دن مناتے جایئے

رئیس فاطمہ  اتوار 25 مارچ 2018
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

ہمارے یہاں جس جوش وخروش سے مختلف دن منائے جاتے ہیں، بے حساب روپیہ خرچ کیا جاتا ہے، اس پر وہ مثال صادق آتی ہے کہ ’’کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا بارہ آنے‘‘ اب 23 مارچ ہی کے دن کو دیکھ لیجیے سرکاری سطح پر بڑا اہتمام کیا جائے گا لیکن قرارداد پاکستان جس روح اور جذبے کے ساتھ منظورکی گئی تھی، اس کی جھلک تک دکھائی نہیں دیتی، کم ازکم اس دن تو سیاستدانوں، حکمرانوں اور مولوی حضرات کو اس بات کا پرچارکرنا چاہیے کہ ’’سب مل کر رہو‘‘ لیکن بھلا وہ کیوں کرینگے؟ ان کا تو دال دلیہ لڑائی جھگڑے اورگالی گلوچ سے چلتا ہے۔

یوں کہنے کو بڑے بڑے اعزازات دیے جائینگے۔ وہ بھی اقربا پروری، سیاسی وابستگی اور سفارشوں کی بنیاد پر، جلسے بھی ہونگے جلوس بھی نکلیں گے، ٹیلی ویژن والوں نے بڑا تیر مارلیا تو چند منظور نظر صحافیوں کو بلاکر بٹھا لیا، چند خود ساختہ دانشوروں کو آن لائن پک کرلیا اور 23 مارچ کے حوالے سے تقریریں کروا ڈالیں، شام سات سے بارہ بجے تک جو یہ ٹاک شوکا میلہ لگا رہتا ہے اسے ’’میلۂ مویشیاں‘‘ سے تشبیہ دینا تو غلط ہوگا کیونکہ وہ سال میں ایک بار لگتا ہے۔

یہاں ٹیلی ویژن والوں کو محنت کرنے کی عادت نہیں، اس لیے کرائے کے بغیر دستیاب دانشور اور صحافی خود اپنی ڈیوٹی کے منتظر رہتے ہیں۔ اینکر دوہرے فائدے میں رہتا ہے۔ ایک تو اسے محنت نہیں کرنا پڑتی، لکھے ہوئے سوال سامنے ہوتے ہیں اور یہ بھی کہ کس سے کون سا سوال پوچھنا ہے، اگر کسی مہمان نے اسکرپٹ سے ہٹ کر بات کرنے کی کوشش کی تو اینکر کے کان میں لگا مائیک مشکل آسان کرتا ہے اور فوراً ہی ’’بریک‘‘ لینا پڑتا ہے۔ ہر دن پر جلسے جلوس اور نعرے بازی بہت ہوتی ہے لیکن عمل مفقود۔

ابھی کچھ دن پہلے عورتوں کا عالمی دن 8 مارچ گزرا ہے۔ کیا انقلاب آگیا؟ کون سے مسائل حل ہوگئے؟ 70 فی صد پاکستانی عورتوں کو عورتوں کے عالمی دن کا پتہ ہی نہیں، ہماری نام نہاد خواتین اس دن کوکیسے مناتی ہیں۔ فائیو اسٹار ہوٹلوں میں فیشن زدہ خواتین کا جمگھٹا لگاکر ’’ہائی ٹی‘‘ پی کر دیہات کی غریب عورت کے مسائل پر باتیں کرتی ہیں اور تالیاں بجواتی ہیں۔

دو نمبر کی سیاسی بیگمات سے سیمینار کا افتتاح کروایا جاتا ہے، تقاریر کروائی جاتی ہیں جو گھریلو ملازماؤں کو تشدد کا نشانہ بھی بناتی ہیں اور ان کے نام پر این جی او سے کثیر فنڈز بھی حاصل کرتی ہیں۔ این جی اوز کی زیادہ تر خواتین ان غیر ملکی فنڈز پر سیروتفریح کرتی ہیں، ذاتی مقاصد حاصل کرتی ہیں،کبھی آپ نے دیکھا کہ 8 مارچ کو یہ ’’بیگمات‘‘ اور این جی او چلانے والی موقع پرست خواتین کبھی ایدھی ہوم گئی ہوں اور وہاں رہنے والی بے سہارا عورتوں کے مسائل معلوم کیے ہوں؟

کہ وہ کن عذابوں سے گزر رہی ہیں؟ کبھی اولڈ پیپلز ہوم ’’دارالسکون‘‘ گئی ہوں اور تنہائی کا عذاب جھیلنے والی عورتوں سے بات کی ہوں، ان کی تنہائی دورکرنے کے لیے کچھ تحائف لے کرگئی ہوں؟ بس نعرے لگوالو، ٹی وی والوں نے بہت تیر مارا تو چند خواتین کو بلاکر بٹھا لیا، ایک شاعرہ، ایک ادیبہ، ایک سیاستدان، ایک رقاصہ، ایک گلوکارہ اور بس وہ بھی وہی جو ہر پروگرام آپ اپنے جلوے بکھیرتی نظر آئیں گی۔

بڑے زور و شور سے وہ عورتوں کے حقوق کی بات کریںگی اور پروگرام ختم ہونے پر اپنے بالوں پہ ہاتھ پھیرتی ہوئی اسٹوڈیو سے باہر نکل جائیںگی۔کبھی کسی چینل یا NGO نے حکومت سے یہ مطالبہ کیا کہ وزارت سماجی بہبود یہ بیڑہ اٹھائے کہ سینئر سیٹیزن اور لاوارث خواتین کے لیے ایسے ہوسٹل بنائے جائیں جہاں معقول معاوضے پر ان کو رہائش اور دیگر سہولیات مہیا کی جائیں۔

ایک پورشن ان خواتین کے لیے ہو جو عزت سے کرایہ دے کر علیحدہ کمرے میں رہناچاہتی ہیں اور دوسرا پورشن ان بے سہارا اکیلی خواتین کے لیے ہو جو رشتے داروں کے ہوتے ہوئے تنہا ہوں، انھیں کوئی اپنے ساتھ رکھنا چاہتا ہو، ان سے آدھا کرایہ لیا جائے اور بقیہ عطیات کی اپیل کی جائے۔ یہ عطیات نقد رقم کے علاوہ دال، چاول، آٹا، گھی، بسکٹ، ڈبل روٹی، گھی، تیل اور دیگر ضروری اشیا پر مشتمل ہوں۔ جیساکہ ’’دارالسکون‘‘ والے کرتے ہیں۔

’’اولڈ پیپلز ہوم دارالسکون‘‘ کی سروس سے بہت متاثر ہوں لیکن وہاں قباحت یہ ہے کہ ایک ایک کمرے میں چار سے پانچ بیڈ لگے ہیں، مردوں کا پورشن الگ ہے، بہت صفائی ستھرائی ہے، بڑا خیال رکھتے ہیں لیکن اگر کوئی علیحدہ کمرہ لینا چاہے تو وہ معذرت کرلیتے ہیں کہ وہاں آنے والے زیادہ تر وہ ذہنی مریض ہیں جن کو اپنوں کے رویے نے مارا اور وہ ذہنی مریض ہوکر یہاں داخل کردیے گئے۔ بہت سے بالکل صحیح الدماغ بھی ہیں، یہ بھی تنہائی کا شکار ہیں اور اپنی اپنی اولادوں کے ستم کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ یہاں اپنی تنہائی بانٹتے ہیں۔

اب آیئے ’’مدر ڈے‘‘ اور ’’فادر ڈے‘‘ کی طرف یہ بھی مغرب کی دین ہیں۔ وہاں تو ایک دن ماں اور باپ کے نام کردیا جاتا ہے لیکن یہاں تو ایسا بھی ممکن نہیں اولاد کو یاد بھی نہیں رہتا کہ انھیں ’’مدر ڈے‘‘ پر بد نصیب ماں کو اور ’’فادر ڈے‘‘ کو بد قسمت باپ کو ایک فون تو کرلینا چاہیے، البتہ مگر ہماری قوم کو نقالی میں ملا ہوا ’’ویلنٹائن ڈے‘‘ ضرور یاد رہتا ہے، گوکہ یہ محبت اور پیار کا دن ہے۔

خلوص میں ڈوبا تحفہ بوڑھے والدین کو بھی تو دیا جاسکتا ہے لیکن ہماری نقالی قوم نے اس کو صرف ’’رومان‘‘ کا دن بنادیا ہے۔ سرخ گلاب صرف نوجوان نسل اپنی گرل فرینڈ اور بوائے فرینڈ کو دیتی ہے جب کہ گلاب محبت کی علامت ہے آپ خوشی سے گلاب کا پھول اپنے کالج کے چپراسی کو بھی دے سکتے ہیں لیکن وہ نہیں جانتے کہ ’’ویلنٹائن ڈے‘‘ پر خوبصورت گلاب اور تحفہ کسی بزرگ کو بھی دیا جاسکتا ہے۔ بس دن مناتے جایئے اور نقالی کرتے جایئے۔ ہماری پوری سوسائٹی نقالی کی بہترین مثال ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔