رشتۂ مناکحت

شکیل صدیقی  ہفتہ 24 مارچ 2018

بچّو بھائی سوئمبر رچانے جا رہا تھا اور پریشان میں تھا۔ اس لیے کہ وہ بر دکھوے میں جا رہا تھا اور اس کے والدین کا کہنا تھا کہ میں اس کے ساتھ جاؤں۔ بالآخر بچّو بھائی کی شکل دکھائی دی تو میں نے اطمینان کا سانس لیا۔ مگر اس پر ناقدانہ نگاہ ڈالنے کے بعد میرا اطمینان رخصت ہونے لگا۔ میں وہاں سے راہ فرار اختیار کر چکا ہوتا اگر اس کے قرضے تلے نہ دبا ہوتا۔ میں نے مختلف موقعوں پر تھوڑے تھوڑے کر کے گیارہ لاکھ روپے اس سے قرض لیے تھے اور ابھی تک ادا نہیں کر پایا تھا۔

بچّوبھائی پاجامہ شیروانی پہنے تھا اور سر پہ اس نے گول سفید ٹوپی لگائی ہوئی تھی۔ وہ اسٹک ٹیکتا ہوا میری طرف آ رہا تھا۔ اسٹک کی ٹک ٹک ٹک عام حالت میں تو نہیں البتہ اس وقت عجیب سی معلوم ہو رہی تھی۔ بچّو کھانس بھی رہا تھا۔ میں جانتا تھا کہ وہ دمے کا مریض ہے۔ اس کے سر میں کھجلی ہو رہی تھی یا پھر کسی چیونٹی نے کاٹ لیا تھا، اس لیے اس نے اپنی گول ٹوپی اتاری اور سر کھجانے لگا۔ ہلکی روشنی میں اس کا کاسۂ سر چمکنے لگا۔ اس کا سر بالوں سے عاری تھا، البتہ بالوں کی ایک جھالر گردن سے قدرے اوپر رہ گئی تھی۔ اس کے ہاتھوں پیروں میں لرزش تھی۔ (عموماً اچھے اچھوں کے ہاتھ پاؤں ایسے موقعوں پر کانپنے لگتے ہیں، چنانچہ یہ کوئی خاص بات نہیں تھی۔)

’’آؤ چلیں۔‘‘ اس نے میرے نزدیک پہنچ کر کہا تو میں نے اس کا بازو تھام لیا۔

بچّوبھائی بر دکھوے میں جا رہا تھا، میں اس کا رشتہ مانگنے جا رہا تھا، اس کے اہل خانہ ساتھ کیوں نہیں جا رہے تھے، اس عقدے سے پردہ اٹھانے والا کوئی نہیں تھا۔

جب ہم پورٹیکو میں پہنچے تو ڈرائیور نے کار کا دروازہ کھول دیا اور ہم دونوں پچھلی سیٹ پر بیٹھ گئے۔ کار چل پڑی اور اس کے ساتھ ہی میری زبان بھی۔ میں نے اپنے خدشات کا اظہار کیا اور کہا کہ مجھے یہ بیل سر منڈھتے دکھائی نہیں دیتی۔ اس لیے کہ بچّو بھائی نرا کودن تھا اور اس نے مڈل سے زیادہ تعلیم حاصل نہیں کی تھی۔

’’تمہاری خدمات میرے والدین نے کس لیے حاصل کی ہیں میرے پیارے صحافی دوست۔‘‘ بچّو نے چہک کر کہا۔ سچ کو جھوٹ میں ملانا تو کوئی تم لوگوں سے سیکھے۔ میرے لیے بھی کوئی چکر چلاؤ نا؟‘‘

’’اچھا ہاں، مجھے سوچنے دو۔‘‘ میں نے کہا تو وہ خاموش ہوگیا۔ یقیناً وہ مجھے موقع دے رہا تھا کہ میں اپنے دماغ میں لفظوں کا ملغوبہ تیار کر لوں اور حسب ضرورت اسے زبان سے اس کے ہونے والے سسرالیوں پر اگل دوں۔

کار نصف گھنٹے بعد ایک اعلیٰ بنگلے کے دروازے پر جا کر رکی تو گارڈ نے جھانک کر دیکھا، پھر گیٹ کھول دیا۔ گویا وہ بچّو سے پیشگی واقف تھا۔ کار پورٹیکو میں جا کر رکی تو تین افراد نے ہمارا استقبال کیا۔ وہ سوٹ پہنے ہوئے تھے اور چہرے سے معزز دکھائی دیتے تھے۔

ان میں سے جو گہرا نیلا سوٹ پہنے تھا وہ سیٹھ باٹلی والا تھا۔ غالباً اس لیے کہ اس کا چہرہ کسی بوتل سے مشابہ تھا۔ اس نے دونوں افراد کا تعارف کرایا تو معلوم ہوا کہ وہ ان کے بھائی بند ہیں۔ ایک سیٹھ توپ جی اور دوسرے رائفل جی تھے۔ غالباً یہ نام ان کے کاروبار کی مناسبت سے تھے۔ تھوڑی دیر بعد ہم ایک پرتکلف ڈرائنگ روم میں داخل ہوئے۔ چائے پیش کی گئی۔ ملازم نے ایک پیالی بچّو کو دی۔ چونکہ اس کے ہاتھوں میں رعشہ تھا اس لیے پیالی طشتری میں جلترنگ بجانے لگی۔ اسے کسی نہ کسی طور سنبھالا۔ مگر وہ اپنی بتیسی نہ سنبھال سکا اور چائے پیتے ہوئے پیالی میں گر پڑی۔ میری تو روح فنا ہوگئی، لیکن ان میں سے کسی نے اس کا نوٹس نہیں لیا۔ وہ تینوں حضرات (بلکہ حاضرات) اس کی جائیداد اور بینک بیلنس کے بارے میں ہی کوائف جمع کرتے رہے۔

ایک نے بہک کر یہ پوچھ ہی لیا کہ بچّو نے کہاں سے ڈگری حاصل کی ہے۔ وہ مڈل پاس تھا، مگر میں نے کہا ’’ڈگری انھوں نے پنجاب یونیورسٹی سے لی ہے۔‘‘

’’ڈگری کی فوٹو اسٹیٹ نکاح نامے کے ساتھ لگا دینا۔‘‘ اس نے کہا۔

’’وہ تو اب نہیں ہے۔ 65ء کی جنگ ہوئی تھی تو بھارتی فوجی اپنے ساتھ لے گئے تھے۔‘‘ میں نے بتایا۔ ’’اس میں کوئی خاص بات نہیں تھی، لیکن وہ آرٹ پیپر پر چھپی ہوئی تھی، اس لیے اچھی لگتی تھی۔‘‘

ڈرائنگ روم صاف ستھرا تھا، لیکن اس کے باوجود نہ معلوم کہاں سے ایک ناہنجار مکھی وہاں آ گئی اور بچّو کی ناک میں گھسنے کے کوشش کرنے لگی۔ مکھی کی اس نامعقولانہ حرکت پر بچّو کو چھینک آگئی تو اس کی ٹوپی پھسل کر اس کی گود میں آ گری۔ اس کی چندیا چمکنے لگی اور اس کی عمر کا پول کھل گیا۔ بچّو نے ٹوپی پھر پہن لی۔ بدحواسی میں میری ٹانگیں کانپنے لگیں، لیکن انھوں نے اس کی طرف یوں دیکھا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔

بچّو نے چائے کے ساتھ رکھے ہوئے بسکٹوں کی طرف ہاتھ بڑھایا اور ایک بسکٹ اٹھا کر کھانے لگا۔ بسکٹ ہلکے باریک کاغذ میں لپٹا ہوا تھا، جو اسے اپنی کمزور نگاہی کی وجہ سے نظر نہیں آیا تھا۔ بہرحال دوسرے تو نابینا نہیں تھے۔ انھوں نے سب کچھ دیکھ لیا تھا، لیکن حیرت کی بات ہے کہ کسی نے کچھ نہیں کہا۔

’’تمہیں ٹیلی وژن کا کون سا پروگرام پسند ہے؟‘‘ باٹلی والا نے براہ راست بچّو سے پوچھا۔

’’ریسلنگ‘‘۔ بچّو نے شرما کر اپنی انگلی مروڑی ’’عورتوں کی ریسلنگ۔‘‘

ان کی بات ہوں ہاں اور اچھا پر اٹکی ہوئی تھی، لیکن جب میں نے کہا کہ بچّو ہونے والی بیوی کے نام ڈیفنس کے دو بنگلے اور نئے ماڈل کی دو کاریںکر دے گا تو ان کے چہروں کے بلب روشن ہو گئے، جو اس بات کی علامت تھی کہ رشتہ انھیں منظور ہے۔

رشتہ طے ہوگیا تو میں نے کار میں رکھی ہوئی مٹھائی سے اسی وقت ان لوگوں کا منہ میٹھا کرا دیا۔ انھوں نے ان فروعاتی باتوں کی طرف بالکل توجہ نہ دی کہ بڑے میاں بچّو بھائی کے دانت گر چکے ہیں اور اب وہ بتیسی پر گزارا کر رہا ہے، اس کا سر بالوں سے عاری ہو چکا ہے، ہاتھوں پیروں میں رعشہ ہے اور وہ دمے کا مریض ہے۔ وہ بسکٹ کھاتے وقت کاغذ بھی کھا لیتا ہے۔ ان کی نگاہ بچّو پر نہیں بلکہ اس کے کاروبار اور جائیداد پر تھی۔ اس کے علاوہ باقی باتوں سے تو آپ بخوبی واقف ہوں گے کہ وطن عزیز میں لڑکیوں کی تعداد لڑکوں سے زیادہ ہے، لہٰذا انھیں بھی کہیں نہ کہیں اور کسی نہ کسی طرح سے کھپانا مقصود ہے۔

گویا لائق لڑکے کھیپی ہیں اور نالائق لڑکیوں کی کھپت کر رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔