مجھے ملال نہیں اپنی کم نگاہی کا

شاہد سردار  اتوار 25 مارچ 2018

پاکستان میں عام انتخابات کی آمد آمد ہے ۔ سیاسی پارٹیاں جلسے جلوس کے ذریعے اپنی طاقت کا مظاہرہ کر رہی ہیں اور اپنی اپنی کامیابی کے بلند وبانگ دعوے کر رہی ہیں لیکن اب تک کسی بھی سیاسی پارٹی نے انتخابات کے لیے اپنے منشور کا اعلان نہیں کیا، نہ عوام کو بتایا کہ وہ ملک و قوم کی بہتری کے لیے کیا ایجنڈا لے کر انتخابی میدان میں اتریں گی تاکہ رائے دہندگان کو فیصلہ کرنے میں آسانی ہو۔

ترقی یافتہ جمہوری ملکوں میں سیاسی پارٹیاں انتخابات سے بہت پہلے قومی مسائل کی نشاندہی اور ان کے حل کے لیے تجاویز پرکام شروع کردیتی ہیں ، لیکن پاکستان میں ایسا کوئی رواج نہیں اور اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ یہاں اصولوں کی بجائے اقتدار کی سیاست ہوتی ہے۔

سیاسی پارٹیاں آخری وقت میں منٹوں کا اعلان کر بھی دیں تو ان کا مقصد اس پر عملدرآمد سے زیادہ اقتدار حاصل کرنا ہوتا ہے وہ ووٹروں کو اپنے پروگرام سے متاثر کرنے کی بجائے ایسے امیدواروں کی تلاش پر توجہ دیتی ہیں جو اپنے حلقے میں کارکردگی سے زیادہ اثر و رسوخ اور رعب دبدبے کے بل بوتے پر جیتنے کی اہلیت رکھتے ہوں اور اقتدار کے لیے ہونے والی اس لڑائی میں صاحب ثروت یا صاحب حیثیت لوگ ہی میدان مارتے ہیں۔ یہی نہیں مخصوص چہرے مخصوص وزارت عظمیٰ، مخصوص صدارتی کرسی اور مخصوص لوگوں کی ’’باریاں‘‘ یہی ہمارے ملک کے الیکشن کی حقیقت ہے، اصلیت ہے۔

اس بات میں دو رائے نہیں ہوسکتی کہ ہمارا ملکی افق برسہا برس سے کسی حقیقی یا سچے لیڈرکا متلاشی ہے جو قائد اعظم ثانی ثابت ہو اور مہاتیر محمد جیسے وصف کا حامل ہو ۔ ویسے بھی عہد ساز شخصیت اچانک منظر عام پر نہیں آجایا کرتیں بلکہ نرگس کی ہزاروں سالہ بے نوری کا وہ اجر ہوتی ہیں جو ایک خاص وقت پر چمن کو نور کی صورت میں ملنا ودیعت کردیا گیا ہوتا ہے۔

دراصل جس قوم کا اچھا سوچنے والے کم ہوں اس قوم کے ہر فرد کو موت آنے سے قبل بہت کچھ کرگزرنا چاہیے۔ ویسے بھی کوئی دور اپنے ابراہیم کی تلاش میں نہیں ہوتا بلکہ وہ لمحہ بت شکنی سے بہت پہلے اسے جنم دے لیا کرتا ہے۔

یہ انتخابات بہر طور ہماری ملکی تاریخ میں حد درجہ اہمیت کے حامل ہیں کیونکہ اگلے انتخابات ہماری سیاست کی نئی منزل میں داخل ہوجائیں گے، کیونکہ 2018 کے انتخابات لڑنے والی قیادت، مختلف سیاسی پارٹیوں کے لیڈرز، اگلے انتخابات تک عمر کے حوالے سے بزرگی کے اس مقام پر کھڑے ہوں گے جہاں اکھاڑے کے باہر بیٹھ کر داؤ پیچ سکھائے جاتے ہیں،کیونکہ انھیں علم ہے کہ یہ ان کا شاید آخری الیکشن ہے۔

اس کے بعد ان کی اگلی نسلوں کی باری ہے، اگلی نسلوں کو ابھی سے تربیت دینا اور الیکشن کے میدان میں اتارنا ضروری ہے کیونکہ سیاسی چہروں کو مانوس ہونے میں اور ان کی آواز عوام کے دلوں میں پہنچانے اور ان کی امیدوں کے چراغ جلانے کے لیے کم ازکم پانچ برس درکار ہوتے ہیں لیکن افسوس ہماری سیاسی بساط ہمیشہ پٹے ہوئے مہروں پر مشتمل چلی آرہی ہے، وہی مخصوص چہرے اور وہی ان کا مخصوص طرز حکمرانی:

مجھے ملال نہیں اپنی کم نگاہی کا

جو دیدہ ور ہیں انھیں بھی نظر نہیں آتا

کے مصداق دراصل پاکستان میں سیاست قصہ، کہانی یا داستان ہی ہے، اسے کبھی اس کی اصل روح کے مطابق پروان چڑھنے نہیں دیا گیا، یہاں ’’جمہوریت‘‘ مارشل لا کی چھتری تلے پروان چڑھتی رہی جس نے میڈیا کے ساتھ عدلیہ کو بھی اپنے حق میں استعمال کیا۔

سیاست میں دولت اور سرمائے کے استعمال سے ’’ہارس ٹریڈنگ‘‘ کے ذریعے کسی کی شکست اور کسی کی فتح یقینی بنانا ہمارے ہاں کی سیاست کے اخلاقی زوال کی بدترین مثال ہے اور بدقسمتی سے ہماری تقریباً تمام ہی جماعتیں اس بیماری میں مبتلا چلی آرہی ہیں اور اس امر کو جمہوریت پر بدنما داغ سے ہی تعبیرکیا جاسکتا ہے ۔ ترقی یافتہ جمہوری ممالک میں سیاسی اخلاقیات پر سب سے زیادہ زور دیا جاتا ہے اور جو اس معیار پر پورا نہ اترے اس سے قیادت کا حق چھین لیا جاتا ہے، ہمارے ہاں بھی ایسی روایات قائم ہونی چاہئیں۔ غیر اخلاقی سیاسی ہتھکنڈے جمہوریت کی خامی نہیں سیاسی پارٹیوں میں پائی جانے والی خرابی ہے۔

سیاسی جماعتیں اپنی ذمے داریاں نبھاتے ہوئے اجتماعی طور پر اس کے خلاف کھڑی نہ ہوئیں تو عوام کے اعتماد سے محروم ہوجائیں گی اور یہ جمہوریت ہی نہیں ملک اور قوم کے لیے بھی بڑا نقصان ہوگا۔ اس لیے سیاسی جماعتوں کو اپنے منشور اور پروگرام پر عملدرآمد اورکامیابی کے لیے صرف جائز جمہوری طور طریقے اختیار کرنے چاہئیں اور ہارس ٹریڈنگ جیسی لعنت کو ہمیشہ کے لیے دفن کردینا چاہیے۔

جمہوریت کا تقاضا یہی ہے کہ ہماری سیاسی پارٹیاں انتخابات کے لیے سنجیدگی سے اپنا اپنا وژن یا منشور عوام کے سامنے لائیں اور اس کی تیاری کے لیے اپنے تھنک ٹینکس قائم کریں اور یہی نہیں بلکہ عوام کی سیاسی اور ذہنی تربیت بھی سیاسی جماعتوں کی ذمے داری ہے۔ وہ گالی گلوچ، ایک دوسرے کی پگڑی اچھالنے اور غیر اخلاقی ہتھکنڈوں سے پوائنٹ اسکورنگ کی منفی سیاست سے باہر نکلیں اور قوم کو ایسا لائحہ عمل دیں جو اسے امن و استحکام اور ترقی و خوشحالی کی بلندیوں تک لے جائے۔ کیونکہ پاکستان میں سیاست برداشت کے جس وصف سے تہی داماں ہوتی چلی جا رہی ہے وہ کسی بھی صورت مناسب نہیں بلکہ اسے بھی ایک طرح کی انتہا پسندی قرار دیا جائے تو شاید مبالغہ آرائی نہ ہوگی۔

صد حیف کہ ہمارے بعض سیاست دانوں میں سیاسی بلوغت کا شائبہ تک دکھائی نہیں دیتا۔ تاہم چونکہ سیاست میں کوئی بات حرف آخر نہیں ہوتی اس لیے ضرورت اس امرکی ہے کہ سیاست داں اپنی خو بدلیں اور اپنے طرز حکمرانی میں تبدیلیاں لائیں انھوں نے اپنے اور اپنے آبا و اجداد کے لیے تو سب کچھ کرلیا سب کچھ بنا لیا اب وقت آگیا ہے کہ وہ اس ملک کے عوام کی تقدیر بنائیں، اسے زندگی اور اس کی ضروریات سے تہی داماں نہ کریں، عوامی فلاح کے منصوبے بنائیں تاکہ عوامی ہمدردیاں حاصل کرسکیں۔ وطن عزیزکو اس وقت سیاستدانوں کی سنجیدگی اور حب الوطنی درکار ہے نہ کہ وہ طرز عمل جو انھوں نے اپنا رکھا ہے اور بھول رہے ہیں کہ ان کی یہ روش جمہوریت کے لیے مضر ثابت ہوسکتی ہے۔

پاکستان کے عام انتخابات میں کھڑے اہم ترین لوگوں کے لیے امسال وطن عزیزکی شہ رگ کراچی سے انتخابی معرکہ سرکرنا بلاشبہ ایک ٹیسٹ کیس کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ یہاں ایم کیو ایم کا اثرورسوخ اب محض دیوانے کا خواب ہی کہا جاسکتا ہے۔

ایم کیو ایم کے اندر جو کچھ بھی ہوا وہ قیادت کے ناکام ہونے کا غماز ہے جس نے شہری سندھ کے سیاسی بحران کو مزید گہرا کردیا ہے۔ پاکستان کے سب سے بڑے شہر میں اتنا بڑا سیاسی خلا کون پر کرسکے گا؟ کیونکہ کراچی میں کوئی ایم کیو ایم کو نشانہ بنا کر متبادل نہیں بن سکتا لیکن کراچی کے سیاسی محرکات کا ادراک کرتے ہوئے اپنی جگہ بنائی جاسکتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔