فورم سے خطاب کرتے ہوئے یقین دلایا کہ معیشت کی صورتگری اور بجٹ تجاویز کے ساتھ ایمنسٹی اسکیم بھی متعارف کرائی جارہی ہے، ان کا کہنا تھا کہ حکومت کے آخری بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا جائے گا۔جی ڈی پی کی 6 فیصد شرح حاصل ہوگی، ٹیکس فرینڈلی پالیسی نافذ ہوگی۔ موقع کی مناسبت سے مرزا غالب کا یہ تیر بہدف شعر ملاحظہ کیجیے۔

تیرے وعدے پہ جئے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا

کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔