دانتوں پر سنسر نصب کرکے کھانے پینے کی اشیا پر نظر رکھنا ممکن

ویب ڈیسک  ہفتہ 24 مارچ 2018
دانتوں پر نصب سنسرز غذائی اجزاء کی معلومات جمع کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ فوٹو : سائنس ڈیلی

دانتوں پر نصب سنسرز غذائی اجزاء کی معلومات جمع کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ فوٹو : سائنس ڈیلی

میڈ فورڈ: سائنس دان ایسے سنسرز بنانے میں کامیاب ہو گئے ہیں جنہیں دانتوں پر نصب کر کے کھانے پینے کی عادات اور  کھانے کی مقدار کو جانچنا ممکن ہو جائے گا۔

کھانے کی مقدار کا تعین کرنا، متوازن غذا کھانا اور پھر دن بھر میں کھانے والی کیلوریز کا ریکارڈ رکھنا ایک مشکل امر ہے جس کے لیے کبھی ڈائٹ چارٹ کا سہارا لینا پڑتا ہے تو کبھی طرح طرح کے ٹوٹکے آزمانے پڑتے ہیں تو کبھی کوئی ہاتھ میں کیلکولیٹر تھامے دکھائی دیتا ہے تاہم سائنس دانوں نے اب اس پیچیدہ مسئلے کا آسان اور سادہ سا حل ڈھونڈ لیا ہے۔

میڈ فورڈ میں واقع ٹفٹس یونیورسٹی آف انجینئرنگ میں سائنس دانوں نے 2×2 ملی میٹر کے سنسرز ایجاد کر لیے ہیں۔ یہ سنسرز دانتوں پر براہ راست نصب کیے جاسکتے ہیں جنہیں بغیر تار کے ایک موبائل ڈیوائس سے منسلک کردیا جاتا ہے۔ یہ سنسرز کھانے پینے کی اشیاء کے اجزاء مثلاً نمک، شکر، الکوحل اور دیگر جز کے بارے میں معلومات موبائل کو بھیجنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ان سنسرز کی مدد سے کھانے پینے کی عادات کا مکمل ڈیٹا محفوظ رکھا جاسکتا ہے دن بھر میں کھائے گئے نمک، شکر، الکوحل وغیرہ کی مقدار کی معلومات بھی جمع کی جاسکتی ہیں جس کی مدد سے مریض خود کھانے پینے کی عادات اور مقدار کو تبدیل کرنے کے قابل ہوجاتا ہے جو کہ ذیابیطس، دل کے امراض اور دیگر بیماریوں کے علاج میں معاون ثابت ہو سکتی ہیں۔

یہ سنسرز تین تہہ پر مشتمل ہوتے ہیں جس میں سے ایک لہر کھائی گئی غذا کے اجزاء کو جذب کرتی ہے جب کے دیگر تہیں دو چوکور سنہری باریک پلیٹوں پر مشتمل ہوتی ہیں یہ تینوں تہیں ایک اینٹینا کی طرح کام کرتی ہیں جو غذا کے اجزاء سے متعلق معلومات ریڈیائی لہروں کی طرح وصول کرتے اور آگے بھیجتے ہیں۔ یہ سنسرز مختلف غذائی اجزاء کو وصول کرتے ہی اپنا رنگ تبدیل کرلیتے ہیں۔

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ان سنسرز کی کامیابی کے بعد ایسے سنسرز تیار کیے جائیں گے جو نمک، شکر اور الکوحل کے علاوہ دیگر غذائی اجزاء کو محسوس کرنے اور ان کی معلومات کو محفوظ کرنے کے قابل ہوں گے اس طرح سنسرز کے ذریعے تمام غذائی اجزاء کا ڈیٹا جمع رکھنا ممکن ہو جائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔