ہماری عورتیں عظیم ہیں

ڈاکٹر نوید اقبال انصاری  پير 26 مارچ 2018
apro_ku@yahoo.com

[email protected]

میں جب بھی اپنے اسلاف کے کارناموں پر نظر ڈالتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ ہماری عورتیں کس قدر عظیم ہیں اور وہ اپنے بچوں کی کس قدر محنت اور توجہ سے پرورش کرتی ہیں کہ یہ بچے قوم کے رہنما بھی بنتے ہیں اور دنیا میں اپنے ملک و قوم کا نام بھی روشن کرتے ہیں۔

واقعی بچوں کی پرورش کرنے اور انھیں ایک اچھا اور قابل انسان بنانے میں جہاں باپ کا اہم کر دار ہوتا ہے وہیں ماں کا کردار نہایت اہمیت کا حامل ہوتا ہے، کیونکہ ماں کے سامنے بچے اپنا پورا دن گزارتے ہیں، وہ ماں سے بہت کچھ سیکھتے ہیں۔ اس کردار کے سبب ہی ہم سنتے ہیں کہ ماں کے قدموں تلے جنت ہے۔

آج ہم سب اپنی اپنی کامیابیوں پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ اس کے پیچھے ہماری ماؤں کے نہ جانے کتنے گھنٹے، دن اور سال چھپے ہوئے ہیں، جس میں انھوں نے ترجیحی بنیادوں پر اپنا وقت ہمارے لیے صرف کیا۔ اگر وہ اپنا یہ قیمتی وقت ہمیں نہ دیتیں تو ہم کبھی بھی اس مقام پر نہیں ہوتے جس پر آج کھڑے ہیں۔

ہماری ماؤں نے اپنا قیمتی وقت جو ہم پر صرف کیا اس کا متبادل کچھ اور نہیں ہوسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں ہر شخص ماں کو بہت عزت دیتا ہے، بڑے سے بڑا افسر بھی جب گھر آتا ہے تو اپنی ماں کے آگے سر جھکا دیتا ہے، یوں ہمارے معاشرے میں ایک عورت کی طاقت، اختیار اور رتبہ بحثیت ماں کسی بڑے افسر (طاقتور مرد) سے بھی بڑھ جاتا ہے۔

لیکن کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ ہم میں سے کچھ لوگ اکثر نادانی میں عورت کی اس طاقت اور مقام اور اس کی قربانیوں کا اعتراف کرنے کے بجائے عورت کے اس عظیم کردار کو بدلنا چاہتے ہیں اور یہ بیانیہ تو اب عام ہوتا جارہا ہے کہ جو عورت گھر میں رہتی ہے اس عورت سے کم تر ہے جو باہر جاکر ملازمت کرتی ہے یا وقت گزارتی ہے۔ یہ تصور میڈیا کے ذریعے بھی عام کیا جارہا ہے کہ کامیاب عورت وہی ہے جو کما کر لاتی ہے، سوشل لائف گزارتی ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا جو عورت گھر میں رہ کر کام کرتی ہے کیا وہ درست نہیں؟ کام تو درحقیقت گھر میں رہنے والی خواتین بھی کرتی ہیں، بس فرق اتنا ہے کہ وہ اپنے اس کام کی تنخواہ نہیں لیتیں۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ کام صرف وہ ہوتا ہے کہ جو گھر سے باہر جاکر کیا جائے اور اس کی تنخواہ بھی ملتی ہے؟

اگر گھر پر رہنے والی خواتین گھر کا کام نہ کریں اور اس کے لیے کوئی ملازمہ رکھ لیں تو اس ملازمہ کو بھی تو تنخواہ دینی ہوگی اور اگر نہ رکھیں خود کام کریں تو اس کا دوسرا مطلب یہ ہوا کہ گھر کے اندر رہنے والی خواتین وہ پیسہ بچا رہی ہیں جو ان کی جگہ کام کرنے والی ملازمہ کو دینا پڑتا۔ یوں غور کیا جائے تو گھر میں رہنے والی خواتین بھی گھر کا کام کاج کرکے مالی وسائل میں مردوں کا ہاتھ بٹا رہی ہیں اور ساتھ ساتھ اپنے بچوں کو بھی وقت دے رہی ہیں۔

دوسری طرف غور کیا جائے تو جو خواتین گھر سے باہر کمانے کے لیے جا رہی ہیں ایک جانب تو وہ گھر سے باہر آٹھ گھنٹے کام کرتی ہیں، پھر گھر آکر بھی کام کاج میں ہاتھ بٹاتی ہیں، گویا انھیں دہری محنت کرنا پڑتی ہے اور اگر ان کے چھوٹے بچے ہیں تو وہ اس دوران اپنا وقت بچوں کو نہیں دے سکتیں جو کہ بچوں کا فطری حق بھی ہوتا ہے۔

ہمارے ہاں ایک سوچ یہ بھی بنتی جارہی ہے کہ ہم کام پر جانے والی عورتوں کا ذکر بڑے فخر سے کرتے ہیں، جب کہ گھر پر رہنے والی خواتین کا ذکر شرمندگی کے ساتھ کرتے ہیں یا خود بعض اوقات خواتین یہ بتاتے ہوئے شرماتی ہیں کہ وہ کوئی ملازمت نہیں کرتیں بلکہ گھریلو زندگی گزار رہی ہیں۔ یہ ایک منفی سوچ ہے، حالانکہ ایک گھریلو خاتوں گھر پر رہ کر اپنے بچوں کی پرورش کرتے ہوئے ایک عظیم کردار ادا کر رہی ہوتی ہے۔

یہی کردار معاشروں کو ایک اچھی نسل مہیا کرتا ہے مگر افسوس کہ اب یہ سوچ الٹی ہوتی جارہی ہے جس سے ایک جانب گھر کی مینجمنٹ بھی متاثر ہو رہی ہے دوسری جانب بچوں کو ماں سے وہ وقت نہیں مل رہا جو ان کا حق ہے۔ ہمارے ایک دوست جو ٹی وی بہت زیادہ دیکھتے ہیں اور ٹی وی پروگراموں سے بہت کچھ سیکھتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ خواتین اس ملک کی پچاس فیصد کے قریب آبادی کا حصہ ہیں اگر وہ گھروں سے نکل کھڑی ہوں تو ہماری معیشت مضبوط تر ہوجائے گی۔

مگر ہم ان سے سوال کرتے ہیں جب یہ پچاس فیصد آبادی گھروں سے باہر نکل کر ملکی معیشت مضبوط کردے گی تو ہمارے گھر کمزور ہوجائیں گے، کیونکہ جب خواتین گھروں پر نہیں ہوں گی تو بچوں کی پرورش کون کرے گا؟ ان کو ڈے کیئر سینٹر میں ڈالنا پڑے گا، پھر جب بزرگ والدین کو تیمارداری اور دیکھ بھال کی ضرورت ہوگی تو ان کو اولڈ ہاؤسز میں ڈالنا پڑے گا۔ کیا ہمیں ایسا معاشرہ چاہیے کہ جہاں اپنے بوڑھے ماں باپ کو گھروں سے نکال دیں۔

اگر اس قیمت پر ترقی کرنی ہے اور عورت کا یہ کردار پسند کرنا ہو کہ وہ گھر سے باہر مرد کے شانہ بشانہ کام کریں تو پھر یہ حقیقت بھی جان لینی چاہیے کہ جن ملکوں میں عورت مردوں کے شانہ بشانہ کام کررہی ہے اور اس ملک کے جی ڈی پی میں اضافہ بھی کررہی ہے، ان ملکوں میں لوگ اپنے والدین کو اولڈ ہاؤسز میں ڈالنے کے بعد دس دس سال فون پر بھی رابطہ نہیں کرتے اور ترقی یافتہ ملک کو قانون بنانا پڑتا ہے کہ اولاد مہینے میں کم از کم ایک بار اولڈ ہاؤس جاکر اپنے والدین سے ملاقات کریں۔

گویا جس عورت نے ملکی معیشت کو مضبوط کرنے کے لیے اپنی جوانی گھر سے باہر وقت گزارنے میں صرف کردی اس عورت کا ٹھکانہ بھی اولڈ ہاؤس ہی ہوگا اور اس کی اولاد بھی اس سے ملاقات کرنے کے لیے برسوں میں بھی وقت نہ نکالے گی۔

کہنے کو تو بظاہر یہ ایک چھوٹا سا اور ذاتی مسئلہ لگتا ہے کہ ایک عورت گھرچھوڑ کر ملازمت کرلے تو نہ صرف اس سے پیسے ملیں گے بلکہ ملکی معیشت بھی مضبوط ہوگی اور اہم بھی ترقی یافتہ ملک کی صفحوں میں آسکیں گے، مگر یاد رہے کہ اس قسم کے ترقی یافتہ ملکوں میں ڈے کیئر سینٹر اور اولڈ ہاؤسز عام ہیں جہاں بچے والدین اور نانا، دادا دادی کے بغیر وقت گزار تے ہیں، کیونکہ ان ملکوں میں بچوں کے ماں باپ ملازمت پر اور نانا، دادا، دادی اولڈ ہاؤسز میں وقت گزارتے ہیں۔

آیئے غور کریں، جن عورتوں کو ہم گھروں پر وقت گزارنے کی بنا پر کمتر سمجھنے لگے ہیں کہ وہ ملکی معیشت میں کوئی کردار ادا نہیں کر رہی ہیں، وہ بڑی عظیم عورتیں ہیں جواس ملک و معاشرے کو عظیم نسل بھی فراہم کرتی ہیں اور جو اس ملک اور معاشرے میں ڈے کیئر سینٹرز اور اولڈ ہاؤسز کے کلچر کو بھی روکے ہوئے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔