قائداعظمؒ کی تقاریر سے اقتباسات

غلام محی الدین  جمعـء 23 مارچ 2018
ہم اللہ اور رسول کے بتائے ہوئے راستے پر چلتے ہیں، قائداعظمؒ محمد علی جناح۔ فوٹو: فائل

ہم اللہ اور رسول کے بتائے ہوئے راستے پر چلتے ہیں، قائداعظمؒ محمد علی جناح۔ فوٹو: فائل

ہم نے پاکستان کا مطالبہ ایک زمین کا ٹکڑا حاصل کرنے کیلئے نہیں کیا تھا، بلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے جہاں ہم اسلامی اصولوں کو آزماسکیں۔

(3 جنوری 1948)

’’آج اس عظیم الشان اجتماع میں آپ نے مجھے مسلم لیگ کا جھنڈا لہرانے کا اعزاز بخشا ہے۔ یہ جھنڈا درحقیقت اسلام کا جھنڈا ہے، کیونکہ آپ مسلم لیگ کو اسلام سے علیحدہ نہیں کرسکتے۔ بہت سے لوگ بالخصوص ہمارے ہندو دوست ہمیں غلط سمجھتے ہیں، جب ہم اسلام کی بات کرتے ہیں یا جب ہم کہتے ہیں کہ یہ جھنڈا اسلام کا جھنڈا ہے تو وہ خیال کرتے ہیں کہ ہم مذہب کو سیاست میں گھسیٹ رہے ہیں، حالانکہ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس پر ہم فخر کرتے ہیں۔ اسلام ہمیں مکمل ضابطہ حیات دیتا ہے۔ یہ نہ صرف ایک مذہب ہے بلکہ اس میں قوانین، فلسفہ اور سیاست سب کچھ ہے۔ درحقیقت اس میں وہ سب کچھ موجود ہے جس کی ایک آدمی کو صبح سے رات تک ضرورت ہوتی ہے۔ جب ہم اسلام کا نام لیتے ہیں تو ہم اسے ایک کامل لفظ کی حیثیت سے لیتے ہیں۔ ہمارا کوئی غلط مقصد نہیں بلکہ ہمارے اسلامی ضابطے کی بنیاد آزادی، عدل و مساوات اور اخوات پر ہے۔

(13 جنوری 1938ء بہار ریلوے اسٹیشن پر خطاب)

ہماری بھاری اکثریت مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ ہم اللہ اور رسول کے بتائے ہوئے راستے پر چلتے ہیں، لیکن اس سے یہ مغالطہ ہرگز پیدا نہیں ہونا چاہیے کہ ہمارا پاکتان کوئی ایسی مذہبی ریاست ہے جس میں کسی غیر مسلم کو اپنے مذہب کے مطابق زندگی گزارنے کی اجازت نہیں۔ ہم دوسرے تمام مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا خیر مقدم کرتے ہیں جو خود پاکستان کے وفادار شہریوں کی حیثیت سے اپنا کردر ادا کرنے کیلئے رضا مند اور تیار ہیں۔

(آسٹریلیا کیلئے ریڈیائی تقریر۔ 19 فروری 1948ء)

’’مسٹر گورنر! میں آپ کی ریسرچ آرگنائزیشن کے کام کا بھی دلچسپی اور غور کے ساتھ مطالعہ جاری رکھوں گا کہ وہ بینکاری کے لیے کون کون سے ایسے اصول وضع کرتی ہے جو معاشرتی اور اقتصادی زندگی میں اسلامی اصولوں کے مطابق ہوں۔ مغرب کے اقتصادی نظام نے نوع انسانی کے لیے عجیب عجیب لاینحل مسئلے کھڑے کردیتے ہیں اور ہم میں سے بہت سے یہ خدشہ محسوس کرتے ہیں کہ آنے والی تباہی کو شاید کوئی معجزہ ہی روک سکے گا کیوں کہ اس نظام نے انسان کے ہاتھوں انسان کے ساتھ انصاف ختم کردیا ہے اور بین الاقوامی فضاء میں سے منافقت اور خلفشار کو بھی دور کرنے میں ناکام ہوگیا ہے۔

اس کے برعکس یہ نظام پہلے ہی نصف صدی کے اندر اندر دو عالمگیر جنگجوں کا باعث بن چکا ہے۔ مغربی دنیا ہزار تکنیکی اور صنعتی ترقی کے دعوے کرے۔ لیکن تاریخ شاہد ہے کہ اس کی حالت کبھی اتنی زبوں حال اور خراب تر نہیں تھی جتنی آج ہے۔ ہم نے یہ سرزمین ایک ایسا معاشرہ قائم کرنے کے لیے حاصل کی ہے جو ہر لحاظ سے مسرور اور مطمئن ہو مگر اقتصادی نظریات ہمیں یہ مقصد پورا کرنے میں ہرگز کوئی مدد نہیں دے سکیں گے۔ ہمیں اپنی تقدیر کو آپ بنانا ہے اور انسانی مساوات، معاشرتی انصاف اور اسلامی تصورات کے تحت دنیا کے سامنے ایک مثالی اقتصادی نظام پیش کرنا ہے۔ ہم ایسا کریں تو تبھی ہم بحیثیت داعیان اسلام اپنا صحیح مقام حاصل کرسکیں گے اور اسی طرح ہم دنیا کو ایسی امن دوستی کا پیغام پہنچا سکیں گے جس میں بنی نوع انسان کی فلاح و بہبود، خوشحالی اور ترقی کی راہیںکھلی ہوں۔‘‘

(یکم جولائی 1948ء اسٹیٹ بینک کی افتتاحی تقریب سے خطاب)

میری زندگی کی واحد تمنا یہ ہے کہ مسلمانوں کو آزاد اور سربلند دیکھوں۔ میں چاہتا ہوں کہ جب مروں تو یہ یقین اور اطمینان لے کر مروں کے میرا ضمیر اور میرا خدا گواہی دے رہا ہو کہ جناح نے اسلام سے خیانت اور غداری نہیں کی اور مسلمانوں کی آزادی، تنظیم اور مدافعت میں اپنا فرض ادا کردیا۔ میرا خدا یہ کہے کہ بے شک تم مسلمان پیدا ہوئے اور کفر کی طاقتوں کے غلبہ میں اسلام کے علم کو بلند رکھتے ہوئے مرے۔

(لاہور 22 اکتوبر 1939ء)

آپ نے مجھ سے کہا کہ میں آپ کو ایک پیغام دوں۔ میں آپ کو کیا پیغام دے سکتا ہوں۔ ہماری رہنمائی اور بصیرت کے لیے عظیم ترین پیغام تو قرآن کریم میں موجود ہے۔

(4 اپریل 1943ء)

شہنشاہ اکبر نے تمام غیر مسلموں کے ساتھ رواداری اور حسن سلوک کا جو مظاہرہ کیا۔ یہ کوئی نئی بات نہ تھی۔ اس کی ابتدا آج سے تیرہ سو برس پہلے ہمارے پیغمبرﷺ نے کردی تھی۔ آپ نے زبان سے ہی نہیں بلکہ عمل سے بھی یہود و نصاریٰ پر فتح حاصل کرنے کے بعد نہایت اچھا سلوک کیا۔ ان کے ساتھ رواداری برتی اور ان کے عقائد کا احترام کیا۔

(14 اگست 1947ء)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔