عزت، انصاف اور اختیار

عثمان دموہی  جمعرات 22 مارچ 2018
usmandamohi@yahoo.com

[email protected]

پاک سرزمین پارٹی ایک نوخیزسیاسی پارٹی ضرور ہے ، مگر یہ حیرت انگیز بات ہے کہ اس نے قلیل عرصے میں ایک مقبول سیاسی جماعت کا درجہ حاصل کرلیا ہے۔ اسے کراچی اور اندرون سندھ کے عوام اس لیے بھی فوقیت دے رہے ہیں کہ اس کے قیام نے امن و سکون کے لیے ترستے عوام کو سکون اور اطمینان بخش دیا ہے۔

یہ پارٹی 22 مارچ کو اپنا دوسرا یوم تاسیس میرپور خاص میں ایک جلسہ عام منعقد کرکے منا رہی ہے، اس پارٹی کی موجودہ کارکردگی اور مستقبل کے بارے میں کئی تجزیہ کاروں نے تبصرے کیے ہیں جنھیں یکجا کرکے پیش کیا جا رہا ہے۔

اس پارٹی کے لیے 22 مارچ کا دن ایک خاص اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس دن پارٹی کے قیام کا اعلان کیا گیا تھا، مصطفیٰ کمال اس پارٹی کے بانی ہیں۔ وہ کراچی کے میئر کی حیثیت سے بے مثال ترقیاتی کام انجام دے کر ایک ہر دلعزیز رہنما کا درجہ حاصل کرچکے ہیں۔

عوام کے دلوں میں ان کی محبت کی وجہ ان کی صرف عوامی خدمات ہی نہیں بلکہ ان کا بے داغ کردار اور کرپشن سے پاک ان کے ترقیاتی منصوبے ہیں جس کی پورے پاکستان میں نظیر نہیں ملتی۔ ان کے چاہنے والوں کے لیے کیا یہ کم فخر کی بات ہے کہ ان کے لیڈر پر نہ پہلے کوئی کرپشن کا الزام تھا اور نہ آج ہے۔ ان کے بے داغ کردار کی وجہ سے ہی مہاجرین ہی نہیں پاکستان کے ہر طبقے میں انھیں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

انھوں نے اس وقت کے کراچی کے سب سے بڑے لیڈر کے خلاف اپنی جان کی بھی پرواہ کیے بغیر آواز حق بلند کی تھی اور وطن پرستی کا نعرہ لگایا تھااس نعرے نے وطن فروشوں کے ہوش اڑا دیے تھے جو ملک و قوم کو دشمن کے ہاتھوں فروخت کرنے کے منصوبے بنا رہے تھے۔ وہ ایسا وقت تھا جب کراچی ’’را‘‘ کے ایجنٹوں کی دہشتگردی میں پھنس چکا تھا۔ پندرہ بیس معصوم لوگوں کا مارا جانا روز کا معمول بن گیا تھا کسی کو حق بات کہنے پر سزائے موت ہوا کرتی تھی۔

تین مارچ 2016ء کو مصطفیٰ کمال اور انیس قائم خانی دبئی سے کراچی پہنچے انھوں نے آتے ہی ایک پریس کانفرنس میں ’’را‘‘ کے ایجنٹوں کو للکارا اور ان کی پول کھول کر رکھ دی۔ نوۂِ حق بلند کرنے کی وجہ سے ان دونوں کی جانیں خطرے میں تھیں مگر انھوں نے اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر علم بغاوت بلند کردیا تھا۔ پھر ٹھیک بیس دن بعد 22 مارچ کو ’’پاک سرزمین‘‘ کے نام سے ایک نئی سیاسی پارٹی کے قیام کا اعلان کیا۔

اس پارٹی کے قیام کا مقصد ہر قسم کے تعصب کا خاتمہ، بھائی چارے کا فروغ، عوام کو با اختیار بنانے کے ساتھ ان کے مسائل کو ان کے گھرکی دہلیز پر حل کرنا شامل تھا۔ یہ تمام مقاصد عوامی خواہشات کے آئینہ دار تھے، چنانچہ اس پارٹی کا پیغام پہلے دن سے ہی عوام کے دلوں میں اترتا چلا گیا اور لوگ جوق درجوق اس کے پرچم تلے جمع ہونا شروع ہوگئے۔

اس پیغام نے ایم کیو ایم میں شامل کئی اہم رہنماؤں کو اس کی جانب مائل کردیا اور وہ رفتہ رفتہ اس سے آکر جڑ گئے۔ یہ حقیقت ہے کہ عوام گزشتہ تیس سال سے امن کے لیے ترس رہے تھے زندگی عذاب بن چکی تھی۔ روز روز کی ہڑتالوں اور بھتوں نے کاروبار ٹھپ اور فیکٹریاں بند کرادی تھیں، بیروزگاری کا دور دورہ تھا۔ ملک کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کہلانے والا شہر کراچی ایک ڈراؤنے خونی شہر کا منظر پیش کر رہا تھا۔

بلاشبہ ’ضرب عضب‘ آپریشن نے کراچی میں جاری دہشتگردی کا نیٹ ورک توڑ کر رکھ دیا تھا۔ مگر عوام کے دلوں سے ڈر و خوف نکالنے میں پاک سرزمین پارٹی نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ پھر 22 اگست کو پاکستان کے خلاف نعرہ لگانے کی پاداش میں عوام نے ڈروخوف کے منبع کا منہ ہمیشہ کے لیے بند کردیا۔

اب ہر طرف پاکستان زندہ باد کا راج ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ اس لیے کہ اسی نعرے کی سربلندی کے لیے مہاجر بزرگوں نے یہ وطن بنایا تھا۔ اس کے قیام کے بعد اپنے گھر بار چھوڑ کر اس کی تعمیر و ترقی کے لیے یہاں آگئے تھے۔ ابتدا میں انھوں نے یہاں انتہائی مشکل حالات کا سامنا کیا مگر وطن کو ایک ایٹمی طاقت بناکر دم لیا۔ اب ان کی اولادیں کسی ’’را‘‘ کے ایجنٹ کو یہاں قدم جمانے نہیں دیں گی۔

پاک سرزمین پارٹی کا یہ کمال ہے کہ 22 مارچ کو یہ وجود میں آئی اور صرف ایک ماہ بعد ہی اس نے مزار قائد سے متصل گراؤنڈ میں ایک بڑا جلسہ منعقد کرکے اپنے ناقدین کو حیران کر دیا۔ اس جلسے میں عوام کی بڑی تعداد میں شرکت نے یہ ثابت کردیا تھا کہ اس کا مستقبل تابناک ہے اور ہوا پھر وہی کہ اس کا امن اور یکجہتی کا فلسفہ عوام کے دلوں میں اترتا چلا گیا۔

آج پاک سرزمین پارٹی کا پورے پاکستان میں بول بالا ہے، پاکستان بھر میں اس کے دفاتر موجود ہیں۔ اس پارٹی کے پاس کارکنوں کی ایک فوج ظفر موج موجود ہے جو پارٹی کے پیغام کو گھر گھر پہنچانے میں مصروف ہے۔کراچی اور حیدرآباد کے علاوہ سندھ کے دوسرے شہروں میں بھی اس پارٹی کو زبردست عوامی پذیرائی مل رہی ہے۔

عوامی ہمت افزائی پر اس نے الیکشن کی تیاری شروع کر دی ہے۔ اس کے تمام قائدین سندھ کے تمام شہروں میں جاکر ہر آبادی میں اجتماعات منعقد کرکے عوامی مسائل کے حل کے لیے اپنی آواز بلند کر رہے ہیں۔ اس پارٹی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس کی کسی بھی سیاسی پارٹی سے کوئی مخاصمت نہیں ہے اس کے تمام سیاسی پارٹیوں سے اچھے روابط قائم ہیں۔ اس کے تو ایم کیو ایم سے بھی اچھے روابط موجود ہیں۔

یہ ایم کیو ایم کی عوام میں گرتی ہوئی ساکھ کے پیش نظر فاروق ستار کو پی ایس پی میں شامل ہونے کی دعوت دے چکی ہے۔ اب جب کہ ایم کیو ایم دھڑے بندی میں الجھ گئی ہے مصطفیٰ کمال نے فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پی ایس پی اور دونوں دھڑوں کو یکجا کرکے ایک نئے نام اور جھنڈے کے ساتھ نئی پارٹی بنانے کی دعوت دی ہے جس کا مقصد عوام کے اتحاد کو قائم رکھنا اور مینڈیٹ کو بکھرنے سے بچانا ہے۔

کاش فاروق ستار اور خالد مقبول صدیقی اب بھی مصطفیٰ کمال کی آفر کو قبول کرلیں تو آج ایم کیو ایم کی وجہ سے جو مشکلات سامنے آ رہی ہیں بجا طور پر ان سے بچا جا سکتا ہے۔ پی ایس پی ہر قسم کے لسانی، صوبائی اور فرقہ وارانہ تعصبات سے پاک پاکستان کے لیے کام کر رہی ہے۔ پارٹی کے قائد مصطفیٰ کمال کا برملا اعلان ہے کہ وہ اپنی پارٹی کو کسی خاص کمیونٹی سے ہرگز منسلک نہیں کریں گے۔

ایم کیو ایم کی ناکامی کو مدنظر رکھنا ہوگا کیونکہ وہ ایک کمیونٹی سے منسلک ہوکر باقی تمام کی نظروں میں کھٹکتی رہی تھی۔جس سے مہاجروں کو بہت نقصان اٹھانا پڑا۔ پھر اس کے لیڈر کے منفی رویے کی وجہ سے بھی اسے کوئی کامیابی نہیں ملی اور آج مہاجر اپنے مسائل کے حل کے لیے پہلے دن کی طرح پریشان ہیں۔

پارٹی نے 2018ء کے الیکشن کے لیے اپنا منشور جاری کردیا ہے جس میں عزم کیا گیا ہے کہ پی ایس پی اپنے منشور پر عمل کرتے ہوئے روایتی، سیاسی اور انتظامی نظام میں انقلابی تبدیلیاں لاکر پاکستان میں شہری حکومت کی بالادستی اور ضلعی حکومتوں کو اختیارات کی تقسیم کے منصوبے کو کامیاب بنائے گی اور اس طرح عوامی مسائل کے حل کی راہ آسان تر بنائے گی۔

وہ اختیارات اور وسائل کی جمہوری تقسیم، قانون کی بالادستی معیشت اور صنعت کی بحالی، عوام کی خوشحالی، داخلی انتشار سے نجات اور عالمی برادری کے ساتھ تعمیری و احترام پر مبنی تعلقات رکھنے کی وکالت کرتی ہے۔ اس پارٹی کی عوام میں بڑھتی ہوئی مقبولیت سے یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے کہ یہ عام انتخابات میں ضرور سرخرو ہوگی اور عوام کو عزت، انصاف اور اختیار دلا کر رہے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔