ایسا تو ہونا ہی تھا

جاوید قاضی  ہفتہ 24 مارچ 2018
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

بالآخر پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا۔ ڈالر کی اونچی اڑان اور رہے ہم وہیں جہاں تھے۔ بنیادی طور پر ڈار صاحب چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ ہیں۔ ان کے لیے کافی ہے کہ کشکول بھر جائے، بھرنے کی وجہ چاہے کچھ بھی ہو۔ موصوف ڈالر کی تلاش میں رہتے تھے چاہے جس ریٹ پر ملے۔ ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر اتنے بھر چکے کہ ہم سوچتے رہ گئے کہ آخر یہ نوٹ آئے کہاں سے؟ زرمبادلہ کی Major Source  آپ کے Export Remittance  ہوتے ہیں۔

جب ایکسپورٹ اور ریمی ٹینسس، Imports  سے کم ہوجاتے ہیں تو ہمیں آئی ایم ایف سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔ ڈار صاحب کے دور میں ہم نے ورلڈ بانڈ مارکیٹ میں اپنے بانڈز فلوٹ کیے۔ جہاں مروج بانڈز پر سود کی شرح 2.5 فیصد سے زیادہ نہ تھی، وہاں ہم نے انویسٹرز کو متاثر کرنے کے لیے چھ فیصد کی آفر دی۔ وہ اس لیے کہ پاکستان کے لیے ان مارکیٹس سے ڈالر لینا آسان نہ تھا، کیونکہ ہماری ریٹنگ بانڈ مارکیٹ میں اچھی نہ تھی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے ہم ورلڈ بانڈ مارکیٹ میں کیوں گئے؟ ہم نے آئی ایم ایف سے رجوع کیوں نہیں کیا؟

کیونکہ آئی ایم ایف کی شرائط بہت زیادہ تھیں اور ہماری معشیت کے بارے میں آئی ایم ایف بہت کچھ سمجھتا تھا اور ہمیں اس کی شرائط بے معنی لگتی تھیں، جب کہ ورلڈ بانڈ مارکیٹ ہم سے کوئی سوال نہ کرتا تھا، چھوٹے موٹے ورلڈ ریٹنگ ادارے جیسے پراکٹر اینڈ گیمبلز اور موڈیز سے جانکاری لیتے تھے۔

آئی ایم ایف کی شرائط کیا تھیں؟ شرط یہ تھی کہ اپنے اخراجات کو کم کرو اور آمدنی کو بڑھاؤ۔ آمدنی بڑھانے کے لیے ہمیں ٹیکس لگانے پڑتے تھے۔ ہم نے کبھی ڈائریکٹ ٹیکسز نہیں لگائے، ہمیشہ ان ڈائریکٹ ٹیکسز لگائے اور یہ بات آئی ایم ایف کو کبھی سمجھ نہ آئی۔ ہوا کیا؟ قرضوں کا بوجھ غریب پر پڑا۔ کیونکہ ان ڈائریکٹ ٹیکسز سے مہنگائی بڑھتی ہے۔ جس ایک روپے میں کل ایک کلو آٹا ملتا تھا، آج اس روپے میں آدھ کلو آٹا ملتا ہے۔ روپیہ تو ہم چھاپ سکتے تھے، مگر ڈالر نہیں، جو قرضہ ہم روپوں میں لیتے ہیں وہ ہمیں روپوں میں ہی واپس کرنا پڑتا ہے اور جو قرضہ ہم ڈالر میں لیتے ہیں وہ قرضہ ہمیں ڈالر میں ہی واپس کرنا پڑتا ہے۔

’’کہ لے آئیں بازار سے جسم و جاں اور‘‘

روپے کا نوٹ تو ہم خود چھاپتے ہیں مگر ڈالر کہاں سے آئے؟ ڈالر لانے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ اپنے روپے کی ویلیو کو کم کیا جائے، یا پھر ڈالر میں قرضہ واپس کرنے کے لیے ڈالر میں ہی قرضہ لیا جائے۔ اب تک ہم نے یہی کیا کہ ڈالر کا قرضہ ہم ڈالر کے قرضے سے اتارتے رہے اور جب یہ حد پوری ہوئی اور ڈالر میں قرضہ لینا ممکن نہ رہا۔ ہم بہت مقروض ہوچکے تو ہم نے اپنے روپے کی قدر کم کردی۔ ہم بحیثیت قوم عالمی برادری میں یہی حیثیت رکھتے ہیں۔

نتیجہ کیا نکلا، ڈالر آپ نے لیے اور روپیہ ہمارا کم ہوا۔ دیکھا جائے تو یہ روپے کی قدر کم ہوئی یا پھر غریبوں کی قوت خرید کم ہوگئی، مطلب اثرات وہ ہی مرتب ہوئے جو ان ڈائریکٹ ٹیکسز لاگو ہونے سے ہوتے ہیں۔ یہ تو وہی ماجرا ہوا کہ کرے کوئی اور، بھرے کوئی اور۔

ڈار صاحب پر الزام ہے کہ ان کے اثاثے 1990ء کے مقابلے میں سو گنا بڑھ گئے ہیں۔ وہ اسٹیٹ بینک کے سابق گورنر کے ذاتی اکاؤنٹ کو منی لانڈرنگ کے لیے استعمال کرتے تھے۔ یعنی کماتے روپوں میں تھے اور باہر ڈالر کی شکل میں بھیجتے تھے۔ مگر یہ الزام ابھی ثابت ہونا باقی ہے، میاں صاحب کے ایونٹ فیلڈ کے فلیٹس کا کیا معاملہ ہے؟

جس طرح میاں صاحب نے اپنے تمام بیرونی اثاثوں کا بوجھ قطر کے شہزادے کے کندھوں پر ڈال دیا بالکل اسی طرح مشرف نے اپنے بیرونی اثاثوں کا بوجھ سعودی عرب کے بادشاہ کے کندھوں پر ڈال دیا۔ محترمہ بینظیر بھٹو کی قدر میری نظر میں اپنی جگہ لیکن سوئس بینک میں اکاؤنٹ کا الزام ان پر بھی ہے۔ سرے محل کا مالک کون ہے؟ یہ بھی الزام ہے کہ پییپلز پارٹی کی حکومت میں لانچز کے ذریعے منی لانڈرنگ کی جاتی تھی۔

معاشیات کی لغت میں اس مظہر کو کس طرح دیکھا جائے گا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم نے Export Remittance  میں، یا یوں کہیے کہ بیرونی زرمبادلہ میں کمایا کم اور خرچ زیادہ کیا۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ جو ڈالر ہم نے کمایا ہماری اشرافیہ کے مخصوص ٹولے نے ہم سے روپوں میں خرید کر منی لانڈرنگ کی اور یوں ڈالر نایاب ہوگیا۔

رسوائی کا عالم یہ کہ ہم ڈالر تک پہنچنے کے لیے سعودی عرب کے سامنے کشکول لیے کھڑے ہیں، کیونکہ وہ ہمارے دیرینہ دوست ہیں، مشکل وقت میں ہمیں سہارا بھی دیتے ہیں مگر اس کی بھاری قیمت پاکستان کو ادا کرنی پڑتی ہے۔ ہمیں ان کے بیانیہ کو پاکستان کی سوسائٹی میں امپورٹ کرنا پڑتا ہے۔ مگر اب سعودی عرب بھی اپنے Narrative  پر Counter Narrative  بنا رہا ہے۔

میرٹ کے اصولوں کو اگر پرکھا جائے تو آخر وہ کون سا طریقہ تھا جس سے ڈالر کی آمدنی کو بڑھایا جاتا۔ یہ الگ بحث ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کا سب سے بڑا کارنامہ پاکستان کو ایٹمی قوت بنانا تھا مگر معاشی اعتبار سے بھٹو کا سب سے بڑا کارنامہ اسٹیل ملزکا بنانا تھا۔ اسٹیل ملز کسی بھی ہیوی انڈسٹری کے لیے ریڑھ کی ہڈی کے مانند ہے، مگر پاکستان اسٹیل مل اس وقت ابتری کی حالت میں ہے۔

جو بات میں سمجھتا ہوں کہ مجھے ضرور بولنی چاہیے وہ یہ ہے کہ اگر ماضی میں ہم نے لوگوں کا معیار زندگی بہتر بنانے کے لیے انویسٹمنٹ کی ہوتی تو آج یہ دن دیکھنے کو نہ ملتا۔ ترقی یافتہ قوموں کو چھوڑ کر اگر ہم نئی ابھرتی قوموں کا بھی جائزہ لیں مثلاً ملیشیا، میکسیکو اور چین وغیرہ تو ان کا معیار زندگی، زرمبادلہ اور ایکسپورٹس میں ترقی کی بنیادی وجہ کیا ہے۔

کسی بھی قوم کا بھرپور معاشی اظہار کیا ہوسکتا ہے اور وہ کتنی معیاری چیزیں (Competitive Rate) سستے داموں میں پیدا کرسکتے ہیں۔ قوموں میں معیاری چیزیں کون پیدا کرسکتا ہے؟ وہ ہے معیاری لیبر (Skilled labour) اب سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ یہ معیاری لیبر کیسے پیدا ہوگا۔

ایک معیاری لیبر ایک معیاری آدمی کا عکس ہوتا ہے۔ مجھے تھر میں قطع نظر اس کے کہ Engro Power Plant سے تھر میں ماحولیاتی آلودگی پیدا ہوگی لیکن وہاں کا استحصالی نظام ٹوٹ رہا ہے، میں نے ایک دلت محکوم عورت کو ہیوی ٹرک چلاتے ہوئے دیکھا۔ ہماری عورت آج تک گھر کے قید و بند میں ہے۔

ہم نے ابھی تک اس کو برابر کی حیثیت نہیں دی کہ وہ مردوں کے شانہ بشانہ ہوکر ملک کی معشیت میں کردار ادا کرے۔ ہمارے ملک کی معشیت کی ترقی میں ہمارا Narrative بھی ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ اس ملک کی ترقی کے لیے ہمیں اپنے Narrative کو بھی بدلنا ہوگا۔ اسکول بند ہیں۔ اسپتال غیر فعال ہیں۔ پینے کا صاف پانی میسر نہیں اور خادم اعلیٰ سڑکوں کا جال بچھانے میں مصروف ہیں۔

دنیا کی تاریخ میں کسی بھی ترقی یافتہ ملک کی Economic Paradigm کو دیکھیں تو ہمارے جیسی قوموں کو کسی میٹرو ٹرین پروجیکٹس کی ضرورت نہیں۔ ان کی ضروریات زندگی اولین حیثیت رکھتی ہیں کہ ان کو بہتر نظام تعلیم، اسپتال اور پینے کا شفاف پانی مہیا کیا جائے۔ ہم نے اپنی قوم کی ضروریات زندگی پر توجہ نہ دے کر اس قوم کو بہتر معیار زندگی سے محروم کردیا ہے۔

ہمارے روپے کی قدر کی تاریخ، پاکستان کی تاریخ کی طرح ہے۔ ڈالر کوئی روپیہ نہیں جس کو چھاپہ جائے، ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر کو بڑھانے کے لیے بہت سے پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں اور یہ کوئی عام آدمی کا کام نہیں بلکہ ملک کا ہنرمند طبقہ ہی کر سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔