لیاری ایکسپریس وے کی داستان (آخری حصہ)

شبیر احمد ارمان  منگل 27 مارچ 2018
shabbirarman@yahoo.com

[email protected]

لیاری ایکسپریس وے کی تعمیر کے مخالفین نے بہانہ یہ بنایا تھا کہ اگر لیاری ایکسپریس وے منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچ جاتا ہے تو اردگرد کی آبادی کے لیے وبال جان بن جائے گا، یہا ں سے ہیوی گاڑیوں کا گزر ہوجانے کے سبب دھواں دار آلودگی اردگرد کے ماحول کو خراب کرے گی۔

اس ضمن میں لیاری سے وابستہ کچھ این جی اوز میں مہم چلائی گئی تھی کہ وہ لیاری ایکسپریس وے کا تعمیری کام رکوادیں۔ اس سلسلے میں ایک بین الاقوامی تنظیم کی معرفت لیاری کی ایک سماجی انجمن میں ایک سیمینار منعقد کیا گیا تھا، اس نام نہاد سیمینار میں کس کس نے کیا کیا دلائل دیے تھے یہ ایک طویل بحث ہے، لیکن حیرت اس بات پر ہوئی تھی کہ ان دنوں شہر کے دیگر گنجان آبادیوں کے بیچوں بیچ ٹریفک کی روانی کی غرض سے فلائی اوورز اور پلوں کی تعمیرات کا ذکر زوروں پر تھا، جن کی تعمیرات پر ان کا موقف برعکس تھا، یعنی فلائی اوورز اور پلوں کی تعمیرات کے حق میں تھا۔

اس پروپیگنڈہ مہم کے پیچھے اس کمپنی کا ہاتھ کارفرما تھا جسے لیاری ایکسپریس وے کی تعمیر کا ٹینڈر نہ مل سکا تھا۔ اصل حقیقت جان لینے کے بعد لیاری سے وابستہ این جی اوز نے لیاری ایکسپریس وے تعمیر کرو کا مطالبہ زوروں سے کرکے اس سازش کو ناکام بنادیا تھا، لیکن لیاری دشمن عناصر پھر بھی اپنے منصوبہ کے تحت لیاری ایکسپریس وے کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرتے رہے۔

اس وقت اپنی موٹر وے اسکیم پر فخر کرنے والوں، کراچی کی حقوق کی بات کرنے والوں اور اسلامی بھائی چارگی کا درس دینے والوں نے محض چند ووٹوں کی خاطر لیاری ایکسپریس وے کی تعمیر کی مخالفت کی کہ ہرگز ہرگز کسی صورت میں لیاری ایکسپریس وے کو بننے نہیں دیا جائے گا۔ جس پر اس وقت کے بلدیہ عظمیٰ کراچی کے ایڈمنسٹریٹر کیپٹن فہیم الزمان صدیقی نے سخت الفاظ میں اظہار کیا تھا کہ چاہے میری جان چلی جائے لیاری ایکسپریس وے بن کر رہے گا۔ لیکن اس وقت کی پی پی پی حکومت ختم ہونے سے پہلے اس کی نوکری ختم کردی گئی۔

اس دوران جنرل پرویز مشرف نے ملک کی باگ ڈور سنبھالی تو انھوں نے ایک بار پھر فہیم الزمان صدیقی کو بلدیہ عظمیٰ کراچی کا ایڈ منسٹریٹر مقرر کیا، ایک بار پھر فہیم الزمان صدیقی نے لیاری ایکسپریس وے کا قصہ چھیڑدیا تو ایک بار پھر اس کی چھٹی کرادی گئی، جس سے اندازہ لگایا جاسکتا تھا کہ لیاری ایکسپریس وے کے مخالفین کس حد تک متحرک اور مضبوط تھے۔

لیاری ایکسپریس وے بلاشبہ ایک عظیم منصوبہ ہے، اس سے نہ صرف کراچی کی معیشت کو سہارا ملے گا بلکہ جنوبی ایشیا کی اقتصادی صورت حال کے پیش نظر پاکستان کی اہمیت کو مزید فوقیت کا باعث ہوگا۔

مسرت کی اہم وجہ یہ ہے کہ اس منصوبہ سے ہمارے پیارا وطن پاکستان اقتصادی لحاظ سے مضبوط ہوسکتا ہے، کیونکہ کراچی بندرگاہ براہ راست جنوبی ایشیا کی رسد گاہ آپس میں ملاپ کریںگے، جو یقیناً معیشت کے حوالے سے پاکستان کی خوشحالی کے لیے اہم قدم ثابت ہوگا۔ یہ امر باعث اطمینان تھا کہ اس وقت کے چیف ایگزیکٹو پاکستان جنرل پرویز مشرف کی ہدایت کی روشنی میں قومی اقتصادی کونسل نے لیاری ایکسپریس وے کی تعمیر کی منظوری دی تھی۔

اس وقت راقم الحروف نے اپنے کالم اور اہالیان لیاری نے اپنے اخباری بیانات کے ذریعے چیف ایگزیکٹو پاکستان جنرل پرویز مشرف کے اس اقدام کا خیر مقدم کرتے ہوئے اظہار تشکر کیا کہ انھوں نے تمام تر تجاویز کو مسترد کرتے ہوئے لیاری ایکسپریس وے کے نام پر تبدیلی نہیں کی، کیوںکہ ایک حلقے کی طرف سے لیاری ایکسپریس وے نام رکھنے پر اعتراض تھا۔ ہر چند کہ اہالیان لیاری کی توقع کے مطابق تمام رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے وقت مقررہ پر لیاری ایکسپریس وے کو پایہ تکمیل تک نہیں پہنچایا گیا، تاہم 20 ویں صدی کے اس پروجیکٹ کو 21 ویں صدی میں مکمل کیا گیا ہے، جس کا اب بھی کچھ کام باقی ہے۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت لیاری ندی کے پاٹ میں مجموعی طور پر قابضین کی تعداد تقریباً بیس ہزار تک پہنچ گئی تھی، اس وقت سابقہ پی پی پی سندھ حکومت کی ہدایت کی روشنی میں 1500 تجاوزات ندی کے اردگرد سے ہٹالی گئی تھیں، گل بائی سے میوہ شاہ تک جو تجاوزات ہٹالی گئی تھیں ان میں ہوٹلز، کیبن، کارخانے، گودام، بھینسوں کے باڑے، مکانات اور جھونپڑے شامل تھے۔ لیکن منصوبہ التوا کا شکار ہونے کے سبب ایک بار پھر لینڈ مافیا نے قبضہ جمالیا تھا، لسبیلہ اور تین ہٹی پل کے قریب جھونپڑیوں میں بنگالیوں کی آٹھ سے دس ہزار آبادی تھی جو کہ غیر پاکستانی تھے۔

جنھوں نے غیر قانونی طور پر قومی شناختی کارڈ حاصل کر رکھے تھے، جنھیں ملک کی تین بڑی سیاسی پارٹی و تنظیم اور لینڈ مافیا کی پشت پناہی حاصل تھی، دیگر علاقوں میں قابضین ملک کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھتے تھے۔

قبل ازیں لیاری ندی کے دونوں کناروں پر آباد قابضین کا موقف تھا کہ حکومت پہلے انھیں متبادل جگہ فراہم کرے اس کے بعد انھیں ہٹایا جائے۔ اس وقت کی سندھ حکومت نے کسی کو متبادل جگہ فراہم کی تو کسی کو معاوضہ دیا۔ اگرچہ قابضین کا یہ مطالبہ غیر قانونی تھا، پھر بھی حکومت سندھ نے انسانی ہمدردی کے ناتے کسی پر جبر نہیں کیا اور نہ ہی امتیازی سلوک روا رکھا اور اس ہمدردی سے مفادپرست عناصر اور لینڈ مافیا نے بروقت ناجائز فائدہ اٹھایا تھا۔

لیاری ایکسپریس وے کے ابتدائی منصبوبہ کے مطابق لیاری ایکسپریس وے کی تعمیری بولی یکم اکتوبر 1995 کو بین الاقوامی سطح پر تین ارب 22 کروڑ 50 لاکھ روپے سے زائد تھی، جب کہ لیاری ندی کی رخ بندی کے لیے مزید ایک ارب 85 کروڑ روپے کا تخمینہ لگایا گیا تھا۔ لیاری ایکسپریس وے گل بائی لیاری تا سہراب گوٹھ تک 17 کلومیٹر لمبی اور ساٹھ ساٹھ فٹ چوڑی تین رویہ سڑک پر مشتمل منصوبہ رہا تھا۔

ابتدائی منصوبہ کے مطابق لیاری ندی کے دائیں کنارے پر تعمیر ہونے والی سڑک سہراب گوٹھ سے بندرگاہ کراچی پورٹ ٹرسٹ تک بھاری ٹریفک کے لیے جب کہ لیاری ندی کے بائیں کنارے کی سڑک بندرگاہ سے سہراب گوٹھ تک ہیوی ٹریفک کے لیے مخصوص ہوگی۔

اس طرح بندر گاہ کی بھاری ٹریفک کو سپر ہائی وے تک متبادل راستہ دستیاب ہوجائے گا۔ اس وقت کے ماہرین کے اندازوں کے مطابق لیاری ایکسپریس وے سے روزانہ ڈھائی ہزار ٹرالرز، لوڈنگز ٹرک اور 1500 آئل ٹینکرز گزریں گے۔ لیکن اب یہ منصوبہ تکمیل کے بعد اس پر لائٹ ٹریفک چلائی جاری ہے، جب کہ ہیوی ٹریفک کو نادرن بائی پاس سے گزارا جارہا ہے۔ واضح رہے کہ لیاری ایکسپریس وے ساؤتھ باؤنڈ (جنوبی حصہ) سہراب گوٹھ تا ماری پور روڈ کا افتتاح 2008 میں ہوا تھا، جہاں بدستور لائٹ ٹریفک چلائی جارہی ہے۔

اس قسم کے منصوبہ کا ڈیزائن انٹرنیشنل اسٹینڈرڈ پر کیا جاتا ہے۔ جس میں ہیوی و لائٹ دونوں ٹریفک چلتی ہیں، لیاری ایکسپریس وے پر بھی ہیوی ٹریفک چلایا جاسکتا ہے، تاہم یہ دو لین اور ایک اضافی ایمرجنسی لین کا منصوبہ ہے جس میں چار انٹر چینج اور بڑا حصہ ایلیوینیٹڈ پر ہے، اس لیے یہاں ہیوی ٹریفک نہیں چلایا جائے گا۔

یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ نام تو لیاری سے منسوب ہے لیکن لیاری کی حدود میں کوئی انٹر چینج نہیں ہے، جب کہ شہر کے دیگر علاقوں میں انٹر چینج تعمیر کیے گئے ہیں، جہاں آمد ورفت کے لیے انھیں سہولت حاصل ہے۔ امید ہے لیاری ایکسپریس وے پر لیاری کے لیے بھی انٹر چینج تعمیر کیا جائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔