این ایس ایف کی تاریخی جدوجہد

ظہیر اختر بیدری  جمعرات 22 مارچ 2018
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

پاکستان میں بائیں بازو کی جب بھی تاریخ لکھی جائے گی اس میں این ایس ایف کا ذکر سنہری حروف میں کیا جائے گا۔ این ایس ایف کی جدوجہد کی ایک تاریخ ہے اور اس تاریخ کو دو دوستوں حسن جاوید اور حسن ذوالفقار نے بڑی محنت سے مرتب کیا ہے اس چھ سو صفحات کی کتاب کا عنوان ’’سورج پہ کمند‘‘ رکھا گیا ہے۔

این ایس ایف نے اپنی تاریخ میں اس ملک کے گلے سڑے نظام کو بدلنے کی جدوجہد میں جس بے جگری سے حصہ لیا اور جو قربانیاں دیں وہ بائیں بازو کی تحریک کا ایک سنہرا باب ہیں خاص طور پر آمروں کے خلاف لڑی جانے والی لڑائیوں میں جو قربانیاں دیں وہ این ایس ایف کی تاریخ کا ایک قابل فخر حصہ ہیں، این ایس ایف کے شرکا میں سیکڑوں نوجوان شامل ہیں جن کا سرسری تعارف اس کتاب ’’سورج پہ کمند‘‘ میں کیا گیا ہے، این ایس ایف کی بکھری ہوئی تاریخ کو جس عرق ریزی سے مرتب کیا گیا ہے وہ کوئی آسان کام نہیں۔

کتاب کی ابتدا میں این ایس ایف کے مقاصد کے عنوان سے یہ مقاصد پیش کیے گئے ہیں۔

1۔پاکستان ایک آزاد اور خوشحال ملک بنے۔

2۔ پاکستانی معاشرہ آزادی انصاف اور محنت کی عظمت کی بنیاد پر استوار ہو۔

3۔ ملک کی باگ ڈور محب وطن محنت کش طبقے کے ہاتھ میں ہو جو دن رات محنت کرکے وطن عزیز کی تعمیر میں مصروف ہے۔

4۔ تعلیم لازمی اور عام ہو، روزگار کی ضمانت حاصل ہو نظام تعلیم بامقصد اور قومی مفادات کے مطابق ہو۔

5۔ آزادی تقریر تحریر و اجتماع ہو۔ بنیادی حقوق ہر شخص کو میسر ہوں۔

این ایس ایف کے مقاصد کی وضاحت کے بعد این ایس ایف کا منشور پیش کیا گیا ہے۔جو یہ ہے۔

1۔معاشرے کے باشعور عنصر کی حیثیت سے طلبا کو پاکستان گیر بنیادوں پر منظم کرنا۔

2۔طلبا میں سیاسی شعور اور حب الوطنی کو فروغ دینا۔ جمہوری طرز فکر کو فروغ دینا۔ اور پاکستان کی آزادی، خودمختاری، ترقی اور خوشحالی کی جدوجہد کے لیے طلبا کو تیار کرنا۔

3۔طلبا کے مطالبات کے حصول کے لیے جدوجہد کرنا۔ فرسودہ نظام تعلیم کو ختم کرنا۔ قومی مفادات سے ہم آہنگ نظام تعلیم، میٹرک تک یکساں اور لازمی تعلیم اور گریجویشن تک مفت تعلیم کے لیے جدوجہد کرنا۔

4۔ تعلیمی اداروں کی خودمختاری اور طلبا کے جمہوری حقوق، بشمول اظہار کی آزادی کا حق۔ طلبا کو اپنی یونین منتخب کرنے کا حق اور تعلیمی اداروں میں طلبا کی نمایندگی کے حق کی جدوجہد کرنا۔

5۔ تعلیم کے بعد روزگار کی ضمانت اور روزگار کو بنیادی آئینی حق منوانے کے لیے جدوجہد کرنا۔

6۔ طبقاتی امتیازات ختم کرنے کے لیے جدوجہد کرنا اور طلبا برادری کے درمیان بلا امتیاز رنگ نسل و مذہب دوستی اور اخوت کی فضا قائم کرنا۔

7۔ معاشی اور معاشرتی انصاف کے حصول اور جہالت کے خاتمے کے لیے جدوجہد کرنا۔

8۔ جاگیرداری، سرمایہ داری اور ہر قسم کے استحصال کے خاتمے کے لیے کوشش کرنا۔ اور طلبا تحریک کو محنت کش عوام کی انقلابی جدوجہد سے عملی طور پر مربوط کرنا۔

9۔ پاکستان میں سامراجی طاقتوں اور ان کے حواریوں کی سازشوں کے خلاف بھرپور جدوجہد کرنا۔

10۔ دنیا بھر کے مظلوم اور محکوم عوام کی سامراج کے خلاف آزادی کی جدوجہد میں ان کی بھرپور تائید و حمایت کرنا۔

11۔ قومی اور علاقائی زبانوں کے حقوق بحال کروانے اور انھیں ذریعہ تعلیم بنوانے کی جدوجہد کرنا۔

12۔ اردو کو رابطے کی زبان کی حیثیت سے انگریزی کی جگہ نافذ کرنے کی جدوجہد کرنا۔

اس منشور میں ایک ترقی یافتہ معاشرے کے لوازمات کا سرسری جائزہ لیا گیا ہے۔ طلبا اور محنت کش عوام پاکستان میں معاشی اور معاشرتی تبدیلی کے لیے ہمیشہ سرگرم رہے ہیں۔ ایوب خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد یحییٰ خان کی مارشل لائی حکومت نے ترقی پسند مزدوروں اور طلبا کے خلاف کریک ڈاؤن کیا اور سیکڑوں طلبا اور مزدوروں کو مارشل لا کورٹوں سے سخت سزائیں دلوا کر جیلوں میں ٹھونس  دیا۔

اس مارشل لائی مہم میں این ایس ایف کے دونوں گروپ ڈاکٹر رشید حسن خان اور کاظمی گروپ کے طلبا کراچی سینٹرل جیل میں قید کردیے گئے اور کراچی کی معروف مزدور تنظیم ’’متحدہ مزدور فیڈریشن‘‘ کے رہنماؤں اور مزدوروں کو کراچی سینٹرل جیل میں مقید کردیا گیا۔ متحدہ مزدور فیڈریشن کی طرف سے عثمان بلوچ اور ہمارے علاوہ مزدوروں کی ایک بڑی تعداد کو سزائیں دے کر جیل میں بند کردیا گیا۔

بائیں بازو کا المیہ یہ ہے کہ روس چین جھگڑے کی وجہ سے پوری دنیا میں ترقی پسند جماعتیں دو حصوں میں بٹ کر رہ گئیں اور یہ بٹوارہ کس قدر گہرا تھا، اس کا اندازہ کراچی سینٹرل جیل میں قید ڈاکٹر رشید حسن خان اور امیر حیدر کاظمی گروپ کی جیل کے اندر بھی تقسیم سے لگایا جاسکتا تھا۔ جیل میں دونوں گروپ کے طلبا علیحدہ علیحدہ بیرکوں میں رہتے تھے لیکن اس گروپنگ کے باوجود ایک لمبے دستر خوان پر طلبا اور مزدور اکٹھے کھانا کھاتے تھے۔

اس زمانے میں اریٹیریا میں آزادی کی چھاپہ مار جنگ لڑی جا رہی تھی اریٹیریا کے تین کمانڈوز نے جن کے نام علی، محمد اور فصاحی تھے ایتھوپیا کے ہوائی جہاز پر کراچی ایئرپورٹ پر حملہ کیا تھا اور وہ بھی سزا کاٹ رہے تھے۔ بی کلاس میں ہماری گپ شپ ہوتی تھی، اریٹیریا کا ٹھکانہ مزدوروں طلبا کا ریسٹ ہاؤس بنا ہوا تھا۔ اختلافات کے باوجود طلبا ملتے جلتے تھے اور متحرک بھی تھے اور اپنے منشور کے مطابق سرگرمیاں بھی جاری رکھے ہوئے تھے۔

حسن جاوید اور محسن ذوالفقار نے جس جانفشانی سے ’’سورج پہ کمند‘‘ مرتب کی ہے وہ بنیادی طور پر این ایس ایف کی تاریخ ہے یہ کتاب میرے سامنے ہے اور میں سوچ رہا ہوں کہ ساری دنیا میں بایاں بازو جس طرح تقسیم اور گروہ بندیوں کا شکار ہے شاید سورج پہ کمند کے مطالعے سے بائیں بازو کے گروہوں میں بٹے سیاسی کارکنوں، طلبا اور مزدوروں کو یہ کتاب اور اس کے کرداروں کی جدوجہد ترغیب فراہم کرے کہ اب ٹکڑوں میں بٹے رہنا اپنے نظریات سے غداری ہے اور وقت کا تقاضا ہے کہ بایاں بازو متحد ہوجائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔