فلم کو صنعت کا درجہ دینے اور کلچرل پالیسی بنانے کا اعلان

قیصر افتخار  منگل 27 مارچ 2018

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کیلئے سبسکرائب کریں

کسی بھی ملک وقوم کی پہچان اس کے فن وثقافت سے ہوتی ہے لیکن بدقسمتی کہہ لیں یا عدم توجہ، ہمارے ملک میں قیام پاکستان سے لے کر آج تک اتنی حکومتیں قیام میں آئیں لیکن کسی نے بھی اس شعبے پرکبھی توجہ نہیں دی۔

مسائل توملک بھرمیں بے شمارتھے اورآج بھی اسی طرح موجود ہیں ، جن کے حل کے ’’وعدوں‘‘ پرسیاسی جماعتیں عوام سے ووٹ حاصل کرتے ہوئے اعلیٰ ایوانوں میں اپنی حکومتیں ’’سجاتی‘‘ رہیں ، مگرکسی نے فن اورثقافت کی بہتری اورترقی بارے نہ سوچا اورنہ ہی کبھی بات کرتے سنائی دیئے۔

البتہ کبھی کبھارکسی وزیریا مشیرکوفنون لطیفہ کی تقریب میں مدعو کرلیا جائے توپھرکوئی فلم کوصنعت کا درجہ دلوانے کا خواب دکھاتا ہے اورکوئی فن وثقافت کوپاکستان کا چہرہ قراردیتا، لیکن اس کے باوجود اس شعبے کی بہتری اوربحالی کے علاوہ فنکاروںکی فلاح وبہبودکیلئے عملی طورپرکوئی کچھ نہیں کرتا اوراگرکہیں کوئی غلطی سے اعلان کر بھی دے تواس پرعملدرآمد ہونے سے پہلے ہی حکومت چلی جاتی ہے اور وہ احکامات فائلوں میں بند ہوکرمنوں مٹی تلے ’’دفن‘‘ ہوجاتے ہیں۔

اگرہم ان فنکاروں کی بات کریں جوعملی طورپرسیاسی جماعتوں کے ساتھ وابستہ ہیں تووہ بھی اپنی سیاسی جماعتوں کی پالیسی اورخصوصاً فن وثقافت سے عدم دلچسپی کے باعث انتہائی مایوس دکھائی دیتے ہیں۔ کیونکہ کوئی بھی اس شعبے کے بارے میں کام کرنے کیلئے سنجیدہ تو بہت دورکی بات اس پرکوئی تجویز دینے کوبھی ضروری نہیں سمجھتا۔

’’ سونے پہ سہاگہ ‘‘ تویہ ہے فنون لطیفہ سے وابستہ کچھ فنکار، جن کواعلیٰ ایوانوں میں جانے کا موقع ملا ہے تووہ بھی فن وثقافت کی نہیں بلکہ اپنی سیاسی جماعتوں کی ’’ پالیسی ‘‘ کے مطابق دیگرمسائل پربات کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

یہ وہ مسائل ہیں جواب پوری قوم کے لئے لمحہ فکریہ بن چکے ہیں۔ ہم ایک ایسے ملک میں بستے ہیں، جہاں پرفن وثقافت کواس قدرغیرضروری سمجھا جاتا ہے کہ اس کی وزارت ہی ختم کردی گئی ہے۔ مگرپھربھی کچھ لوگ پرامید ہیں اوروہ سوچتے ہیں کہ حالات میں سدھارآئے گا اورایک دن ہمارے حکمران بھی اس شعبے کی اہمیت کو سمجھیں گے اورترجیحی بنیادوں پراس کیلئے ’’ اقدامات ‘‘کرینگے۔

اسی سلسلہ میں ’ پاکستان نیسنل کونسل آف دی آرٹس ‘ میں تعینات ہونے والے معروف اداکارجمال شاہ نے بطورڈائریکٹرجنرل اپنی کاوش سے ایک ایسا پروگرام اسلام آباد میں منعقد کیا ، جوبظاہرتوناممکن تھا لیکن انہوں نے عملی طورپرکام کرتے ہوئے تین روزکیلئے اسلام آباد میں تین سوسے زائد فنکاروں، مصوروں، رائٹرز، رقاص، ڈائریکٹرز، موسیقاروں، کوریوگرافر ، سینما آنراور فلمسازوں سمیت دیگرکواکھٹاکیا اوراس دوران ایسی نشستوں کا اہتمام کیا گیا، جس کا مقصد صرف اورصرف فن وثقافت کی بہتری اورترقی تھا۔ اس موقع پرجہاں بہت سے لوگوں نے ایک دوسرے کی رائے کااحترام کیا، وہیں بہت سے اختلاف کرتے دکھائی دیئے۔

کسی نے حکومت کو نشانہ بنایا توکسی نے آپسی اختلافات کو رونا رویا، مگران سب کے باوجود آخرکارحکومت نے فنکاروں کے اتنے بڑے اجتماع کی اہمیت کوسمجھتے ہوئے جہاں ایک طرف پاکستانی فلم کو’صنعت ‘کا درجہ دیدیا، وہیں قیام پاکستان کے بعد پہلی مرتبہ ’کلچرل پالیسی‘ بنانے کا بھی اعلان کیاگیا۔

یہ تو بہت خوش آئند بات ہے کہ اتنے بڑے پلیٹ فارم پرفن وثقافت کی بحالی اورترقی کیلئے اقدامات کئے جانے کی بات ہوئی، لیکن اس وقت غور طلب بات تویہ ہے کہ کیا ان سب پرعملدرآمد ہوگا یا یہ سب بھی سیاستدانوں کا ایک سیاسی داؤ پیچ بن کررہ جائے گا ؟

کیونکہ پاکستان فلم انڈسٹری، ٹیلی ویژن، تھیٹر، فیشن، موسیقی، رقص، مصوری اور دیگر فنون سے جڑی شخصیات نے ہمیشہ کلچرل پالیسی کا رونا رویا۔ ہردوسرا فنکاریہی کہتا دکھائی دیتا تھا کہ ہمارے ملک میں بدقسمتی سے کوئی کلچر پالیسی نہیں بنائی گئی۔ موجودہ حکومت نے پاکستان میں بسنے والے ہزاروں فنکاروں کا دیرینہ مطالبہ پورا کرتے ہوئے آخرکارپاکستان کی ’’پہلی فلم وکلچرل پالیسی‘‘ کا اعلان کردیاگیا ہے۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس پالیسی سے پاکستان کا فنکار خوش حال ہوگا ؟ عوام کومعیاری فلمیں، ڈرامے، رقص اور تھیٹر دیکھنے کو ملیں گے ؟ ملک میں تخلیقی کاموں کی رفتار تیزہوگی ؟ 5 ہزار نئے سنیما گھرملک بھرمیں تعمیرہونگے ؟ نیشنل فلم اکیڈمی کا قیام عمل میں آئے گا ؟ فنکاروں کی ہیلتھ انشورنس کروائی جائے گی ؟ پاکستان کے بڑے شہروں میں فنکاروں کیلئے ہاسٹل بنائے جائیں گے ؟ فلم ڈائریکٹوریٹ اور پبلی کیشن کی بحالی ہوگی ؟ فلم بینی کے آلات کی درآمد ہوگی ؟

فلم سنسرفیس اور سیلز ٹیکس معاف کردیے جائیں گے ؟ پاکستانی سنیما گھروں میں مذہبی اورقومی تہواروں پرصرف پاکستانی فلموں کی نمائش کی اجازت ممکن ہوگی ؟ غیر ملکی فلم بنانے والوں کے لئے سفری الاؤنس اور کھانے کے آئٹم پر 70 فیصد ٹیکس کی رعایت ہوگی ؟ فلم کو انڈسٹری کا درجہ ملے گا ؟ فلم فنانس فنڈقائم ہوگا ؟ سرکاری سطح پر فلمسازوں کو معیاری اور اصلاحی فلموں کے لیے سرمایہ فراہم کیا جائے گا ؟ اس کے علاوہ بصری آرٹ، تھیٹر، موسیقی اور پرفارمنگ آرٹ کا فروغ اور روایتی ثقافت اور آثار قدیمہ کے مقامات کا فروغ، قیمتی ثقافت اور ورثہ کو محفوظ بنایا جائے گا ؟ ۔

یہ وہ اقدامات ہیں جوقیام پاکستان سے لے کر آج تک یعنی گزشتہ 70 برسوں سے اب تک عملدرآمد کے منتظرہیں لیکن ان سب سوالات کے جواب میں وزیرمملکت برائے اطلاعات ونشریات مریم اورنگزیب نے غیرمعمولی اعلانات ’ پی این سی اے ‘کے خوبصورت آڈیٹوریم میں سینکڑوں فنکاروں اور اعلیٰ سرکاری افسران کی موجودگی میں کئے۔

ان کا کہنا تھا کہ کلچرل پالیسی سابق وزیراعظم میاں محمد نوازشریف کے وژن کے تحت پرویز رشید، عطاء الحق قاسمی اورنیشنل کونسل آف آرٹس کے ڈائریکٹر جنرل جمال شاہ کی کاوشوں سے تیار کی گئی ہے۔ ثقافتی پالیسی کے بنیادی اصولوں کے مطابق کلچرل پالیسی وفاقی نوعیت اورجمہوری اصولوں پرمبنی ہوگی۔

جس سے امن کا تاثر ابھرتا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے تمام فنکاروں کو اکٹھا کرنے کی کوشش کی، جب میں وزیر بنی تو مجھے یہ نامکمل ٹاسک سونپا گیا، اس سلسلے میں فلمی صنعت سے منسلک شخصیات نے مجھے بہت عزت وا حترام دیا، جس سے میرا حوصلہ بڑھا اور میں نے کام مزید تیز کردیا۔ دوسری جانب فلم وکلچرل پالیسی کے اعلان کی وجہ سے شوبزنس انڈسٹری سے وابستہ تخلیق کاروں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے اوربظاہرتواکثریت خوش دکھائی دے رہی ہے۔

لیکن شوبزکے سنجیدہ حلقوں کا کہنا ہے کہ کاش یہ فیصلہ کئی برس پہلے ہوجاتا تو آج ہم فنون لطیفہ کے تمام شعبوں میں غیرمعمولی ترقی کرچکے ہوتے۔ مگر دیرآید درست آید۔ اسلام آباد میں ناقابل یقین پالیسی کا اعلان کیا گیا، اگر پاکستان میں ایسا ہوگیا اوراس پرسنجیدگی کے ساتھ عملدرآمد شروع ہوا تو ہم ناصرف بھارتی ڈراموں اور فلموں کا ڈٹ کر مقابلہ کرسکیں بلکہ ہالی وڈ کو بھی ٹف ٹائم دینگے۔ یہی وہ احترام اورچاہت ہے جوایک فنکارچاہتا ہے اوریہ سلسلہ پاکستان کے فنون لطیفہ کیلئے بہت فائدہ مندثابت ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔