نواز شریف، سینیٹ میں شکست کے بعد

بابر ایاز  جمعرات 22 مارچ 2018
ayazbabar@gmail.com

[email protected]

جب افواہیں سچ ثابت ہوں تو پھر وہ اہم سنجیدہ خبر بن جاتی ہیں۔ پورے 2017ء میں ، خاص طور سے ڈان لیکس کے بعد یہ افواہیں گردش کرتی رہیں کہ اسٹیبلشمنٹ پاکستان مسلم لیگ (ن)کو سینیٹ میں اکثریت حاصل نہیں کرنے دے گی۔ ہم نے3 مارچ 2018ء کو سینیٹ کے الیکشن میں دیکھا کہ اسٹیبلشمنٹ کی سیاسی انجنیئرنگ کامیاب رہی اور ن لیگ ایوان بالا میں اپنی اکثریت قائم کرنے میں ناکام ہوگئی۔

شروع میں انھوں نے بلوچستان کے وزیر اعلیٰ کے خلاف بغاوت کروا کے، جنھیں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہٹا دیا گیا، ن لیگ کے کمزور ترین لنک پر وارکیا۔ بلوچستان گزشتہ کئی برسوں سے اسٹیبلشمنٹ کے کنٹرول میں ہے۔ اس ناراض صوبے میں سیاست دان، صرف انھی کی مہربانی سے حکومت کرسکتے ہیں۔ انھوں نے جوڑ توڑ اور اہم بلوچ قبیلوں کو مختلف دھڑوں میں تقسیم کر کے یہ پوزیشن حاصل کی ہے۔

یہ سب کچھ ملک کے استحکام اور یکجہتی کے نام پرکیا جاتا ہے، کیونکہ 1948ء سے، جب اس صوبے کو پاکستان کے ساتھ ضم کیا گیا تھا زیادہ خود مختاری کے لیے کئی تحریکیں چلتی رہی ہیں اورکچھ تحریکیں تو اس حد تک آگے چلی گئیں کہ انھوں نے آزادی کا مطالبہ کر دیا۔ آزادی کے لیے مسلح جدوجہد کمزور ہوئی ہے اور زیادہ خود مختاری کے لیے جد وجہد کرنے والی بلوچ قوم پرست قیادت نے خود فریبی میں مبتلا آزادی پسند انقلابیوں سے زیادہ اس صوبے کی خدمت کی ہے۔

کہا جاتا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ ن کے وزیر اعلیٰ کے خلاف بلوچستان اسمبلی کے ارکان کی بغاوت ہارس ٹریڈنگ کا نتیجہ تھی۔ اس سے مجھے قاعدے قانون سے عاری بینکر یونس حبیب یاد آ گئے جنھوں نے اسلامی جمہوری اتحاد (آئی جے آئی) کے رہنماؤں میں تقسیم کرنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ کو رقم مہیا کی تاکہ وہ بینظیر بھٹوکی پیپلز پارٹی کو شکست دے سکیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بدقسمتی سے اس بار یونس حبیب کا کردار، مبینہ طور پرآصف زرداری نے ادا کیا جو بینظیر کے شوہر رہ چکے ہیں۔

یوں لگتا ہے کہ زرداری اسٹیبلشمنٹ کو باور کرانا چاہتے ہیں کہ وہ نواز شریف سے زیادہ تابعدار بن کر ان کی خدمت کر سکتے ہیں۔ ان کا ٹریک ریکارڈ ظاہرکرتا ہے کہ جب خارجہ اور قومی سلامتی کی پالیسی کے محافظوں کی طرف سے دباؤ ڈالا گیا تو وہ خارجہ پالیسی کے ان اقدامات سے پیچھے ہٹ گئے جو انھوں نے اپنی صدارت کے ابتدائی دنوں میں کیے تھے، وہ افغان صدرکرزئی کے ساتھ ذاتی رابطہ استوارکرنے سے پیچھے ہٹ گئے، وہ امریکا میں اپنے سفیر کی طرف سے اختیار کی جانے والی پوزیشن سے دستبردار ہو گئے جس کا مقصد کیری لوگر بل میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ پر بالا دستی حاصل کرنا تھا، اسامہ بن لادن کو پکڑنے کے لیے امریکی فوج کی جانب سے ان کے گھر پر حملے کے بارے انھوں نے شروع میں جو رد عمل دیا تھا بعد میں وہ اس سے منکر ہو گئے۔

شروع میں انھوں نے کہا تھا کہ اسامہ کو پکڑنے میں پاکستان نے امریکا کی مدد کی، مگر جب اسٹیبلشمنٹ نے قبول کر لیا کہ یہ انٹیلجنس اور سیکیورٹی کی ناکامی تھی تو انھوں نے اس ناکامی پرکسی قسم کی تحقیقات پر اصرار نہیں کیا۔

کیا وہ اصل حکمرانوں کی خدمت کر کے اپنے ساتھیوں اور بدعنوان حکام کو بچانے کے قابل ہو سکیں گے؟ مسٹر زرداری کے متعدد ناقدین کا خیال ہے کہ نیب کے مقدمات میں نواز شریف اور ان کی صاحبزادی کو سزا دے کر سیاسی منظر سے ہٹا دینے کے بعد مسٹر زرداری کی لاٹ کو بھی بخشا نہیں جائے گا۔ مگر وہ لوگ جو سمجھتے ہیں کہ زرداری چالاک سیاست دان اور مشکلات سے نمٹنے کا ہنرجانتے ہیں، پیشگوئی کرتے ہیں کہ 2018ء کے عام انتخابات کے بعد جن میں بڑے پیمانے پر جوڑ توڑ ہو گا، وہ اگلی مخلوط حکومت بنا سکتے ہیں۔

نواز شریف کو جن قانونی مشکلات میں پھنسا دیا گیا ہے، ان کے پیش نظر غالب امکان ہے کہ خواہ کچھ بھی ہو جائے، انھیں مریم نوازکے ساتھ نیب ریفرنس مقدمات میں سزا سنا دی جائے گی۔ اب یہ فیصلہ کرنا احتساب عدالت پر منحصر ہے کہ نیب قوانین کی رو سے سزا ایک سال کی ہو گی یا دس سال کی ہوگی۔ یہ فیصلہ عبوری حکومت کے قیام کے بعد آئے گا تا کہ موجودہ وزیراعظم صدر سے رحم کی سفارش نہ کر سکیں۔

پولیٹیکل انجنیئرز کا خیال ہے کہ جب نوازشریف کو جیل میں ڈال دیا جائے گا تو شاید ان کے امیدواروں کو ڈرانا دھمکانا آسان ہو گا، مگر ابھی تک یہ کوششیں زیادہ کامیاب ثابت نہیں ہوئیں۔

بہت سے مسخرے جو ٹیلیویژن پر آتے ہیں، نواز شریف پر اس وجہ سے تنقید کرتے ہیں کہ وہ جنرل ضیا کی پیداوار ہیں اور اسی لیے ان کے اسٹیبلشمنٹ مخالف ہونے کی اسناد کو چیلنج کرتے ہیں۔ یہ تجزیہ کار اس بات پر توجہ نہیں دیتے کہ کوئی سیاسی جماعت یا شخصیت ایسی نہیں ہے جس میں تبدیلی نہ آئی ہو۔ حالات اور ذاتی تجربات انھیں تبدیل کرتے ہیں۔

یہ لوگ اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ نواز شریف کو اسٹیبلشمنٹ کی ایما پر چار دفعہ اقتدار سے نکالا گیا اور ان کی ہتک کی گئی۔ چنانچہ جب وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ نظریاتی بن چکے ہیں اورکہتے ہیں کہ وہ اگلا الیکشن ’’عوام کے ووٹ کو عزت دو‘‘ کے نعرے پر لڑیں گے تو یہ اہم بیان دے رہے ہوتے ہیں کہ وہ اس ملک میں اسٹیبلشمنٹ پر منتخب حکومت کی بالا دستی کے لیے لڑیں گے۔ اُن ووٹروں کے لیے صرف یہ نعرہ ہی پرکشش نہیں ہو سکتا جنھیں اپنی معاشی بھلائی کے بارے میں زیادہ تشویش ہے۔ لوگوں کو یہ بات سمجھانے کے لیے کہ ان کی حکومت ترقی لائی ہے، توقع ہے کہ شہباز شریف قائدانہ کردار ادا کریں گے۔

اگرچہ پاکستان کا اخراجات جاریہ کا حد سے زیادہ خلا اگلی حکومت بنانے والے کے لیے ایک چیلنج ہو گا تاہم فی الوقت نوازشریف کی حکومت کے پاس مجموعی قومی پیداوار میں 6 فیصد شرح افزائش اور بجلی کے شعبے میں طلب اور رسد کے درمیان خلا کو پر کرنے جیسی کامیابیاں بتانے کے لیے بہت کچھ ہے۔ نوازشریف جیل میں ہوں یا باہر، یہ کامیابیاں ووٹ کو پی ایل ایم کی طرف کھینچ سکتی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔