شمالی کوریائی باشندے

م ۔ ع  منگل 9 اپريل 2013
ہالی وڈ کے نئے ولین۔  فوٹو : فائل

ہالی وڈ کے نئے ولین۔ فوٹو : فائل

 ہالی وڈ میں فلم سازی کا عمل، وقت کے ساتھ ساتھ مختلف تبدیلیوں سے گزرا ہے، مگر ولین کے انتخاب میں فلم سازوں کی پالیسی وہی رہی ہے۔

امریکی فلموں میں ولین کے کردار مختلف ممالک سے امریکا کے تعلقات پر انحصار کرتے ہیں۔ جو ممالک امریکا بہادر کے ناپسندیدہ ہوتے ہیں اور اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کی جرأت کرتے ہیں، ان کے باشندوں کو امریکی فلم ساز اپنے ہیروز کے انتقام کا نشانہ بنوانے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ جنگ عظیم دوم میں امریکی دشمن ہونے کی وجہ سے پچھلی صدی کے وسط میں جرمن، ہالی وڈ فلم اسٹوڈیوز کے پسندیدہ ولین ٹھہرے۔ پھر سرد جنگ کے زمانے میں روسی، امریکی فلموں میں ولین کے کردار نبھانے لگے۔

جارج واشنگٹن بُش کے عہد صدارت کے دوران فرانسیسیوں کو بھی ہالی وڈ کی فلموں میں امریکیوں کے دشمن کا کردار نبھانے کا موقع ملا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد جرمنوں کے ساتھ ساتھ جاپانیوں کو بھی ہالی وڈ کے فلم سازوں نے ولین کا ’ اعزاز‘ بخشا تھا ۔

پھر جب 1980ء اور 1990ء کی دہائی میں کاروں اور الیکٹرونکس مصنوعات کی مارکیٹ میں امریکا کو جاپان سے شکست ہونے لگی تو ہالی وڈ اسٹوڈیوز نے ایک بار پھر جاپانیوں کو برے کرداروں میں پیش کرنا شروع کردیا۔ اس معاملے میں امریکیوں نے، برطانوی باشندوں کو بھی نہیں بخشا حالاں کہ دونوں ممالک کے درمیان دیرینہ تعلقات چلے آرہے ہیں۔ وہ انھیں بھی منفی کرداروں میں دکھاتے رہے ہیں۔

امریکا کی چین سے مخاصمت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ مگر امریکا کئی برسوں سے چین کی تیزی سے وسیع ہوتی مارکیٹ میں قدم جمانے کی کوشش کررہا ہے، اس لیے ہالی وڈ کے اسٹوڈیوز کے لیے ممکن نہیں رہا کہ وہ اب’’ ریمبو‘‘ جیسے ہیروز کو سُرخ فوج کے سپاہیوں، افیم کے اسمگلروں اور سائبر ہیکرز کا مقابلہ کرتے ہوئے دکھائیں۔ دوسری جانب چین امریکی فلموں کی سب سے بڑی بین الاقوامی مارکیٹ بھی بن گیا ہے۔

اس لیے اب امریکی فلم ساز چینیوں کو مثبت کرداروں میں پیش کرکے ماضی کی ’ غلطیوں کا ازالہ‘ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ معاشی فوائد کے اسی کلیے کا اطلاق مشرق وسطی اور شمالی افریقا کی مارکیٹ پر بھی ہوتا ہے۔ انڈیا بھی امریکا کے لیے اہم معاشی منڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس لیے ان خطوں کے باسی بھی امریکی فلموں میں ولین کا ’ اعزاز ‘ کرنے سے محروم ہیں۔

اب ہالی وڈ فلم اسٹوڈیوز کی پوری توجہ شمالی کوریا پر مرکوز ہوچکی ہے۔ شمالی کوریا ایک عرصے سے امریکا بہادر کو للکار رہا ہے اور حالیہ دنوں میں دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں شدت آگئی ہے۔ تو یہ کیسا ممکن تھا کہ امریکی فلم ساز پیچھے رہتے۔ ہالی وڈ کی دو نئی ایکشن فلموں میں اس ملک کے باشندوں کو ولین کے طور پر دکھایا گیا ہے۔ ان میں سے ایک پیٹرک سوائز اور چارلی شین کی فلم Red Dawn ( 1984ء) کا ری میک ہے۔

یہ فلم گذشتہ نومبر میں ریلیز کی گئی تھی۔ اس فلم میں دکھایا گیا تھا ایک صبح ایک امریکی قصبے کے باسی بیدار ہوتے ہیں تو انھیں آسمان سے شمالی کوریائی پیراٹروپر اترتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ پھر کرس ہیمسورتھ اور اس کے ساتھی ان کا مقابلہ کرتے ہیں۔ قارئین! آپ کو شائد علم نہ ہو کہ کارل ایلسورتھ نے جب اس فلم کا اسکرپٹ تحریر کیا تھا تو اس میں حملہ آوروں کو چینی دکھایا گیا تھا۔

تاہم بعد ازاں امریکا اور ہالی وڈ کے لیے چین کی بڑھتی ہوئی اہمیت کے پیش نظر حملہ آوروں کو شمالی کوریائی باشندوں سے بدل دیا گیا۔ گذشتہ ماہ کے آخری ہفتے میں ریلیز کی گئی فلم Olympus Has Fallen میں بھی شمالی کوریائی باشندوں کو ولین کے روپ میں دکھایا گیا ہے جو وائٹ ہاؤس پر قبضہ کرلیتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔