کھانا خود گرم کرو!

شاذیہ خان  ہفتہ 24 مارچ 2018
جب اللّٰہ کی تقسیم سے انکار کرنا ہے تو ’’میٹھا میٹھا ہپ ہپ اور کڑوا کڑوا تھوتھو‘‘ کا اختیار نہیں مل سکتا۔
فوٹو: انٹرنیٹ

جب اللّٰہ کی تقسیم سے انکار کرنا ہے تو ’’میٹھا میٹھا ہپ ہپ اور کڑوا کڑوا تھوتھو‘‘ کا اختیار نہیں مل سکتا۔ فوٹو: انٹرنیٹ

پچھلے دنوں اسلام آباد میں کچھ ’’آزاد خیال‘‘ خواتین انتہائی بھدّی لکھائی میں کتبے اٹھائے باہر سڑکوں پر نکلیں آئی تھیں، کتبوں پر لکھا تھا کہ… ’’اپنا کھانا خود گرم کرو، میں نے برتن نہیں دھونے، میں بھی ایک ’’سخت لونڈا‘‘ ہوں۔‘‘ وغیرہ وغیرہ… اس کے علاوہ اور بھی بہت کچھ “اول فول” لکھا تھا۔ 
اوکے خواتین ! ہم مان لیتے ہیں آپ آج کے بعد “لونڈیا” نہیں، لونڈا ہیں، سو آج سے ہم اپنے کام ادل بدل کرلیتے ہیں۔
کس شعبے سے شروع کریں گی ؟چلیے، کم ترین شعبے سے آغاز کرتے ہیں۔یہ لکشمی چوک میں گٹر بند پڑے ہیں اور عوام فون کر کرکے ناک میں دم کیے جا رہے ہیں، تو ’’شیلا جی‘‘ ذرا اپنی جوانی دکھائیے، کہ آج سے آپ بھی ایک ’’سخت لونڈا‘‘ ہیں۔ ذرا ناک سے رومال ہٹائیے، کیونکہ آپ کے میاں صاحب کل اسی گٹر میں اتر کر جان کھپا رہے تھے۔ ان کو بھی بو آتی ہے، مگر وہ سب بھول کر لگے رہے۔یہ بجلی کا کھمبا ہے۔ اس ایریا میں بجلی کی آنکھ مچولی چل رہی ہے۔ اب آپ ذرا اپنے پائے نازک سے پایل اتاریئے، چل میری چندا، ذرا اوپر چڑھ ناں…اور ہاں!
’’اوئی ، ہائے اللہ جی، مر گئی‘‘
جیسی آوازیں نکالنا منع ہیں۔
چلیے جلدی کیجیے۔ ارے ہاں، دھیان سے، کرنٹ نہ لگ جائے۔ کیا کہا، دستانے بھاری ہیں؟ ہیں… بھلا دستانے بھی بھاری ہوتے ہیں؟اچھا میڈم جی، آپ بھی آئی ہیں؟
آپ بھی بہت ’’سخت لونڈا ‘‘ ہیں؟
چلیں پھر ذرا یہ پیاز کی بوری اٹھائیں اور اِس کو اُس ٹرک پر پھینک کے آئیں۔
کیا کہا بھاری ہے ؟
ارے نہیں تو، بس ڈھائی من کی ہی تو ہے۔ اور آپ ہی نے تو کہا تھا کہ آپ سخت لونڈا ہو؟
بس آج کے بعد من من بھر کے برتن نہیں دھونا پڑیں گے، نہ ہی ہزاروں کلو کے کپڑے استری کرنا ہوں گے۔ بس یہ “پھول” سی ہلکی پھلکی بوریاں ہیں، ریشم کی گانٹھ جیسی، چلو اٹھاؤ ان کو۔ ان کو اٹھاؤ گی تو پیسا ملےگا۔
مزدوری ملےگی تو گھر چلےگا ناں …

چل شاباش! گھر میں تیرا میاں برتن دھو دھو کے تھک گیا ہے، اور انتظار میں ہے کہ تُو “کما” کر لائے گی تو وہ ہانڈی چڑھائے گا-

مجھے یقین ہے کہ ہماری ان ’’معصوم‘‘ خواتین کی یہیں پر بس ہو جانی ہے- ممکن ہے آپ بھی کہیں کہ جناب آپ نے بھی تو سیدھا گٹر میں اتار دیا، ٹرک پر چڑھا دیا، کھمبے پر لٹکا دیا…
تو بھئی ان کی اپنی ہی تو ڈیمانڈ ہے، جب برابری کرنی ہے تو ڈیوٹی بھی برابر پوری کرنا ہوگی ناں-؟؟

جب اللّٰہ کی تقسیم سے انکار کرنا ہے تو ’’میٹھا میٹھا ہپ ہپ اور کڑوا کڑوا تھوتھو‘‘ کا اختیار نہیں مل سکتا۔
اب ذرا زندگی کے دوسرے شعبہ جات کی طرف آ جائیے-
کیا خواتین بیس بیس گھنٹے حشر کی گرمی میں ٹرک چلا سکتی ہیں؟
سارا سارا دن کرین کی سیٹ پر بیٹھ کے کھدائی کر سکتی ہیں؟
اور کرین بھی پر منصوبے میں کہاں میسر ہوتے ہیں، بےچارے مزدور اپنے ہاتھوں میں بیلچا اور کدال اٹھائے سخت زمین کی کھدائی کرتے نظر آرہے ہوتے ہیں، وہ بھی شدید گرمی اور جھلسا دینے والی دھوپ کے اندر۔

’’سخت لونڈے‘‘ کے زعم میں مبتلا ہونے والی یہ خواتین بازار میں سبزی، فروٹ کی ریڑھی لگاکر بارہ بارہ گھنٹے سینکڑوں گاہکوں کو نپٹا سکتی ہیں؟
کیا سبزی منڈی اور تھوک کے بازاروں میں سو سو کلو کی بوریاں اٹھا کے ٹرک کو لوڈ، اور اَن لوڈ کر سکتی ہیں؟
سیلاب آئے، زلزلے آ جائیں، حادثے ہوں؛ جسمانی مشقت سہار کے مشکلات میں گھرے افراد کو ریسکیو کر سکتی ہیں؟

اتنی مثالیں ہیں کہ بندہ لکھتے لکھتے تھک جائے پر ختم نہ ہوں…

جب ہر بات پر انکار ہے تو غرور کس بات کا؟

اور پھر یہ سب کرنے کے بعد بھی مرد آپ کو عزت دیتا ہے۔ عورت ماں کی شکل میں ہو تو اس کے قدموں میں سر رکھتا ہے، بیوی ہو تو قدموں میں لوٹتا ہے، ہر ضرورت پوری کرتا ہے، ناز نخرے اٹھاتا ہے- بہن ہو تو سائبان بن جاتا ہے- بیٹی ہو تو پڑھاتا لکھاتا ہے، ہر خواہش پوری کرتا ہے، شادی کروانے تک کتنے خرچے کرتا رہتاہے۔ اور یہ سب وہ اپنی خوشی اور اطمینان سے کرتا ہے، کوئی زور زبردستی نہیں۔

آپ گھر میں سکون سے بیٹھی ہو اور وہ جھلاّ دن بھر کڑکتی دھوپ تلے، تپتی سڑکوں پر خود کو جلاتا ہے اور آپ کے لیے ایک مسکراہٹ خرید کے لاتا ہے۔ اور آپ،
آپ کہتی ہو کہ:
’’میں کپڑے استری نہیں کروں گی، میں کھانا گرم نہیں کروں گی۔‘‘

بصد شوق ، کچھ بھی نہ کیجئے۔ لیکن:
پھر اب گٹر بھی خود صاف کیجیے، ٹرک چلائیے، مال لوڈ کیجئے، تپتی بھٹّی پر بیٹھ کے لوہا کوٹیے، گلی گلی، نگر نگر پھر کے سبزی بیچیے، کوریر سروسز میں جا کے محلہ محلہ ڈاک بھی بانٹیے …‘‘ باقی گھر پہ رہ کر’’مشکل مشکل‘‘ کام ہم کر لیں گے۔ برتن بھی دھو لیں گے، کھانا بھی پکا لیں گے، اور کپڑے بھی استری کرلیں گے۔

شاذیہ خان

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ[email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔