یتیم بچوں کیلئے منفرد میڈیکل کیمپ اور تفریحی میلہ

مجدی رشید  ہفتہ 24 مارچ 2018
اس منفرد میڈیکل کیمپ میں ایک ہزار یتیم بچوں کا مکمل فزیکل ایگزامنیشن کیا گیا اور انہیں مفت ادویہ بھی فراہم کی گئیں۔ (تصاویر بشکریہ بلاگر)

اس منفرد میڈیکل کیمپ میں ایک ہزار یتیم بچوں کا مکمل فزیکل ایگزامنیشن کیا گیا اور انہیں مفت ادویہ بھی فراہم کی گئیں۔ (تصاویر بشکریہ بلاگر)

بچوں کےلیے سجا یہ میلہ نہ تو کوئی فن فیئر ہے اور نہ ہی اپر کلاس کے بچوں سے پیسے بٹورنے کا کوئی خفیہ منصوبہ۔ لیکن یہ کیا؟ ایک طرف جھولے لگے ہیں جہاں بچے کھیل کود کرخوب محظوظ ہو رہے ہیں، ایک جگہ مہندی کا اسٹال ہے جس میں مختلف یونیورسٹیوں کی طالبات بچیوں کو مہندی لگا رہی ہیں جبکہ دوسری جگہ فیس پینٹنگز کی جا رہی ہیں جہاں کیا بچے اور کیا بڑے، سبھی جوش و خروش سے چہرے پر قومی پرچم، مینارِ پاکستان، قائد اور اقبال کی تصاویر سمیت دیگر قومی اہمیت کے مقامات کی شبیہات پینٹ کروا رہے ہیں۔ پنڈال کے بالکل درمیان میں اسٹیج لگایا گیا ہے جہاں ایک مکمل آرگنائزڈ پروگرام جاری ہے جس میں پپٹ شو، ٹیبلوز، تھیٹر، بچوں کے ساتھ سوال و جواب، نعتوں اور ملی نغموں کا سلسلہ جاری ہے۔ سامنے پنڈال بچوں اور ان کی ماؤں سے کھچاکھچ بھرا ہوا ہے۔ ہر چہرہ پُرمسرت ہے۔

یہ قطعاً کوئی میلہ نہیں، ہرگز نہیں! کسی فن فیئر کی مانند سجے پنڈال کا یہ منظر اپنی طرز کے انوکھے اور واحد ’’فری ہیلتھ اسکریننگ کیمپ‘‘ کی انتظار گاہ کا ہے جس کے شرکاء کسی لینڈ لارڈ یا مل اونر کے بچے نہیں بلکہ یتیم اور بے سہارا بچے ہیں جو اپنی ماؤں کے ساتھ یہاں موجود ہیں۔

یہ ہیلتھ اسکریننگ کیمپ خدمتِ خلق کے میدان میں نمایاں طور پر سرگرم اور دیگر سماجی خدمات سمیت ملک بھرکے 10 ہزار سے زائد یتیم بچوں کی ان کے گھروں پر کفالت کی ذمہ داری اٹھانے والی سماجی تنظیم ’’الخدمت فاؤنڈیشن‘‘ اور شیخ زید اسپتال کے پروفیشنل، قابل اور دکھی انسانیت کی خدمت سے سرشار ینگ ڈاکٹرز کی ’’پیشنٹ بینیوولنٹ سوسائٹی‘‘ (Patient Benevolent Society) کے باہمی اشتراک سے لگایا گیا ہے۔

یہ سلسلہ گزشتہ 3 سال سے جاری ہے جس میں الخدمت آرفن فیملی سپورٹ پروگرام کے تحت رجسٹرڈ بچوں کا سال میں ایک بار مکمل طبی معائنہ کرایا جاتا ہے اور کسی بھی بیماری کی تشخیص کی صورت میں ان کے علاج کی مکمل ذمہ داری لی جاتی ہے۔ اس مقصد کےلیے ان بچوں کو ہیلتھ کارڈز بھی جاری کیے جاتے ہیں۔

ایک دن میں ایک ہزار یتیم بچوں کا مکمل فزیکل ایگزامنیشن کیا گیا اور انہیں ادویہ فراہم کی گئیں۔ نہ صرف بچوں کا بلکہ ان کی ماؤں کے بھی تمام بلڈ ٹیسٹ کیے گئے۔

اسلام میں یتیموں، مسکینوں، بیواؤں اور نادار و بے سہارا طبقے کو سہارا دینے، ان کے ساتھ شفقت اور پیار سے پیش آنے، انہیں وسائل اور آسودگی فراہم کرنے اور ان کی کفالت کرنے کی نہ صرف تلقین کی گئی ہے بلکہ اس معاملے میں کوتاہی برتنے والوں کوسخت وعید بھی سنائی گئی ہے۔ یتیم ہمارے معاشرے ایک اہم لیکن نظرانداز طبقہ ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں یتیم بچوں کی تعداد 42 لاکھ سے بھی متجاوز ہے جن میں سے بیشتر کی عمریں 17 سال سے بھی کم ہیں۔

بدقسمتی سے روز بروز بگڑتی معاشی صورتحال، کم آمدنی اور سماجی رویوں کے باعث بھی یتامیٰ کے خاندان کےلیے اُن کا بوجھ اُٹھانا مشکل تر ہوتا جارہا ہے۔ یہ بچے تعلیم و تربیت اور مناسب سہولیات نہ ملنے کے باعث معاشرتی و سماجی محرومیوں کا شکار ہوجاتے ہیں بلکہ کئی تو بے راہروی کی بھینٹ چڑھنے کے ساتھ ساتھ مختلف جرائم اور اخلاقی و معاشرتی برائیوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ذرا سی توجہ اور بنیادی سہولیات کی فراہمی ان بچوں کو معاشرے کا ایک اچھا، کامیاب اور ذمہ دار شہری بننے میں مدد فراہم کرسکتی ہے۔

الخدمت فاؤنڈیشن پاکستان مبارکباد کی مستحق ہے جو دیگر سماجی خدمات سمیت ملک بھر کے ہزاروں یتیم بچوں کی، ان کے گھروں پر کفالت کی ذمہ داری اٹھائے ہوئے ہے۔ الخدمت کفالت یتامیٰ پروگرام کے تحت یتیم بچوں کےلیے ’’آغوش الخدمت‘‘ کے نام سے اداروں کے قیام کے منصوبوں پر کام جاری ہے جن کا مقصد والدین سے محروم بچوں کی پرورش، تعلیم و تربیت، صحت، قیام و طعام اور ذہنی و جسمانی نشوونما کےلیے سازگار ماحول فراہم کرنا ہے۔

ان سینٹرز میں بچوں کےلیے مفت رہائش، تعلیم، صحت، نصابی اور ہم نصابی سرگرمیوں سمیت زندگی کی بنیادی سہولیات بہم پہنچائی جارہی ہیں۔ اس وقت ملک بھر میں قائم 10 آغوش سینٹرز میں 730 بچے قیام پذیر ہیں جبکہ ان سینٹرز میں مجموعی طور پر 965 یتیم بچوں کی گنجائش موجود ہے۔

اسی طرح آغوش مری، آغوش کراچی، آغوش گوجرانوالہ، آغوش دیر لوئر، آغوش ہالہ (مٹیاری) اور آغوش کوہاٹ کے منصوبے تکمیل کے مراحل میں ہیں۔

چونکہ پاکستان میں یتیم بچوں کی تعداد لاکھوں میں ہے اور اتنی بڑی تعداد میں یتیم بچوں کی کفالت کا اہتمام صرف یتیم خانے بنانے سے پورا نہیں ہوسکتا لہٰذا الخدمت فاؤنڈیشن کے’’آرفن فیملی سپورٹ پروگرام‘‘ کے تحت کم وبیش 10 ہزار ایسے یتیم بچوں اور بچیوں کی ان کے گھروں پر کفالت کی جارہی ہے جو اپنی والدہ یا کسی عزیز رشتہ دارکے گھر پر رہ رہے ہیں لیکن وہ ان کی تعلیم، غذا اور علاج معالجے کے اخراجات برداشت کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔

دیگر بنیادی سہولیات کی فراہمی کے ساتھ ساتھ الخدمت فاؤنڈیشن سال میں ایک مرتبہ ان بچوں کے مکمل طبی معائنے کا بھی اہتمام کرتی ہے۔ امسال بھی شیخ زید اسپتال، لاہور کے پروفیشنل، قابل اور دکھی انسانیت کی خدمت سے سرشار ینگ ڈاکٹرز کی پیشنٹ بینیوولنٹ سوسائٹی کے باہم اشتراک سے شیخ زید میڈیکل کمپلیکس میں تیسرے فری ہیلتھ اسکریننگ کیمپ کا انعقاد کیا گیا۔

میڈیکل کیمپ میں اسسٹنٹ سیکریٹری جنرل احمد جمیل راشد، نیشنل ڈائریکٹر آرفن فیملی سپورٹ پروگرام بریگیڈیئر (ر) عبدالجبار بٹ، مینیجر میڈیا ریلیشنز ڈپارٹمنٹ شعیب احمد ہاشمی، چیئرپرسن پیشنٹ بینیوولنٹ سوسائٹی پروفیسر ڈاکٹر سعدیہ شہزاد، ہیڈ آف ڈزاسٹر مینجمنٹ پیشنٹ بینیوولنٹ سوسائٹی پروفیسر ڈاکٹر عائشہ ہمایوں، صدر پیشنٹ بینیوولنٹ سوسائٹی ڈاکٹر شاہد اقبال، ڈاکٹر راؤ اویس اختر، حسن ریاض، ڈاکٹر وقاص احمد، ڈاکٹر مہر حمزہ، ڈاکٹر بلال گجر اور 25 سینئر ڈاکٹرز سمیت 150 ڈاکٹرز، پیرامیڈیکل اسٹاف اور الخدمت رضاکاران نے خدمات سرانجام دیں۔

شیخ زید میڈیکل کالج کی مرکزی گزرگاہ کے ساتھ ہی استقبالیہ کیمپ لگایا گیا تھا جہاں الخدمت رضاکاران اور ڈاکٹرز شرکت کرنے والے بچوں اور ان کی ماؤں کو معلومات فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ کوائف کے اندراج کے بعد انہیں ہیلتھ کارڈز سیریل نمبرکے ساتھ جاری کر رہے تھے۔ رجسٹریشن کا عمل 8 بجے شروع ہوا اور 9 بجے تک مکمل کرلیا گیا۔

کیمپ کے عقب میں کالج کے خوبصورت اور وسیع و عریض لان کو ٹینٹ اور کرسیاں لگا کر انتظارگاہ کی شکل دی گئی تھی۔ یہ انتظار گاہ بھی کسی میلے کا سماں پیش کر رہی تھی۔ ایک طرف جھولے لگے تھے جہاں بچے کھیل کود کر خوب محظوظ ہو رہے تھے۔

اسٹیج پر موجود شخص مائیک پر سیریل نمبر پکارتا تھا جس کے بعد بچوں اور ان کی ماؤں کو کالج کی مرکزی عمارت کی جانب جانے کا کہا جاتا۔ عمارت کے مرکزی دروازے پرموجود ڈاکٹرز بچوں کے کارڈ پر سیریل نمبر چیک کرنے اور اپنے پاس موجود لسٹ میں اندراج کرنے کے بعد انہیں اندر ڈیسک کی طرف روانہ کرتے جہاں بچوں کے بلڈ سیمپلز لیے جا رہے تھے۔

بچوں کے ساتھ ساتھ ان کی ماؤں کے طبی معائنے کا بھی خصوصی اہتمام کیا گیا تھا۔ اس مقصد کےلیے ایک الگ سیکشن قائم کیا گیا تھا جہاں الخدمت ڈائیگنوسٹک سینٹر کی ٹیم کی جانب سے ان کے ہیپاٹائٹس بی اور سی سمیت دیگر ٹیسٹوں کےلیے خون کے نمونے لیے جارہے تھے۔ اس کے علاوہ ضروری ادویہ بھی بالکل مفت فراہم کی جارہی تھیں جبکہ ایک اور جانب بریسٹ کینسر اسکریننگ ڈیسک بھی قائم کیا گیا تھا جس پر ایک سینئر اسپیشلسٹ ڈاکٹر بریسٹ کینسر کے حوالے سے آگاہی و مشورے فراہم کررہی تھیں۔

بچوں کے خون کے نمونے لینے کے بعد انہیں پہلی منزل کی طرف روانہ کردیا جاتا جہاں 40 ڈاکٹرز کی ایک ٹیم بچوں کا جنرل فزیکل ایگزامنیشن اینڈ وائٹل مانیٹرنگ کر رہی تھی جبکہ دوسری منزل پر آنکھوں کا معائنہ کیا جارہا تھا۔ ہر منزل کے شروع میں ینگ ڈاکٹرز رضاکارانہ طور پر مستعدی کے ساتھ بچوں اور ان کی ماؤں کو رہنمائی فراہم کرنے کےلیے ہمہ وقت موجود تھے۔ تیسری منزل پر طبی معائنے کی تمام تر رپورٹس کی روشنی میں ماؤں کو بچوں کی غذا اور علاج معالجے کے حوالے سے ضروری ہدایات فراہم کرنے کےلیے سینئرز ڈاکٹرز کی ایک ٹیم موجود تھی۔

تمام عمل میں نظم و ضبط اور ٹیم ورک کی عمدہ مثال دیکھنے کو ملی۔ کسی بھی طرح کی بدنظمی سے بچنے کےلیے شرکاء کے آنے اور جانے کےلیے الگ الگ راستے مختص کیے گئے تھے۔ پہلا سیشن صبح 9 بجے سے دوپہر 1 بجے تک جاری رہا۔ 1 بجے سے 2 بجے تک لنچ بریک تھی جبکہ 2 بجے سے 5 بجے تک دوسرا سیشن شروع ہوا جس میں باقی ماندہ بچوں اور ان کی ماؤں کا طبی معائنہ کیا گیا۔

عمارت کے وسطی دروازے کو انخلاء کی غرض سے رکھا گیا تھا جہاں کارڈ چیک کرکے بچوں اور ان کے ذمہ داران کو لنچ باکس فراہم کیے جارہے تھے جبکہ فلٹرڈ پانی اور چائے کا بھی خصوصی اور وافر انتظام کیا گیا تھا۔

مسلمانانِ عالم ایک جسم کی مانند ہیں جو کہ اپنی تعلیمات اورعمل میں اخوت کے رشتے میں جڑے ہوئے ہیں۔ نیکی اور بھلائی کا جذبہ ہر انسان میں موجود ہوتا ہے۔ ضرورت صرف اسے اجاگر کرنے کی ہوتی ہے۔ ہمیں شکر گزار ہونا چاہیے الخدمت فاؤنڈیشن، پیشنٹ بینیوولنٹ سوسائٹی اور ان جیسے اداروں کا، جو بغیر کسی غرض اور طمع کے خالصتاً اللہ کی رضا اور خوشنودی کےلیے ان یتیموں کا ہاتھ تھامے ہوئے ایک مشن پر کاربند ہیں۔ آئیے اس مشن کو اپنا مشن سمجھیں اور ایسے اداروں کا دست و بازو بنیں۔

کیونکہ کفالتِ یتیم سے جنت کا حصول بھی، رفاقتِ رسولﷺ بھی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

مجدی رشید

مجدی رشید

بلاگر نے پنجاب یونیورسٹی سے ابلاغیات میں ماسٹرز کیا ہے۔ مختلف چینلز کے ساتھ وابستہ رہنے کے بعد آج کل ایک رفاعی تنظیم میں میڈیا ریلیشنز آفیسر کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ طبیعت کی حساسیت اور صحافت سے لگاؤ کے باعث گردونواح میں ہونے والے حالات و واقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں اور اُسے احاطہءِ تحریر میں لانے کی کوشش کرتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔