اردو شاعری پر تحقیق اور دوسری کتابیں

نسیم انجم  اتوار 1 اپريل 2018
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

تحقیق و تنقید کے حوالے سے ڈاکٹر سکندر حیات میکن کا نام اور کام اہمیت اختیار کرچکا ہے۔ اس کی وجہ ان کی محنت، ادب سے محنت اور جستجوئے علم ہے، اسی نتیجے میں میری اپنی معلومات کے مطابق چھ کتابیں شایع ہوچکی ہیں۔ ’’اردو شاعری پر تحقیق‘‘ اور ’’افسانوی نثر پر تحقیق‘‘ کے عنوانات سے ان کی یہ کتابیں چند ماہ قبل ہی ناقدین اور ادب کے شائقین کے ہاتھوں میں پہنچی ہیں۔

ڈاکٹر سکندر حیات میکن نے تحقیق کا مشکل ترین شعبہ اپنایا ہے۔ بے شک تحقیق کو بے حد مشکلات سے گزرنا پڑتا ہے، بے شمار کتابوں کا مطالبہ اور کتب خانوں کی خاک چھاننے کے لیے مشکل گزار سفر اختیار کرنا شوق و جستجو کا حصہ بن جاتا ہے اور جب گوہر مراد ہاتھ آجاتا ہے تب کتابی شکل میں ڈھالنے کے لیے مشکل ترین مراحل سے گزارنا پڑتا ہے۔ سکندر حیات میکن نے ہر مشکل کام کر دکھایا ہے۔ زیر نظر کتاب ’’افسانوی نثر پر تحقیق‘‘ اردو داستان سے اردو ناول و افسانے اور فنِ ڈراما‘‘ کا احاطہ کرتی ہے۔ 303 صفحات پر نثر نگار نے نہایت عرق ریزی کے ساتھ نثر کی مختلف اصناف کا جائزہ لیا ہے جو پانچ ابواب پر مشتمل ہے۔

انھوں نے اپنے مضمون ’’عرض تحقیق‘‘ میں کچھ اس طرح لکھا ہے کہ دورانِ تحقیق یہ کوشش کی گئی ہے کہ ادبی تحقیق کی کاوشوں کو روایت کے تناظر میں مقدار اور معیار ہر دو حوالوں سے پرکھا جائے، ہر موضوع پر ہونے والی تحقیق کا جامع تعارف کروایاگیا ہے تاکہ اندازہ ہو کہ موضوع کے مطابق محقق نے کن حوالوں کو پیش نظر رکھا ہے، یہ دیکھا گیا ہے کہ تحقیق کے اصولوں کے مطابق اس کتاب کی حیثیت کیا ہے اور تحقیق کی روایت میں وہ کس مقام پر کھڑی ہے۔

اپنے پہلے مضمون ’’اردو داستان پر تحقیق کا جائزہ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’داستان گوکی کا فن انتہائی پرانا ہے جتنا خود انسان، کیونکہ انسان اپنی ذات میں ہمیشہ دلچسپی لیتا ہے، کہانی کہنا اور سننا انسان کا ایک فطری عمل ہے۔ تجزیہ نگار نے تعارف داستان کے حوالے سے انتظار حسین کی رائے کو شامل کیا ہے۔

’’ایک زمانہ تھا کہ راتیں بہت لمبی ہوتی تھیں اور بہت کالی اور جب سورج ڈوب جاتا تو لگتا دنیا کا آخیر ہوا اور جب نکلتا تو لگتا کہ صدیوں کے بعد زندگی نے پھر جنم لیا، ان کالی لمبی راتوں کے اندھیرے میں کسی نے اندھا دھند پتھر کو پتھر سے ٹکرایا اور اچانک چنگاری پیدا ہوئی، پتھر کی قید سے چنگاری کی رہائی رات کے اندھیرے کے خلاف پہلا معرکہ تھی‘‘۔

سید وقار عظیم اس ضمن میں لکھتے ہیں ’’داستان نہیں ہماری تہذیبی زندگی اور اس کے بے شمار گوشوں کی مصور اور ترجمان ہیں۔‘‘ اردو میں پہلی نثری داستان کے حوالے سے آرزو چوہدری نے ملا وجہی کی ’’سب رس‘‘ 1935 کو اردو کی پہلی نثری داستان بتایا ہے جب کہ سید وقار عظیم نے داستان کا باقاعدہ آغاز تحسین کی ’’نو طرز مرصع‘‘ کو قرار دیا ہے، اسی طرح ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے اردو کی پہلی منظوم داستان کے حوالے سے فخر الدین نظامی دکنی کی ’’کدم راؤ پدم راؤ‘‘ کو شمار کیا ہے۔

ڈاکٹر سکندر نے داستان پر تنصیف کردہ کتب کا جائزہ بھرپور طریقے سے لیا ہے۔ داستان نویسی پر یہ ایک مکمل اور وقیع مضمون ہے جسے ڈاکٹر سکندر نے بڑی کوشش اور مشقت کے بعد قلمبند کیا ہے۔ مطلوبہ موضوع کے حوالے سے مختلف قلم کاروں کی کتابوں کا حصول اور پھر ان کا مطالعہ آسان کام ہرگز نہیں تھا۔ دوسرا باب اردو ناول پر تحقیق کا جائزہ کے عنوان سے ہے۔

مصنف کی ناول نگاری اور اس کی تاریخ پر گہری نگاہ ہے، انھوں نے اردو ناول پر تحقیق کا جائزہ اردو ناول کی تنقیدی تاریخ ڈاکٹر احسن فاروقی، ناول نگاری ڈاکٹر سہیل بخاری، اردو ناول بیسویں صدی میں، پروفیسر عہد اسلام، اردو ناول میں طنز و مزاح، ڈاکٹر شمع افروز زیدی، اردو ناول آزادی کے بعد، اسی طرح کی بہت سی کتابیں اور ان کے مصنفین کے بارے میں وقیع معلومات فراہم کرتی ہیں۔

ڈاکٹر سکندر حیات میکن کے قلم کی یہ خوبی ہے کہ انھوں نے ان کتابوں کو پڑھا اور پھر اپنے تنقیدی آرا کو مضامین کی شکل عطا کی۔ اردو افسانہ اور اردو ڈراما کی ابتدا اور انتہا کے پہلوؤں سے مدللانہ انداز میں بحث کی ہے۔ ادبی تاریخ اور اس کے پس منظر و پیش منظر کو مدنظر رکھا گیا ہے۔

ڈاکٹر سکندر کی دوسری کتاب ’’اردو شاعری پر تحقیق (آزادی کے بعد) بھی ادب کے طالب علموں کے لیے استفادہ کا باعث ہے۔ ڈاکٹر رشید امجد کی رائے کے مطابق کہ اردو شاعری پر تحقیق میں انھوں نے شاعری کی مختلف اصناف پر کیے جانے والے تحقیقی کام کو اس طرح محنت اور لگن سے ایک ترتیب سے یکجا کیا ہے کہ پوری اردو شاعری پر ہونے والے تحقیقی کام کی ایک مکمل اور جامع تصویر سامنے آگئی ہے۔ کتب کی عدم دستیابی، لائبریریوں کی زبوں حالی اور سرحد پار کے ماخذات تک مشکل رسائی کے باوجود ڈاکٹر سکندر نے اتنا عمدہ اور معیاری کام کیا ہے کہ آنے والے محقق خصوصاً جامعاتی تحقیق کار اس سے ہمیشہ استفادہ کرتے رہیںگے۔

مذکورہ شاعری کی کتاب کے حصہ اول میں غزل، نظم، دوسرے میں دیگر اصناف شاعری میں قصیدہ نگاری، اردو رباعی کا فنی و تاریخی ارتقا مرثیہ، قطعہ، گیت مثنوی، دوہا نگاری اردو میں نعت گوئی، اردو ماہیا، تحقیق و تنقید (حیدر قریشی) غرض شاعری کی تمام اصناف پر بے حد خوبصورت انداز میں تاریخ بیان کی گئی ہے جوکہ قابل تحسین ہے۔ ڈاکٹر سکندر حیات میکن مبارکباد کے مستحق ہیں۔

مجیب عمر، کثیر النویس ادیب کے طور پر عملی و ادبی حلقوں میں پہچانے جاتے ہیں، ان کی کم و بیش 11 کتابیں اشاعتی مرحلے سے گزرچکی ہیں۔ حال میں آنے والی کتابیں میری میز پر رکھی ہیں۔ ’’وسعت بیاں‘‘ مضامین اور لطافت تحریر انشائیے، ’’عیار نظر‘‘ تبصرے اور جائزے کا احاطہ کرتی ہیں۔ نجیب عمر افسانے بھی لکھتے ہیں اور ترجمہ نگار بھی ہیں۔ گزشتہ برسوں میں ان کی ترجمے کی کتاب ’’عکس در عکس‘‘ کے نام سے شایع ہوئی تھی۔

مترجم نے غیر ملکی کہانیوں کا ترجمہ بہت دلکش انداز میں کیا تھا اور کہانیوں کے انتخاب میں بھی انفرادیت نمایاں تھی۔ زیر نظر کتاب عیار نظر میں 35 مضامین شامل ہیں۔ کتاب کے صفحات تقریباً 200 ہیں، قابل قدر ہستیوں پر تبصرے اور جائزے شامل ہیں۔ قابل اجمیری، جمیل الدین عالیؔ، انور احسن صدیقی، جہانِ حمد کا قرآن نمبر، مرتبہ طاہر سلطانی، فیض ایک عہد ساز شخصیت، شفیق احمد شفیق، قائداعظم کی سوانح بہ شکل مسدس، نفیس فریدی، مولانا حسرت موہانی کی مکتوب نگاری پر موثر انداز میں خامہ فرسائی کی گئی ہے، جو میں نے جائزے پڑھے ان میں تشنگی کا شائبہ تک نہیں ہوتا۔

قاری کے لیے بہت سی معلومات کے در وا ہیں۔ قابل اجمیری کا مضمون طویل ضرور ہے لیکن دلچسپی سے خالی نہیں، ان کی شاعری کے مداحوں کے لیے خوبصورت اشعار سے یہ تحریر مرصع ہے، اشعار کا انتخاب بھی بہت خوب ہے، قابل اجمیری کے کئی شعر ایسے ہیں جو زبان زد عام اور ان کی شناخت بن گئے ہیں، جیسے ’وقت کرتا ہے پرورش برسوں، حادثہ ایک دم نہیں ہوتا‘۔

لطافت تحریر، انشائیے کی کتاب ہے، مصنف نے اپنے مضمون ’’کچھ اپنی زبان میں‘‘ انشائیہ کے بارے میں لکھا ہے کہ انشائیہ صحیح معنوں میں مصنف کو وہ آزادی عطا کرتا ہے جو کہیں اور حاصل نہیں۔ انھوں نے مختلف موضوعات پر انشایئے تحریر کیے ہیں ان کے مضامین وسعت بیان کے عنوان سے کتابی شکل میں سامنے آئی ہے، جو پہلا مضمون ہمارے مطالعہ میں آیا وہ تھا ’’سید احمد حسین‘‘ مضمون بھی کیا یہ مصنف کے دس سالہ بڑے دوست کا خاکہ تھا جو انھوں نے بڑی ہی محبت سے لکھ کر یادوں کے دیے کو روشن کیا تھا۔ نجیب عمر کی لکھی ہوئی تحریریں قاری کو پڑھنے کی ہی طرف راغب نہیں کرتی ہیں بلکہ ماضی و حال اور تاریخ کے جھرونکوں کو روشن کرتی ہیں۔ ممتاز شاعر غالب عرفان کی کتاب کی تقریب رونمائی کا حال دلنشین انداز میں بیان کیا ہے۔ غالب عرفان کا ایک خوبصورت شعر جو معنی آفرینی سے پر اور ہجرت ذات کے نوحے میں ڈھل گیا ہے۔

طلسم ذات طرح دار چھوڑ آیا تھا

میں شہر خوف میں دستار چھوڑ آیا تھا

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔