نواز شریف کو باہر بھجوا دیا جائے گا؟

تنویر قیصر شاہد  جمعـء 30 مارچ 2018
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

سابق وزیر اعظم نواز شریف نے 28مارچ 2018ء کو ایک بار پھر کہا ہے:’’مَیں اہلیہ کی عیادت کے لیے باہر جانا چاہتا ہُوں لیکن مجھے اجازت نہیں دی جارہی۔‘‘انتخاب اور ووٹ کی طاقت سے پاکستان کے تین بار بننے والے وزیر اعظم اِس وقت اتنے مجبور ہیں کہ ملک سے باہر نہیں جا سکتے۔

کوئی عربی یا مغربی حکمران بھی بظاہر اُن کی مدد کو آگے بڑھتا دکھائی نہیں دے رہا۔ پیپلز پارٹی کے ممتاز قانون دان کا کہنا ہے کہ نواز شریف پر قانونی طور پر کوئی ایسی حکومتی پابندی نہیں ہے جس کی بنیاد پر وہ ملک سے باہر نہیں جا سکتے ’’لیکن وہ دانستہ باہر نہیں جارہے۔ وہ ’’نیب‘‘ عدالتوں میں اپنی بیٹی کے ساتھ باقاعدہ شریک ہو کر دراصل عدالتوں پر دباؤ ڈال رہے ہیں۔‘‘ یہ تبصرہ اپنے باطن میں خاصا سفاک کہا جا سکتا ہے۔

اگر نواز شریف کے باہر جانے پر کوئی پابندی نہیں ہے تو پچھلے دنوں نواز شریف کو عدالت کی خدمت میں یہ درخواست پیش کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی کہ اُنہیں اپنی اہلیہ کی عیادت کے لیے باہر جانے کی اجازت دی جائے؟یہ درخواست قبول نہیں ہو سکی تھی۔ میاں محمد نواز شریف کی اہلیہ محترمہ لندن میں زیر علاج ہیں۔ اُنہیں مبینہ طور پر سرطان کا مرض لاحق ہے۔ اُن کی جو تصویریں میڈیا میں وقتاً فوقتاً سامنے آئی ہیں، اُنہیں دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ محترمہ بیگم کلثوم نواز کی حالت خاصی خراب ہے۔

افسوسناک بات یہ بھی ہے کہ بیگم کلثوم بیمار ہیں اور ہمارے ہاں سنگدلی سے کہہ دیا جاتا ہے: ’’نواز شریف اور شہباز شریف مدتوں سے حکمران چلے آ رہے ہیں لیکن وہ ملک میں ایسا ایک بھی اسپتال نہیں بنا سکے ہیں جہاں وہ اپنا ہی علاج کروا سکیں۔‘‘اِس شکوے میں ذاتی رنجشوں کے ساتھ ایک جینوئن شکائیت تو یقینا ہے لیکن کیا یہ لازم ہے کہ جب بھی نواز شریف، شہباز شریف اور بیگم کلثوم کے علاج معالجے کا ذکر آئے، یہ شکوہ بھی ساتھ ہی دہرا دیا جائے کہ یہ حکمران خاندان ملک میں کوئی موثر شفاخانہ ابھی تک کیوں نہیں بنا سکا؟ اس شکوے کو دہرانے کا مطلب یہ ہے کہ نواز شریف کے ذہنی تناؤ کو ذہنی اذیت کی شکل دی جائے۔

وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات محترمہ مریم اورنگزیب نے بھی شکائیتاً کہا ہے کہ ’’نواز شریف اور اُن کی بیٹی (مریم نواز شریف) بیگم کلثوم نواز کی عیادت کرنے جانا چاہتے ہیں لیکن اُنہیں اجازت نہیں دی جارہی۔‘‘ واقعہ یہ ہے کہ صورتحال کو عجب انداز میں بگاڑ دیا گیا ہے۔ عیادت کو بھی نئے معنی پہنا دیے گئے ہیں۔ یہاں تک کہا جانے لگا ہے کہ نواز شریف اپنی اہلیہ کی عیادت کے لیے باہر جائیں گے تو یہ دراصل ’’این آر او‘‘ ہو گا۔ کپتان نے حسبِ عادت یوںترنت بیان دیا ہے:’’نواز شریف کو باہر بھجوانے کا کوئی این آر او قبول نہیں کریں گے۔‘‘ ارے بھائی، کیا لایعنی اور بچگانہ بات کررہے ہیں!! کہاں کا این آر او؟ اور این آر او کی درخواست کر بھی کون رہا ہے؟

فطرتاً نواز شریف اور مریم نواز چاہتے ہیں کہ وہ آزمائش کی اِن گھڑیوں میں صاحبِ فراش محترمہ کلثوم نواز کے پاس موجود ہوں۔ نواز شریف مگر یہ بھی چاہتے ہیں کہ اُنہیں شریفانہ انداز میں اپنی اہلیہ کے پاس جانے دیا جائے۔ اُن کی اِس جینوئن خواہش اور تمنا کا مذاق نہ اڑایا جائے۔ اور نہ ہی اُن کے لگائے گئے وزیر عظم کے چیف جسٹس صاحب سے دو گھنٹے کی ملاقات کا یہ ’’ترجمہ‘‘ کیا جائے کہ اِس ملاقات کا مقصد ہی بس یہ تھا کہ نواز شریف کو باہر بھیج دیا جائے۔یہ درست ہے کہ نواز شریف عدالتِ عظمیٰ کی طرف سے اپنے خلاف سنائے گئے فیصلوں کے باعث دکھی ہیں۔الجھاؤ اُن کے مزاج کا حصہ ہی نہیں ہے۔

جو لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ میاں صاحب تصادم کے عادی ہیں تو درحقیقت یہ دعویٰ درست نہیں ہے۔ وہ صلح کے حامی اور صلح جُو واقع ہُوئے ہیں۔ حالیہ دنوں میں اُن کا یہ کہنا کہ وہ آئین کی سربلندی کے لیے ہر شخص سے مکالمے کے لیے تیار ہیں، تو یہ الفاظ اُن کے فطری مزاج کے آئینہ دار ہیں۔ وہ پرانے نون لیگیوں کو دوبارہ اپنے فولڈ میں لے رہے ہیں تو یہ بھی اُن کے مزاج کے عین مطابق ہے۔

ہماری سیاست و صحافت کی دنیا میں مگر بعض ایسے عناصر بس رہے ہیں جو کسی کو سُکھ سے بسنے نہیں دینا چاہتے۔اِنہی عناصر کا کہنا ہے کہ نواز شریف اب ڈائیلاگ کی بات کرکے دراصل ’’ترلہ منت‘‘ پر اُتر آئے ہیں کہ’’اُن کی ساری یلغاریںناکام ہو گئی ہیں۔‘‘ یہ خلافِ حقیقت دعویٰ ہے۔ واقع یہ ہے کہ تمام فیصلوں اور اقدامات کے باوجود نواز شریف کی مقبولیت کو زَک پہنچائی جا سکی ہے نہ اُن کا ووٹ بینک کم کیا جا سکا ہے۔

بھٹو کو پھانسی دے دی گئی ،اُن کے دونوں بیٹے پُراسرار طور پر مارڈالے گئے اور پیپلز پارٹی کو تمام ممکنہ عذابوں میں بھی مبتلا کر دیا گیا لیکن ان سب ہتھکنڈوں کے باوجود پیپلز پارٹی تین بار اقتدار میں آنے میں کامیاب رہی۔ اِس پس منظر میں کوئی بھی نواز شریف اور اُن کی پارٹی کو سیاسی منظر سے غائب کرنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ اگر تو نواز شریف کی سیاسی ذات کو مائنس کرنے کا منصوبہ ہے تو اُنہیں باہر بھجوا کر بھی اُن کے فسوں اور جنوں سے نجات نہیں حاصل کی جا سکے گی۔ وہ باہر بیٹھ کر زیادہ طاقت سے زندگی کا ثبوت فراہم کرتے رہیں گے۔

ممکن ہے شکل کچھ مختلف ہو لیکن وہ مائنس نہیں ہو سکیں گے۔ وہ مریم نواز شریف کی صورت میں زیادہ توانائی کے ساتھ سیاست میں مراجعت کریں گے۔ نواز شریف نے میمو گیٹ کے حوالے سے اپنی تازہ غلطی کا اعتراف کر کے دراصل یہ بھی بتا دیا ہے کہ وہ اپنے ایک بڑے سیاسی حریف سے صلح کے آرزُومند ہیں۔ایسے نواز شریف کو دیوار سے نہیں لگایا جانا چاہیے!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔