نئی زندگی کی تلاش

عبدالقادر حسن  جمعرات 22 مارچ 2018
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

ملک میں پانی کی قلت کے متعلق منعقد ہونے والے سیمیناروں میں آبی ماہرین ہمیں وقتاً فوقتاً اس بات کی یاد دہانی کراتے رہتے ہیں کہ ملک میں پانی کی شدید قلت ہونے والی ہے بلکہ اگر حقیقت میں دیکھا جائے تو یہ قلت ہو چکی ہے جس کی وجہ سے ہماری زمینیں بنجر ہوتی جا رہی ہیں۔ پاکستان کو دنیا کے ان ممالک میں شامل کیا جا رہا ہے جو کہ پانی کی شدید قلت کا شکار ہیں اور آنے والوں چند سالوں میں یہ قلت ایک بدترین قحط میں بھی تبدیل ہونے جا رہی ہے۔

پاکستان کے آبی ذخائر اپنی میعاد پوری کر چکے ہیں اور ان کی مرمت اور ان میں سے مٹی نکال کر ان کو کچھ عرصے تک فعال رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ ہم نے پانی پر سیاست تو کی لیکن یہ نہیں سوچا کہ ہماری یہ سیاست ملکی مفاد کے لیے کتنی مفید ہے یا زہر قاتل ثابت ہو رہی ہے لیکن ہم نے اپنی ہٹ دھرمی کے باعث ملکی مفاد کو پس پشت ڈال دیا اور اپنی سیاست کو ترجیح دی جس کا خمیازہ قوم بھگتنے جا رہی ہے اور اس وقت پانی کی سیاست کرنے والے ہمارے لیڈر حضرات کسی ٹھنڈے ملک میں آرام سے زندگی بسر کررہے ہوں گے اور ان کے ووٹر پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہوں گے۔

آبی ذخائر کی قلت کی وجہ سے صورتحال یہ بن گئی ہے کہ ہمارے پاس جو بچا کھچا پانی رہ گیا ہے اس کو بھی محفوظ کرنے سے قاصر ہیں ۔ یہ صورتحال کوئی راتوں رات پیدا نہیں ہوئی بلکہ اس کے لیے برسوں پہلے سے اس بات کے اشارے دیے جا رہے تھے کہ وہ وقت قریب ہے جب پاکستان پانی کی قلت والے ملکوں میں شامل ہو جائے گا لیکن ہم نے اس قدرتی وارننگ کو درخور اتنا نہ سمجھا اور ڈنگ ٹپاؤ پالیسی ہی جاری رکھی ۔ اگر کسی کو کبھی کبھار خیال آہی گیا تو اس نے اس سلسلے میں کوئی کمیٹی بنا دی لیکن اب جب کہ حقیقت میں پانی سر سے گزر چکا ہے تو پھر بھی ہم آبی ذخائر کے بارے میں کوئی خاطر خواہ اقدامات کرنے سے گریزاں ہیں ۔

گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان نے پانی ذخیرہ کرنے کے لیے کوئی ڈیم تعمیر نہیں کیا وہ تو بھلا ہو ایوب خان جو ہمیں ڈیم بنا کر دے گیا ورنہ اب تک ہم ایک بنجر ملک میں تبدیل ہو چکے ہوتے ۔ پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے اور اس کے عوام کا انحصار مختلف قسم کی اجناس کی پیداوار پر ہے ہم نے دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام تو بنا لیا لیکن ان نہروں میں پانی فراہم کرنے کے لیے مستقل بنیادوں پر کوئی کام نہیں کیا جس کے نتائج آنا شروع ہو چکے ہیں، کسان اپنی فصلوں کو اپنے سامنے خشک ہوتا دیکھ رہے ہیں ۔

دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلیوںکے باعث پاکستان میں بھی بارشیں کم ہو رہی ہیں جس کی وجہ سے زیر زمین پانی بھی کم ہو چکا ہے اور بعض بارانی علاقوں کی صورتحال تو کچھ ایسی ہو گئی ہے کہ زیر زمین پانی کی گہرائی کی کمی کے باعث پانی نکالنا ناممکن ہو چکا ہے اور عوام کو پینے کے پانی میں بھی مشکلات کا سامنا ہے۔ ہماری حکومت نے بارانی علاقوں میں منی ڈیم کا ایک سلسلہ شروع کیا تھا جو کہ بارشوں کی کمی کے باعث اپنی افادیت کھو چکا ہے اور بیشتر بارانی علاقوں میں ڈیم خشک ہو گئے ہیں جس کی وجہ سے زمینیں دوبارہ سے بنجر ہو گئی ہیں۔

آبی ماہرین کی ایک تازہ ترین رپورٹ کے مطابق پاکستان کو خطرناک حد تک پانی کی کمی کا سامنا ہے اور ہمارے دونوں بڑے ڈیموں منگلا اور تربیلا میں پانی کی سطح ڈیڈ لیول تک پہنچ گئی ہے پاکستان دنیا کے ان پندرہ ممالک میں شامل ہو چکا ہے جہاں آبی قلت شدت اختیار کرتی جارہی ہے جب کہ پانی کے استعمال کرنے کے حوالے سے اس کا چوتھا نمبر ہے۔

بین الاقوامی معیار کے مطابق کسی ملک کو اپنی پانی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کم از کم ایک سو بیس دنوں کا پانی ذخیرہ رکھنا چاہیے جب کہ پاکستان کے پاس صرف تیس دنوں کا ذخیرہ رکھنے کی صلاحیت موجود ہے۔ پاکستان میں دستیاب آبی وسائل کا صرف سات فیصد پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش موجود ہے جب کہ دنیا میں یہ معیار چالیس فیصد ہے ۔ ذخیرے کی کم گنجائش کے باعث پاکستان کو سالانہ تیس سے پینتیس ارب ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے۔ اس بڑھتے ہوئے خطرے کا ادراک کسی کو نہیں ہے۔

جب بھی یہ مسئلہ سر اٹھاتا ہے تو ہنگامی بنیادوں پر کام شروع کر دیا جاتا ہے لیکن پھر نامعلوم اس کو کیوں سرد خانے کی نذر کر دیا جاتا ہے حالانکہ یہ بات سب جانتے ہیں کہ زندگی کا دوسرا نام پانی ہے مگر اس کے بارے میں کوئی سنجیدہ کوشش ہی نہیں کی جا رہی۔ کیا ہم اس وقت کا انتظار کر رہے ہیں جب سب کچھ ختم ہو جائے گا اورہم اپنے سر کو پیٹیں گے، اپنی آنے والی نسلوں کوکس طرح کا پاکستان دے کر جا رہے ہیں۔ درحقیقت ہم نے نئے ڈیموں کے بارے میں بات چیت تو بہت کی لیکن ان کی بنیاد کی ایک اینٹ بھی نہ رکھی جاسکی ۔

میں پھر عرض کروں گا کہ پاکستان کے مستقبل کا انحصار صرف اور صرف کالا باغ ڈیم میں ہے جس سے نہ صرف پاکستان سیراب ہوگا بلکہ سستی بجلی کی فراہمی بھی ممکن ہو جائے گی اور بجلی کا دیرینہ مسئلہ کسی حد تک حل ہو جائے گا لیکن ہم نے ابھی تک کالا باغ پر صرف سیاست ہی کی ہے اس کی حمایت اور مخالفت میں بیان ہی داغے ہیں تاکہ ہمارے ووٹر مطمئن رہیں۔

ہمارے سیاستدانوں کا یہ محبوب مشغلہ ہے کہ وہ پہلے کسی منصوبے کو متنارعہ بنا کر پھر اس سے سیاسی فائدہ اٹھاتے ہیں، کالا باغ اس کی بہترین مثال ہے جسے ہمارے سیاستدانوں نے ایک ایسا تنارعہ بنا دیا ہے جو کہ حل ہونے میں ہی نہیں آرہا حالانکہ سب جانتے ہیں کہ کالاباغ ڈیم میں ہی زندگی ہے، یہ ایک ایسا قدرتی ڈیم ہے جس کی تعمیر کم سے کم وقت میں کی جا سکتی ہے اور پاکستان کو بچایاجا سکتا ہے لیکن یہاں کسی کا ایجنڈا پاکستان بچانے کا نہیں بلکہ پاکستان کھانے کا ہے اور ابھی تک ہمارے ملک کے کرتا دھرتا اس میں کامیاب ہیں۔ میں ایک بات بڑے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ جس حکمران نے بھی کالاباغ بنا دیا تو پاکستانی عوام اسے تا عمر بادشاہی کا تاج پہنا دیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔