مسائل گرفتہ مسلم اُمہ

شکیل فاروقی  منگل 27 مارچ 2018
S_afarooqi@yahoo.com

[email protected]

عالم اسلام اس وقت گردشِ حالات کی زد میں ہے۔ یہ کیفیت ایسی ہے کہ صرف یہی کہا جاسکتا ہے

اے خاصۂ خاصانِ رسل وقتِ دُعا ہے

اُمت پہ تری آکے عجب وقت پڑا ہے

یہ وہی صورتحال ہے جس کے بارے میں ہمیں قرآن مجید کے ذریعے پہلے ہی خبر دی جاچکی ہے۔ سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ مسلمان بڑی بھاری تعداد میں ہونے کے باوجود ذلت اور رسوائی کا عذاب جھیل رہے ہیں اور ہر طرف انتشار اور خلفشار ہی نظر آرہا ہے۔

مسلم اُمہ کی اس زبوں حالی کی وجہ اس کے سوائے اور کچھ نہیں کہ وہ اللہ کے دین سے دوری اور بے وفائی اختیار کرچکے ہیں۔ سچ پوچھیے تو ہم نے بحیثیت امت اللہ کے دین سے بے وفائی ہی نہیں بلکہ غداری اختیار کی ہوئی ہے، جس کی سزا ہم بھگت رہے ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ اس میں بے چارے نیکو کار بھی گھن کی طرح پس رہے ہیں۔ ہماری بداعمالیوں کی وجہ سے دنیا میں ہمارے دین اسلام کی بھی رسوائی ہورہی ہے۔

ہر طرف خونِ مسلم کی ارزانی ہے۔ فلسطین میں اسرائیل مسلمانوں پر بے تحاشا مظالم ڈھارہا ہے تو دوسری جانب مقبوضہ کشمیر میں بھارت نہتے حریت پسندوں کے خون سے ہولی کھیل رہا ہے۔ ادھر میانمار میں بدھ مت کے پیروکاروں نے مسلمانوں کا جینا دوبھر کیا ہوا ہے، جس کی لہر نے اب سری لنکا کے مسلمانوں کو بھی اب اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے لیکن سب سے زیادہ تشویشناک صورتحال ملک شام کی ہے۔

روسی فضائیہ وہاں اس وقت آسمان سے موت برسارہی ہے اور دوسری جانب زمین پر حکمران بشارالاسد کی فوجیں گھروں میں گھس گھس کر درندوں کو بھی مات کردینے والے مظالم ڈھارہی ہیں۔ ہر طرف خون ہی خون ہے۔ عرصۂ دراز سے جاری خون ریز لڑائی نے خوبصورت ملک شام کو لاشوں سے بھردیا ہے اور کھنڈرات میں تبدیل کردیا ہے لیکن افسوس صد افسوس اقتدار کے نشے میں چور بشارالاسد کو اپنے عوام کی تباہی و بربادی کا ذرا بھی احساس نہیں۔ شام کے عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم کی انتہا یہ ہے کہ ایران کی حمایت یافتہ شامی فوج مظلوم خواتین کی عصمت دری کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کررہی ہے۔

یہ کم و بیش اسی طرح کی صورتحال ہے جو مسلم خواتین کو بوسنیا، کوسوو، میانمار اور مقبوضہ کشمیر میں پیش آتی رہی ہے یا پھر انسانی حقوق کے ٹھیکیدار ممالک کے فوجی عراق، افغانستان اور دیگر علاقوں کی مسلم عورتوں پر اسی طرح کے مظالم ڈھاتے رہے ہیں۔

مسلم اُمہ کی اس سے بڑی بدقسمتی اور اخلاقی زوال کی حد اس سے بڑھ کر بھلا اور کیا ہوگی کہ خود کو مسلمان کہلانے والی فوج اور اس کے حواری مسلم خواتین کے تقدس کو پامال کرنے میں ظلم و ستم اور دہشت گردی کا ہر حربہ استعمال کررہے ہیں۔ اس صورتحال پر یورپ محض دنیا دکھاوے کے لیے جھوٹ موٹ کا واویلا کررہاہے اسے اس بات کا انتظار ہے کہ سنی مسلمانوں کی اکثریت اس ظلم و ستم اور قتل عام کے نتیجے میں اقلیت میں تبدیل ہوجائے۔ شاید اس نسل کشی کے بعد اس درندگی کو روکنے کے لیے کوئی قدم اٹھایا جائے جس کا سیدھا سا مطلب یہ ہوگا کہ بقول شاعر:

کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ

ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا

شام کی جنگ کے نتیجے میں پڑوسی ممالک کے درمیان پیدا ہونے والی منافرت اسرائیل کے لیے یقیناً ایک اچھا شگون ہوگا کیونکہ اس جنگ کے باعث یہ خطہ بین الاقوامی طاقتوں کے لیے قوت آزمائی کا اکھاڑہ بن چکا ہے ایسا لگتا ہے کہ شاید گریٹر اسرائیل کے قیام کی راہ میں حائل رکاوٹیں رفتہ رفتہ دور ہوتی جارہی ہیں اور اسرائیل کے مفادات محفوظ سے محفوظ تر ہوتے جارہے ہیں۔ جہاں تک اس خطے میں کارفرما بین الاقوامی قوتوں کے مفادات کا تعلق ہے تو وہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوششوں میں مصروف نظر آتی ہیں مگر ان کا اصل مقصد مستقبل میں ممکنہ طور پر حاصل ہونے والے وسائل پر زیادہ سے زیادہ قبضہ حاصل کرنا ہے۔

دنیا کی دو بڑی طاقتوں امریکا اور روس کے درمیان بظاہر کئی معاملات پر باہمی کشمکش دکھائی دیتی ہے لیکن مسلم اُمہ کے معاملے میں ان دونوں کے درمیان یہ سمجھوتا موجود ہے کہ وہ مسلم ریاستوں کے مسائل کو نہ صرف حل نہیں ہونے دیںگی بلکہ عالم اسلام میں باہمی آویزش کو کسی نہ کسی طور برقرار رکھیںگی۔ افغانستان، عراق، لیبیا اور شام کے حالات سے تو ان قوتوں کے رویے کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے، ایک طرف روس شام کے محاذ پر اپنی قوت کا مظاہرہ کرکے امریکی بالادستی کو چیلنج کررہاہے تو دوسری طرف امریکا خطے میں اسرائیل کے مفادات کے تحفظ کے ساتھ ساتھ اپنی بالادستی کو قائم رکھنے کے لیے مصروف ہے۔

ان مخدوش حالات میں صرف ترکی ہی وہ ملک ہے جو خطے میں پائیدار امن کے قیام، پڑوسی ممالک کے درمیان ٹھوس بنیادوں پر مذاکرات اور مصالحت اور اس کی راہ میں حائل مشکلات اور رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے ہر سطح پر کوششوں میں مصروف ہے۔ ترک فوج نے اسی مشن کے تحت بحالتِ مجبوری شام کے علاقے عفرین میں فوجی مداخلت کی ہے۔

ترکی کے صدر رجب طیب اردگان کے مطابق ترک فوج کو عفرین میں کامیابیاں حاصل ہورہی ہیں اور ترک فوج کے تسلط سے ایک جانب شام کے عوام کو ایک محفوظ پناہ گاہ میسر آئے گی تو دوسری جانب دہشت گرد گروہوں کا صفایا ہوگا جس کے نتیجے میں ایران اور شام کے حکمرانوں کو بھی اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت کا احساس ہوگا۔

شام کے بحران کا قابل عمل حل تلاش کرنے کے لیے اشد ضروری ہے کہ علاقائی ممالک اپنے رویے پر نظر ثانی کریں اور جنگ سے تباہ حال مظلوم عوام کے مصائب کا خیال کرتے ہوئے قیمتی انسانی جانوں کے تحفظ کو اپنی اولین ترجیح قرار دیں۔

سعودی عرب اور ایران کو یمن کے لیے بھی ایسے ہی رویے کا مظاہرہ کرنا چاہیے جہاں جنگ کے نتیجے میں مظلوم انسانوں کے لیے المناک صورتحال پیدا ہوچکی ہے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ اُمت مسلمہ کو اپنے مسائل مذاکرات اور مصالحت کے ذریعے خود ہی حل کرنے ہوںگے اس کے علاوہ کوئی اور چارہ کار نہیں۔ جہاں تک اقوام متحدہ کا تعلق ہے تو ریکارڈ سے ثابت ہے کہ اس کے ذریعے عالم اسلام کے مسائل نہ پہلے کبھی حل ہوئے ہیں اور نہ ہی آیندہ حل ہونے کی کوئی امید ہے۔ بقول غالب:

ہم کو ان سے وفا کی ہے امید

جو نہیں جانتے وفا کیا ہے

نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ او آئی سی کا کردار بھی بس OH ! I SEE کی حد تک ہی محدود رہ گیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے عوام مسلم اُمہ کے لیے اپنے دل میں بڑا درد اور تڑپ رکھتے ہیں لیکن اپنے داخلی، سیاسی مسائل میں الجھے رہنے کے باعث پاکستان عالم اسلام کو درپیش مسائل کے حل کے لیے کوئی کلیدی کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں دکھائی نہیں دے رہا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔