اِنہی لُٹیروں کے سبب ہی تو بے بس اور مظلوم عوام کنگال ہوئے!

رحمت علی رازی  اتوار 25 مارچ 2018
rehmatraazi@hotmail.com

[email protected]

اللہ تعالیٰ چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار صاحب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔اُن کے احکامات اور غیر متزلزل و غیر لچک دباؤ پر سندھ پولیس کا ایک بڑا ملزم آخر کار ڈھائی ماہ فراری رُوپوشی کے بعدسپریم کورٹ کے سامنے سرنڈرہونے پر مجبور ہو گیا ہے۔ جناب چیف جسٹس صاحب نے سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک تصویر پر بھی درست اور برقت اپنے دکھے دل کا اظہار کیا ہے۔

یہ تصویرنہیں بلکہ یہ ہمارے لٹیرے سیاستدانوں، مقتدر حکمرانوں اور بیوروکریٹوں کی اخلاقیات کا اجتماعی جنازہ ہے۔ یہ غریب اور تہی دست عوام کی بیکسی کا جنازہ ہے۔ تصویر میں دکھایا گیا ہے کہ کفن میں لپٹی اور چارپائی پر رکھی ایک میت کو لوگوں نے اس حالت میں اپنے کندھوں پر اٹھا رکھا ہے کہ سب کے پاؤں گٹر اور نالی کے غلیظ اور سیاہ متعفن پانیوںمیں ڈُوبے ہُوئے ہیں۔ نمازِ جنازہ ادا کرنے کے لیے جاتے ان سب لوگوں کے کپڑے بھی یقینا پاکیزہ نہیں رہے ہوں گے۔ جس کسی نے یہ تصویر دیکھی ہے، اُس کا دل دہل اُٹھا ہے۔

تصویر دیکھ کر ہمارے چیف جسٹس صاحب کے دل پر بھی وہی کیفیت گزری ہوگی جو ایک عام آدمی کے دل پر گزری ہے۔یہی وجہ ہے کہ جناب چیف جسٹس صاحب نے اس کا فوری نوٹس بھی لیا ہے، اپنے دکھی جذبات کا اظہار بھی کیا ہے اور حکم بھی جاری فرمایا ہے کہ پتہ چلایا جائے کہ سفاک منظر کی حامل یہ تصویر کہاں کی ہے؟

جناب چیف جسٹس صاحب نے یہ بھی کہا :’’جس علاقے کی یہ تصویر ہوگی، اُس علاقے کے رکن اسمبلی، کونسلر وغیرہ سب سے اس بارے میں سوال کریں گے۔‘‘ جج صاحب کے الفاظ جس نے بھی سُنے ہیں، سبھی نے ان سے اتفاق کیا ہے۔ شاید یہی وجہ تھی کی اِدھر جسٹس صاحب کا سوال آن ائر ہُوا،اُدھر تحقیق کرنے والوں یہ ڈھونڈ لیا کہ شرم سے ہمارے سر جھکانے والی یہ تصویر حجرہ شاہ مقیم کی ہے۔ پنجاب کے حلقہ پی پی187کی۔ یہ حلقہ نون لیگ کا ہے۔

یہاں سے نون لیگ ہی کے ایک صاحب رضا علی شاہ منتخب ہُوئے تھے۔ وہ وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کی کابینہ کے رکنِ رکین بھی ہیں۔ صوبائی وزیر ہائر ایجوکیشن کے عہدے کے مالک اور حال یہ ہے کہ اُن کے ووٹر اور حلقے کے لوگ محلّے کی غلیظ، متعفن اور گندے پانیوں سے اَٹی گلیوں سے جنازے لے کر جاتے ہیں۔ کیا خود وزیررضا علی شاہ اپنے کسی عزیز کا جنازہ اِسی حالت میں کندھوں پر اٹھا کر جناز گاہ پہنچ سکتا ہے؟

اس کا تصور بھی کر سکتا ہے؟رنج اور دکھ کی بات یہ ہے کہ چیف جسٹس صاحب کی وارننگ سُن کر نہ تو حجرہ شاہ مقیم کے نون لیگی ایم پی اے کو شرم آئی ہے نہ ہی مقامی ایم این اے کو اور نہ ہی مقامی انتظامیہ کو۔ حسبِ معمول یہ واقعہ میڈیا کی زینت بنا، ذرا سی تھرتھراہٹ پیدا کی اور بس بھلا دیا گیا۔ مطلب یہ ہے کہ کیچڑوں اور غلاظتوں بھرے ماحول میں جنازے اٹھتے رہیں گے اور حکمران طبقہ بے حسی وبے شرمی کی چادر اوڑھے رہے گا۔

یہ سب اس لیے کہ ابھی بد قسمتی سے ہمارے عوام کو کوئی کھرا، سچا اور بے لوث محتسب نہیں ملا ہے؛چنانچہ ذمے دارڈھٹائی سے دندناتے پھررہے ہیں۔ عوامی محتسب کے ہاتھ اگر کرپٹ حکمرانوں، ارکانِ اسمبلی اور بیوروکریٹوںکے گریبانوں تک پہنچ رہے ہوتے تو ایسے روح فرسا مناظر ہمارے سماج میں کبھی وقوع پذیر ہی نہ ہوتے۔ لیکن جس ملک کے حکمران اپنی ذرا سی بیماری کے علاج معالجے کے لیے مغربی ممالک چلے جائیں اور اُن کی پُرسش کرنے والا بھی کوئی نہ ہو تو ایسے ممالک میں ایسے ہی مناظر دیکھنے کو ملا کرتے ہیں۔

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بھی ایسا ہی ہورہا ہے۔ یہاں عوام کے جنازے کیچڑوں سے اُٹھائے جارہے ہیں اور شہباز شریف اپنے میڈیکل چیک اَپ کے لیے لندن روانہ ہو گئے۔ پورے ایک ہفتے کے لیے آنجناب نے برطانوی دارالحکومت میں مہنگا چیک اَپ کروایا ہے۔ اگر عوام میں جرأت اور سکت ہوتی تو وہ اپنے اس حکمران سے پوچھ سکتے تھے کہ حضورِ والا، آپ اس صوبے پر دس سال مسلسل حکمران رہے ہیںلیکن اس دوران آپ یہاں ایک بھی ایسا اسپتال نہیں بنا سکے ہیں جہاں آپ کااپنا علاج بھی نہیں ہو سکتا۔ کیوں؟

باتیں آپ کرتے ہیں تو یوں لگتا ہے جیسے آسمان میں تھگلی لگا دیں گے لیکن اصلیت اور حقیقت آپ کی یہ ہے کہ پنجاب بھر میں ایک بھی ایسا اسپتال موجود نہیں ہے جہاں آپ، آپ کی بھاوج اور آپ کے بڑے بھائی کا علاج ہو سکتا۔پانچ سال پہلے نواز شریف اور شہباز شریف نے اعلان کیا تھا کہ وہ پنجاب میں 46 اسپتال تعمیر کریں گے لیکن بنایا ایک بھی نہیں۔یہ اعلان بھی سراسر دھوکا ہی ثابت ہُوا۔

اپنی جیبیں گرم کرنے کے لیے اورنج ٹرین بنانے پر تو زور ہے لیکن کیا غریب اور بیمار عوام نے اس سفید ہاتھی کو چاٹنا ہے؟ پنجاب کے عوام میں اگر سکت اورہمت ہوتی تو وہ وہ سرِ راہ شہباز میاںکا راستہ روک کر پوچھ سکتے تھے کہ آپ نے پچھلے ایک عشرے کے دوران پنجاب میں تقریباً 4 ہزار ارب روپے ’’ڈویلپمنٹ‘‘ کے نام پر اجاڑ دیے لیکن وہ گئے کہاں؟ کوئی ڈھنگ کا ایک اسپتال بنایا ہوتا۔ کوئی ایک معیاری یونیورسٹی بنائی ہوتی۔ کوئی صحت کا ادارہ بنایا ہوتا۔

بے شرمی اور بے حسی کا مگر کوئی حد سے یوں گزرنا دیکھے کہ نون لیگی حکمران اور نون لیگی مقتدر شخصیات جو پچھلے ساڑھے تین عشروں سے اِس بدقسمت قوم کے ناتواںوجود سے جونکوں کی طرح چِمٹے ہُوئے ہیں، اِن سوالوں کے شافی اور اطمینان بخش جواب دینے کی بجائے عوام کا مذاق اور ٹھٹھہ اڑاتے ہیں۔ اور اگر کوئی عدالتی طاقت کٹہرے میں بلا کر اُن کی بد عنوانیوں کے بارے استفسار کرتی ہے تو عوامی جلسوں میں جا کر اُس عدالتی معزز شخصیت کا استہزا اڑانے کی جسارت کی جاتی ہے۔

غور سے دیکھیں تو نااہل سابق وزیر اعظم اور اُن کی راج دلاری کی جرأتیں حد سے متجاوز ہو چکی ہیں۔ یہ عجب تماشہ ہے کہ بڑا بھائی عدالتوں اور عسکری اداروں کا مذاق اڑاتا ہے اور چھوٹا بھائی کہتا ہے: ہمیں مل بیٹھ کر ملک کی بہتری کے لیے کام کرنا چاہیے۔ یہ چھوٹا بھائی، جو اتنا بھی ’’چھوٹا‘‘ نہیں ہے، آگے بڑھ کر اپنے بڑے بھائی کو خود یہ بات کیوں نہیں سمجھاتا؟ جلسے میں یہ باتیں کیوں کہتا ہے؟ کیا دونوں باہمی مشورے سے عوام کے ساتھ ہمارے مقتدر اداروں کو بھی اپنا مستقل تابع فرمان بنانا چاہتے ہیں؟

حکمرانوں نے سازش کرکے عوام کی کمر توڑنے،اداروں پر مزید دباؤ بڑھانے اور اپنے غیر ملکی آقاؤں کی خوشنودی کے لیے ایک نمایاں قدم تو اٹھا لیا ہے۔ یہ قدم اپنی اصلیت اور نوعیت میں مہلک بھی ہے اور ملکی مفادات کے لیے سروں پر لٹکتی تلوار کے مترادف بھی۔ حکمران ٹولے نے دراصل باریک واردات ڈالی ہے۔ عوامی مفادات کے برعکس اور عوام کی رائے پوچھے بغیر حکمرانوں نے پاکستانی روپے کی قیمت اچانک کم کر دی ہے۔ یوں امریکی ڈالر ایک لمحے میں اڑان بھر کر116روپے کے مساوی ہو گیا ہے۔

بینکوں میں ڈالر اکاؤنٹ رکھنے والے ہمارے حکمران اور سرمایہ دار طبقے نے ایک لحظے میں اربوں روپے اپنی جیب میں ڈال لیے اور عوامی معیشت کو ایک ہی جھٹکے میں کھربوں روپے کا ٹیکا لگا دیا گیا۔ عوام آہ وزاریاں کررہے ہیں اور حکمران طبقہ عوامی بیچارگیوں پر قہقہے لگا رہا ہے۔

فی ڈالر پانچ روپے بڑھنے سے پاکستان میں مہنگائی کا طوفان آئے گا نہیں بلکہ آ چکا ہے۔ اب تیل کی قیمتیں بھی مزید آسمان کو چھوئیں گی، بجلی کے نرخ بڑھیں گے، دالوں کے دام بے قابو ہو چکے ہیں، ادویات کی قیمتیں بڑھنے سے پاکستان میں شرحِ اموات میں اضافہ ہوگا کہ غریب نہ دوا خرید سکے گا، نہ ڈاکٹر کی فیس ادا کر سکے گا اور نہ ہی زندہ رہ سکے گا۔ تیل کے نرخ بڑھیں گے تو ٹرنسپورٹ کے کرائے بھی بڑھیں گے۔ یوں آئے روز عوامی ٹرانسپورٹ میں مارکٹائی اور دھینگا مشتی کی وارداتیں بڑھ جائیں گی۔ بہت سی جگہوں پر تو آغاز ہو بھی چکا ہے۔

ویسے تو مبینہ طور پر لوٹ مار کے کارن نواز شریف نے بھی بطورِ وزیر اعظم مہنگائی کے طوفان لانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی لیکن جب سے یہ صاحب شاہد خاقان عباسی آئے ہیں، اِنہوں نے تو پاکستان کے غریب عوام کی چمڑی ہی ادھیڑ کر رکھ دی ہے۔ سات ماہ کے دوران وہ سات بار تیل کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ کر چکے ہیں۔ اسٹاک ایکسچینج کا وہ بیڑہ غرق کر چکے ہیں۔ لیکن’’مستقل مزاجی‘‘ ملاحظہ فرمائیے کہ ایک مشکوک اور مشتبہ شخص کو امریکا میں سفیر بھی نامزد کر دیا ہے۔

ملک کا سارا میڈیا اس آدمی کے خلاف آئے روز خبریں اور اسکینڈل شائع اور نشرکررہا ہے لیکن وزیر اعظم کے کانوں پر جُوں تک نہیں رینگ رہی، صرف اسلیے کہ موصوف اُن کے کاروباری شراکت دار ہیں۔ سچ کہا تھا یونانی فلسفی سقراط نے کہ ’’سرمایہ دار اور تاجر طبقے کو اپنا حکمران بناؤ گے تو اپنی قبر خود اپنے ہاتھوں سے کھود لوگے۔‘‘

یہ قول اپنی پوری سچائیوں کے ساتھ درست ثابت ہورہا ہے۔ ایسے حکمرانوں کے مشوروں اور اشاروں پر ڈالر کی قیمت میں ہوشربا اضافہ کر کے گویا اپنے غیر ملکی آقاؤں کی خوشنودی حاصل کی گئی ہے اور پاکستان کے بائیس کروڑ عوام کے پاؤں میں غلامی کی زنجیریں اور کلائیوں میں ہتھکڑیاں ڈال دی گئی ہیں۔ غضب خدا کا ایک ڈالر کی قیمت میں یک بیک پانچ روپے کا اضافہ؟

مطلب یہ ہے کہ آپ نے پاکستان کے غیر ملکی قرضوں میں ایک ہی لمحے میں 480 ارب روپے کا اضافہ کر دیا ہے۔ یہ کون اتارے گا؟ کیسے اتارے گا؟ آج کے حکمران تو اپنی آل اولاد کے ساتھ فرار ہو کر اپنے غیر ملکی آقاؤں کے پاس پہنچ جائیں گے لیکن یہ پاکستانی عوام کس کی ماں کو ماسی کہہ سکیں گے؟ کہاں فریاد لے کر جائیں گے؟ اپنے پاؤں میں پڑی معاشی قرضے کی بیڑیاں اور کلائیوں میں دھنسی ہتھکڑیاں کیسے کاٹ سکیں گے؟ کیسے توڑ سکیں گے؟

پاکستان کے ممتاز ترین چاروںماہرینِ معیشت نے محتاط ترین الفاظ میں بتایا ہے کہ ڈالر کی قیمت میں ہمارے ظالم اور سفاک حکمرانوں نے حالیہ ایام میں جو اضافہ کیا ہے، اس کی وجہ سے پاکستان کے ہر خاندان پر 90 ہزار روپے کا اضافی سالانہ بوجھ آ پڑا ہے۔ ڈالر کی قیمت میں اضافہ کرکے چونکہ پاکستانی معیشت کی اساس پر کلہاڑا چلایا گیا ہے، اسلیے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ پاکستانی معیشت کوکوئی فوری ریلیف مل سکے۔ حکمران جان بوجھ کر جھوٹ بول رہے ہیں کہ روپے کی قیمت میں کمی کرکے اور ڈالر کی قیمت بڑھا کر ملکی معیشت کو ’’خاطر خواہ‘‘ ریلیف ملے گا اور یہ کہ’’پاکستان کی ایکسپورٹ میں اضافہ ہو گا۔‘‘

یہ چِٹا جھوٹ ہے۔ حکمرانوں کی طرف سے نری کذب گوئی۔کرپٹ اور دروغ گو حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان کی ایکسپورٹ میں پچھلے تین برسوں کے دوران پہلے ہی پچاس فیصد گراوٹ اور کمی آچکی ہے۔ اب ڈالر کی قیمت بڑھا کر ہمارے دھوکے باز حکمران ہم سے پھر غلط بیانی کرکے قوم کو گمراہ کررہے ہیں۔ پاکستانی مال کی برآمدگی یاایکسپورٹ میں اِس حد تک گراوٹ آچکی ہے کہ افغانستان کے ساتھ پاکستانی تجارت بھی 50فیصد گر چکی ہے۔ ڈھائی بلین ڈالر سے نیچے گر کر صرف 1.3ارب ڈالر تک آگئی ہے۔

پاکستانی ایکسپورٹر جو سامان افغانستان بھیجا کرتے تھے، اب وہی سامان چین، بھارت اور ایران بھیج رہے ہیں لیکن ہمارے حکمرانوں کو کوئی پروا نہیں۔ اسلیے کہ اُن کے ’’اپنے کاروبار‘‘ خو ب پھل پھول رہے ہیں۔ ایکسپورٹ میں بے پناہ کمی آنے کاایک خوفناک اور مہلک نتیجہ یہ بھی نکلا ہے کہ پاکستان کے زرِ مبادلہ کے ذخائر صرف گیارہ ارب ڈالر رہ گئے ہیں۔ ایسے میں ’’گنجی‘‘ نہائے گی کیا اور نچوڑے گی کیا؟؟

ہمارے حکمرانوں کی نالائقیوں اور غفلتوں کا نتیجہ یہ بھی نکلا ہے کہ پاکستان کو ’’گرے لسٹ‘‘ میں شامل کر لیا گیا ہے۔ اس نے بھی ہماری اقتصادی حالت پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں لیکن ہمارے حکمران کذب گوئی سے کہہ رہے ہیں: نہیں، نہیں، کچھ بھی تو نہیں ہُوا، پیپلز پارٹی کی پچھلی حکومت بھی تو کئی سال گرے لسٹ میںشامل رہی تھی۔ تقابل کرنے کی بجائے ہمارے حکمرانوں کو اپنے عمل کا حساب دینا ہو گا۔

نواز شریف کے سمدھی وزیر خزانہ نے تقریباً ساڑھے سات ماہ قبل بھی روپے کی قیمت میںاچانک کمی کردی تھی۔ ایک لمحے میں پاکستان کے قرضوں میں 230 ارب روپے کا اضافہ ہو گیا تھا۔ یہ بوجھ بھی عوام ہی کی پہلے سے ٹوٹی کمر پر لادھ دیا گیا تھا لیکن حکمرانوں کے اپنے اللے تللے کم نہ ہو سکے۔ اُن کی عیاشیوں اور اسرافیوں میں کوئی کمی نہ دیکھی گئی۔ اب پھر وہی شیطانی کھیل کھیلا گیا ہے اور عوام کے گلے پر چھری پھیر دی گئی ہے۔ لیکن عوام پریہ ظلم ڈھایا کیوں کیا گیا ہے؟

یہ سوال ایک حکمنامے کی شکل میں چیف جسٹس صاحب ہی وزیر اعظم، وزارتِ خزانہ کے بابوؤں اور مفتاح اسماعیل سے پوچھ سکتے ہیں۔ عوام کی آخری امید تو حسبِ معمول عدالتِ عظمیٰ ہی سے ہے۔ جناب چیف جسٹس صاحب کو سوؤموٹو کے تحت وفاقی حکومت کے بنیادی ذمے داران سے پوچھنا چاہیے کہ نواز شریف کی ساڑھے چار سالہ حکومت میں جو بے تحاشہ قرضے لیے گئے (مبینہ طور پر40ارب ڈالر)، وہ کس مَد میں حاصل کیے گئے؟ کہاں صَرف کیے اور لگائے گئے؟آخر اتنا بڑا غیر ملکی قرضہ کس کے پیٹ کے کنوئیںمیں گُم ہو گیا؟

پاکستان کے غریب عوام کو بھاری شرحِ سُود پر لیے گئے قرضوں میں کس نے اور کیوں پھنسایا؟ معزز جج صاحبان کو لندن میں بیٹھے بہانہ ساز نون لیگی ’’رہنما‘ ‘ اور سابق وزیر خزانہ اور حالیہ دنوں میں پھر سے منتخب ہونے والے سینیٹر اسحاق ڈار کو عدالت کے رُوبرو بلا کر ان بنیادی سوالات کے جوابات جاننے کا پورا حق ہے۔ عوام کو بھی یہ معلوم ہونا چاہیے کہ جن لوگوں کو اُنہوں نے ووٹ دے کر حکمرانی کی گدی پر بٹھایا، اُن لوگوں نے اُسی محسن عوام کی جانوں کا سودا کیسے کر لیا؟ غیروں کے ہاتھ اُنہیں کس بھاؤ فروخت کیا گیا؟

سپریم کورٹ نے بجا فرمایا ہے کہ’’کیوں نہ0 10 بڑوںکو عدالت میں بلا لیا جائے؟‘‘۔ سچی بات تو یہ ہے کہ عوام کی اکثریت نے عدالتِ عظمیٰ کے اس اعلان سے ایک بار پھر بلند امیدیں باندھ لی ہیں، اس توقع کے ساتھ کہ شائد100 کرپٹ اور بدعنوان ہی کیفرِ کردار کو پہنچ سکیں اور عوام یہ نظارہ خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں۔ اگر ایسا نہ ہُوا تو چند مہینوں کے بعد ہونے والے الیکشنوں میں یہ بدعنوان گروہ ایک بار پھر نقب لگانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔لیکن کرپشن، بدعنوانی، دھوکہ، فریب اور قومی دولت لوٹ کر معزز بننے والے آخر کس منہ سے عوام کے سامنے آسکیں گے؟

اُن کے راستے مسدود کرنے اور اُنہیں دوبارہ لوٹ مار سے بازرکھنے کے لیے یہ بات از بس ضروری ہے کہ ہماری عدالتِ عظمیٰ کے توسط سے سیاست کی گندی مچھلیوں کا کامل صفایا کر دیا جائے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو مضبوط خدشات موجود ہیں کہ یہ گندی مچھلیاں ہمارے قومی جَل کو دوبارہ گندہ کردیں گی اور متنازع انتخابی حلقوں میں مزید تنازعات کو ہوا دے کر کوئی گھناؤنا کھیل بھی کھیل سکتی ہیں۔ یہ کھیل ملکی سلامتی کو نقصان پہنچانے کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ جن لوگوں نے غدارِ پاکستان اور مصدقہ بھارتی ایجنٹ شیخ مجیب الرحمن کواپنا نیا نیا ’’محبوب‘‘ بنایا ہے، اُن سے اور اُن کے حالیوں موالیوں سے اب کچھ بھی بعید نہیں!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔