بلوچستان کل اور آج (آخری حصہ)

زاہدہ حنا  اتوار 25 مارچ 2018
zahedahina@gmail.com

[email protected]

گوادر سے رخصت ہوتے ہوئے یاد آرہا ہے کہ بلوچستان اور کوئٹہ کا نام پہلی مرتبہ ساڑھے تین چار برس کی عمر میں اس وقت کان میں پڑا جب چوتھی منزل پر بنا ہوا ہمارا پینٹ ہاؤس یخ بستہ ہوگیا۔

امی نے بتایا کہ یہ کوئٹہ سے آنے والی ہوائیں ہیں جو کراچی کے معتدل موسم کو اچانک سرد کر دیتی ہیں۔ سوئیٹر اور شال میں لپٹے ہوئے ہونے کے باوجود کمروں میں انگیٹھیاں جلتیں اور ان کی ہلکی ہلکی تپش فضا کو گرم کردیتی۔ ہم چلغوزے اور نمکین پستے کھاتے اور اس شہر کے بارے میں سوچتے جو کراچی سے سیکڑوں میل دور تھا، اس کے باوجود وہاں سے چلنے والی خنک ہواؤں کا رخ ہماری طرف ہوتا تو چند دنوں کے لیے سہی ہم بھی سردی کا لطف اٹھاتے۔

پھر ایک رات ہمارے رشتے کے ایک چچا آپہنچے۔ ہاشم چچا کی عرصۂ دراز سے کوئی خیر خبر نہیں تھی، قریبی رشتے دار انھیں رو پیٹ کر بیٹھ گئے تھے اور اب وہ کسی ناول کے کردار کی طرح اچانک آگئے تھے اور بتا رہے تھے کہ جب وہ گھر والوںکی مار پیٹ سے تنگ آکر سسہرام سے نکلے تو اس زمانے کے چلن کے مطابق ممبئی کارخ کیا لیکن کسی غلط ٹرین میں بیٹھے اور کوئٹہ جا پہنچے۔

وہاں ایک بلوچ خاندان نے انھیں پناہ دی۔ وہ نوشکی لے جائے گئے اور اب وہیں رہتے تھے۔ ان کی شادی ہوچکی تھی اور بلوچستان ہماری رشتے داریوں کے دائرے میں شامل ہوگیا تھا، ہماری چچی بلوچ تھیں۔ وہ شاید صرف ایک یا دو مرتبہ کراچی آئیں۔ ان کی گرم جوش محبت آج بھی یاد ہے لیکن غم روزگار نے ان رشتوں کے ساتھ تعلق خاطر کی پرورش کا موقع نہیں دیا اور یہ رشتے داریاں بڑوں کی رخصت کے ساتھ ہی پس منظر میں چلی گئیں۔

سیاست سے وابستگی ہوئی تو بلوچستان اور کوئٹہ ذہن کے نقشے پر مظلومیت کے حوالے سے ابھرے۔ ہمارے یہاں سیاست کے کئی رنگ تھے۔ ایک وہ سیاست تھی جس میں راوی چین لکھتا تھا اور دوسری وہ سیاست جو عہد شکنی، وعدہ خلافی اور بے گناہوں کے لہو سے تربتر تھی۔ خان آف قلات اور ان کے ساتھی سرداروں کی سیاسی بے چینی کو بہانہ بنا کر اس وقت کے صدر پاکستان جنرل اسکندر مرزا نے 8 اکتوبر 1958ء کو ملک میں مارشل لا نافذ کردیا۔ یوں اپنی موت کے پروانے پر انھوں نے آپ دستخط کردیے۔ خان آف قلات کو معزول کیے جانے کے بعد بلوچستان میں نفرت اور بغاوت کی آگ سلگ اٹھی۔

اکتوبر 1958ء میں جب حکومت پاکستان نے خان آف قلات کو معزول کیا تھا تب ہی سے بلوچستان میں حکومت پاکستان کے خلاف باغیانہ جذبات عروج پر تھے۔ اسی زمانے میں زرک زئی قبیلے سے تعلق رکھنے والے 90 سالہ سردار نو روز خان زرک زئی نے زہری کے مقام میر بھاٹ کو اپنا مستقر بنا کر حکومت کے خلاف گوریلا کارروائیوں کا آغاز کیا۔

مارشل لا حکومت کے لیے یہ صورت حال ناقابل برداشت تھی۔ اس نے قرآن کا واسطہ دے کر چند قبائلی سرداروں کو نواب صاحب کے پاس بھیجا اور انھیں ان کے مطالبات تسلیم کرنے کے وعدے پر ہتھیار ڈالنے کے لیے آمادہ کیا۔ قرآن کو بیچ میں لانے کے بعد 20 مئی 1959ء کو نواب نوروز خان اپنے ساتھیوں سمیت فوجی حکام سے ملنے کے لیے چلے گئے جنھوں نے انھیں گرفتار کرکے رسوائے زمانہ قلی کیمپ میں نظر بند کردیا۔

مارشل لا کی عدالت میں نواب نوروز خان اور ان کے ساتھیوں پر بغاوت کے الزام میں مقدمہ چلا اور یکم اپریل 1960ء کو نواب نوروز خان کے بیٹے میر ٹبے خان زرک زئی اور چھ دیگر افراد (میر ولی محمد، میربہاول خان، میر سبزل خان، مستی خان، غلام رسول اور میر جمال خان نیچاری) کو موت کی سزا سنادی گئی۔ 15 جولائی 1960ء کو ان نوجوانوں کو سولی دے دی گئی جب کہ نوروز خان اور ان کے تین ساتھیوں کو عمرقید سزا دی گئی۔ دو برس بعد نوروز خان اس قید کے دوران، قید حیات سے چھوٹ گئے اور صرف بلوچستان ہی نہیں، پاکستان کے ہر انصاف پسند شخص کے سینے میں داغ چھوڑ گئے۔ یہ داغ آج بھی لالہ کے پھول کی طرح تازہ اور سرخ ہیں۔

آر سی ڈی سی کے ناصر سہرابی اور دوسرے مہربان میزبانوں سے رخصت ہوتے ہوئے دل اداس ہوتا ہے۔ ان کی گرم جوشی بہت دنوں یاد رہے گی۔ اس پروگرام کے دوران اسٹیج پر جو ڈرامے کھیلے گئے، نئی کتابوںکے حوالے سے ہونے والی تقریبات، اے ڈی بلوچ کا آدھے گھنٹے کا تھیٹر ’جان محمد بی اے ایل ایل بی‘ جسے دیکھ کر بے اختیار آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں۔

ایک پڑھے لکھے شخص کو ملازمت درکار ہے اور نوکرشاہی اس کی عزت نفس اور خودداری کوکس کس طرح کچلتی ہے۔ سنگت اکیڈمی، کوئٹہ کے اے ڈی بلوچ کی یہ سولو پرفارمنس سب ہی کو اداس کر دیتی ہے۔ اسی محفل میں عرصہ دراز بعد عبداللہ بلوچ سے ملاقات ہوتی ہے۔ استاد عبدالمجید گوادری پر ایک پراثر ڈاکومنٹری دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ بلوچ استادوں نے علم کی روشنی پھیلانے کے لیے کس محبت اور محنت سے کام کیا ہے اور ان کے شاگردوں نے ان کی یاد کو کس طرح سینے سے لگا کر رکھا ہے۔

بلوچستان اور گوادر کے حوالے سے میں نے ابتدا میں رابعہ خضداری کو یاد کیا تھا۔ واپسی کے سفر میں وہ مجھے بہت شدت سے یاد آتی ہے۔ آج کی خواتین شعروادب کے مراحل کس سہولت سے طے کررہی ہیں جب کہ رابعہ خضداری جس کا تعلق چوتھی صدی ہجری سے تھا، اسے فارسی کی پہلی شاعرہ کہا جاتا ہے، اس نے شاعری کی، عشق کیا اور اس کا اظہار اپنی شاعری میں کیا اور اسی کی پاداش میں قتل ہوئی۔ اس کے بارے میں ایک تفصیلی مضمون ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے لکھا ہے۔

انھوں نے فارسی کے مشہور شاعر شیخ فریدالدین عطار کی مثنوی ’’الٰہی نامہ‘‘ کا حوالہ دیا ہے جو پانچ سو اشعار پر مشتمل ہے اور جس میں رابعہ خضداری اور اس کے محبوب بکتاش کی المناک داستانِ محبت بیان کی گئی ہے۔ 12 برس پہلے فاطمہ حسن اور شاہ محمد مری نے ’بلوچستان کا ادب اور خواتین‘ کے عنوان سے ایک کتاب مرتب کی جس میں رابعہ خضداری پر کئی مضامین شامل کیے ہیں۔ اس کے علاوہ ’براہوی لوک گیت اور خواتین‘ پشتو لوک گیت اور خواتین، پشتو ادب میں خواتین کا حصہ، جیسے اہم موضوعات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

گوادر سے میری واپسی بذریعہ طیارہ ہوئی اور میں نے آسمان کی نیلگونی کو سمندر کے نیل میں مدغم ہوتے دیکھا اور سفر کے دوران اس کتاب کے مضامین سے اپنی معلومات میں اضافہ کرتی رہی۔ یہ بات میرے لیے نئی تھی کہ بلوچستان میں پہلا مڈل گرلز اسکول کوئٹہ میں 1881ء میں قائم ہوچکا تھا۔

اسی کتاب میں بیرم غوری کے مضمون سے یہ بات میرے علم میں آئی کہ 27 دسمبر 1932ء کو نواب میریوسف علی خان مگسی اور دوسرے بلوچ سرداروں کی موجودگی میں ہونے والی ’بلوچ اینڈ آل بلوچستان کانفرنس‘ میں جو قراردادیں پیش کی گئیں، ان میں سے ایک قرارداد میں یہ کہا گیا کہ ’’کانفرنس اس نظام کو حقارت اور مذمت کی نگاہ سے دیکھتی ہے کہ کسی شخص کی بہن یا بیٹی کو اس شخص کے ظالمانہ رویے کی سزا میں مقتول کے خاندان میں لازمی شادی کرنی پڑے۔ یہ کانفرنس بلوچستان کی برطانوی حکومت اور ریاستی فیڈریشن سے اپیل کرتی ہے کہ انسانیت، برابری اور انصاف کے مقدس اصولوں کے نام پر اس بہیمانہ عمل کو مکمل طور پر روک دیا جائے‘‘۔ اس کانفرنس میں یہ مطالبہ بھی کیا گیا تھاکہ لب اور ولور کے رسوا کن عمل کو ختم کر دیا جائے۔

اس کتاب میں ایک مضمون پروفیسر زینت شاہ کا ہے جو انھوں نے شہداد اور مہناز کی زندگی کے بارے میں لکھا ہے۔ اس داستان کے آخر میں میر عومر نوہانی کا کردار بھی شامل ہوجاتا ہے۔ پروفیسر زینت شاہ نے لکھا ہے کہ یہ بلوچی داستان عورتوں کے حقوق کے استحصال پر احتجاج کی بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ اسی طرح شاہ محمد مری نے پیرک وگراں ناز کی داستان لکھی ہے اور بلوچی افسانہ نگاری پر بھی خامہ فرسائی کی ہے۔ میرگل خان نصیر کی بیٹی گوہر ملک جو شاعری کے ساتھ ساتھ افسانہ نگاری بھی کرتی تھیں، ان کی وہ نظم بھی اس کتاب میں موجود ہے جو گوہر ملک نے پاکستان میں ہونے والے ایٹمی دھماکے پر لکھی تھی:

’’یہ ہے کوہِ راس جو پہچان میرا… کہ اوپر جس کے دھواںاندر ہے آگ… کس نے زہر گھولا ہے چشموں میں اس کے… تری بیٹیوں کے دف، رقص بند… کیوں موقوف ہیں سرگراں ہیں… پریشان اور ملول خیالوں میں ڈوبے… بتا تیرے چشموں کے ٹھنڈے پانیوں میں… چراگاہ و سرسبز اِن وادیوں میں… کس نے لگائی آگ، بتا تُو… برسا دیا زہر کس نے بتا تُو‘‘۔

جہاز نیچے اتر رہا ہے، آسمان اپنی بلندیوں پر چلا گیا ہے اور زمین اپنی جھلک دکھا رہی ہے۔ ایسے میں مجھے عارف بارک زئی کی یاد آتی ہے۔ لیاری کا بلوچ بیٹا جو اپنی دھرتی کے لیے نسخہ شفا لینے اوسلو گیا تھا لیکن اس دانش مند اور دانشور بلوچ کا تعاقب موت کر رہی تھی۔ کون جانے کہ وہ کیسے رخصت ہوا۔ اس کے قاتلوں کا کھوج نہ مل سکا:

زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔