کون سنے گا؟؟

شیریں حیدر  اتوار 1 اپريل 2018
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

میری ایک بہت پیاری قاریہ کی اگلے روز ای میل موصول ہوئی اور اس نے مجھ سے درخواست کی کہ میں اس کے بتائے ہوئے موضوع پر کالم لکھوں … کون سنے گا میری پیاری، مگر آپ کی فرمائش ہے تو بھینس کے آگے بین بھی بجا لیتے ہیں۔

ہماری سرپرستی پر بد قسمتی سے وہ لوگ مامور ہیں جن کے کانوں پر کسی کالم سے جوں تک نہیں رینگتی، وہ ایسی پتھروں کی دیواریں ہیں، جن سے ٹکرانے والے کا ہی سرپھوٹتا ہے۔ کالم تو ایک بہت ہی معمولی چیز ہے جو شاید عام اذہان پرکسی نہ کسی طرح اثر کردے مگران کے سامنے کوئی جل کر مر جائے، کوئی بلکتا اور گڑگڑاتا رہے تو بھی ان کو اثر نہیں ہوتا۔

آپ نے جرمنی کی مثال دیتے ہوئے بتایاہے کہ وہاں پر یونیورسٹی جانے والا ہر طالب علم گورنمنٹ کے ریکارڈ پر ہوتا ہے، تعلیم کے حصول کے تمام عرصے میں اس کی مانیٹرنگ کی جاتی ہے اور اس کے فارغ التحصیل ہونے سے قبل، اس کی اہلیت اور گریڈز کی مناسبت سے اسے جن جن کمپنیوں سے ملازمت کی پیش کش کی جاسکتی ہے، کر دی جاتی ہے۔ تعلیم ختم ہوتے ہی وہ ملازمت پر مامور ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد آپ نے لکھا کہ کیا ہمارے ہاں حکومت ایسا کوئی نظام رائج نہیں کر سکتی؟

ہمارے ہاں تعلیم مکمل کر کے نوجوان کئی کئی سال تک ملازمتوں کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہیں اور مجبور ہو کر یا تو جرائم کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں، ملک چھوڑ جاتے ہیںیا ملک میں ہی گھٹیا نوعیت کی ملازمتیں کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ کئی بار حالات اس نوعیت کے ہوتے ہیں کہ گھر کی جس غربت کو مٹانے کی خاطر وہ اپنے ماں باپ کے گھر تک گروی رکھ کر تعلیم حاصل کرتے ہیں، اس کا ثمر نہ ملنے پر وہ اپنے ماں باپ کی پریشانیوں کا اپنی دانست میں خاتمہ کرنے کے لیے، اپنی زندگیوں کا خاتمہ تک کر لیتے ہیں۔

تو بیٹا آپ کو سب سے پہلے یہ بتانا ضروری ہے کہ جرمنی دنیا کے ان بڑے اٹھارہ ملکوںمیں سے ایک ہے جو کہ فلاحی ریاستیں (Welfare States)  کہلاتی ہیں۔ ان ریاستوں میںبرطانیہ، ڈنمارک، فن لینڈ، ہالینڈ، ناروے، سویڈن، اٹلی، اسپین، آسٹریا، جرمنی، فرانس، بلجیم، آسٹریلیا، جاپان، کینیڈا، نیوزی لینڈ، امریکا اور سوئٹزر لینڈ شامل ہیں۔ یہ وہ ممالک ہیں جہاں عام آدمی کے حقوق ریاستی عہدے داروں سے بڑھ کر ہیں، جہاں کوئی بھی شخص کھڑا ہو کر ملک کے سربراہ کے خلاف بات کر سکتا ہے۔

جہاں تعلیم، علاج اور رہائش فراہم کرنا حکومت کا اولین فرض ہے اور کوئی حکومتی نمائندہ اپنے شعبے سے متعلقہ سہولت کی فراہمی میں ناکامی پر مستعفی ہوجاتا ہے۔ کسی ملک کا سربراہ خود پر کرپشن کا الزام لگنے پر سر اٹھا کر چل نہیں سکتا، جہاں کوئی عام شخص اپنی عزت اور جان کے تحفظ کے بارے میں متفکر نہیں ہوتا۔ ان ممالک میں عوام کا طرز زندگی کیا ہے، تعلیم کی شرح کیا ہے، علاج معالجے کی سہولیات کیسی ہیں، انھیں جاننے کے لیے آپ google کریں تو آپ کو لگے گا کہ ہم توشاید انسانوں کے درجے میں شمار ہی نہیں ہوتے۔

بہت سال پہلے، سوئے اتفاق سال سے کچھ زائد عرصہ جرمنی میں رہنے کا اتفاق ہوا ، پھر تین سال سے زائد عرصہ برطانیہ میں اور اسی قیام کے دوران یورپ کے کئی اور ممالک میں جانے کا اتفاق بھی ہوا اور ان کے نظام کو قریب سے دیکھنے اور جاننے کا موقع بھی ملا۔ فرانس میں ایک حادثے کا شکار ہونے کے باعث ان کے ایک اسپتال میں ایمرجنسی میں جانے کا اتفاق بھی ہوا، جہاں کسی نے ہماری شناخت جاننے کی کوشش کی نہ پوچھا کہ حادثہ کس تھانے کی حدود میں ہوا ہے، انسانی جان ان کی نظر میں اہم ہے خواہ وہ کسی بھی ملک کا باشندہ ہو… وہ تو اپنے جانوروں کو بھی تکلیف میں نہیں دیکھ سکتے۔

فلاحی ریاست کا تصور بنیادی طور پر اسلام سے ہی آیا ہے لیکن ہماری بد قسمتی کہ اس وقت میرے ناقص علم میں کوئی ایسی اسلامی ریاست نہیں ہے جسے فلاحی ریاست کہا جا سکتا ہو۔ کسی فلاحی ریاست میں بنیادی انسانی حقوق کو خاص اہمیت حاصل ہے، بنیادی حقوق میں سب سے اہم طبی سہولیات، خوراک، رہائش، تعلیم اور جان، مال اور عزت کا تحفظ ہیں ۔ یہ تمام بنیادی حقوق اپنے ملک کے باسیوں کو فراہم کرنا ایک ریاست کی سب سے پہلی ذمے داری ہوتی ہے۔

ہمارے ہاں توسال بھر پہلے تک ہم اپنی آبادی کو اٹھارہ کروڑ لکھتے رہے ہیں اور حالیہ مردم شماری سے علم ہوا کہ ہم چار کروڑ مزید بڑھ چکے ہیں۔ مگر اس سے کسی کو فرق کیا پڑتا ہے ، کون سا کسی نے عوام کی تعداد کے مطابق پالیسیاں بنانا ہیں؟ اگر کسی کو غرض ہو گی بھی تو ووٹوں کی تعداد کے لیے ہو گی، ا س میں بھی اتنے گھپلے ہیںکہ جہاں لاکھ افراد کے ووٹ رجسٹر ہوتے ہیں وہاں پانچ لاکھ ووٹ ڈال دیے جاتے ہیں۔ لاکھ کوشش کی جائے کہ نظام شفاف ہو جائے، مگر جس دن تک ہمارے دماغ شفاف نہیں ہوتے، کچھ درست ہونے والا نہیں ہے ۔

بیٹا، آپ نے کہا ہے کہ جرمنی میں یونیورسٹی میں جانے والا طالب علم حکومت کی نظروں میں ہوتا ہے۔ میں آپ کو بتاؤں کہ میں نے اپنی آنکھوں سے کیا دیکھ رکھا ہے ( حال میں وہاں کی پالیسیوں میںکیا تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں، ان کا علم نہیں) وہاں اسپتال میں پیدا ہونے والا ہر بچہ حکومت کی نظروں میں ہوتا ہے، اس کی پیدائش سے لے کر تا حیات اس کا علاج مفت ہوتا ہے۔ جس دن وہ اسپتال سے رخصت ہوتا ہے تواس کے ساتھ ڈائپر اور دودھ کا اسٹاک اس کے گھر جاتا ہے۔ جب وہ ختم ہو جاتا ہے تو مزید اسٹاک بھی اس وقت تک مفت ملتا ہے جب تک وہ بچہ ان چیزوں کا استعمال کرتا ہے۔ اگر اس کی ماں اس کی پیدائش سے پہلے کہیں ملازمت کر رہی تھی تو اسے میٹرنٹی لیو ملتی ہے جس کا عرصہ زیادہ سے زیادہ دوسال ہوتا ہے۔ جہاں وہ کام کرتی ہے وہ کمپنی اس کی اتنے عرصہ کی پوری تنخواہ اسے گھر بیٹھے دیتی ہے۔ اس دو سال کے عرصہ میں کمپنی اس کی جگہ کوئی اور ملازم نہیں رکھ سکتی۔

اگر دو سال کی چھٹی گزار کر وہ کسی وجہ سے ملازمت پر واپس نہ جائے تو کمپنی اس کا متبادل رکھ سکتی ہے۔ اس کے بعد وہ اور اس کا بچہ اس وقت تک حکومت کی ذمے داری ہیں جب تک انھیں اس کی ضرورت ہو۔ اگر کوئی بچہ کسی ذہنی یا جسمانی کجی کا شکار ہو تو وہ عمر بھر کے لیے حکومت کی ذمے داری ہوتا ہے… اس کا علاج معالجہ، گھر پر ڈاکٹر کے وزٹ کی سہولت اور ہر طرح کی سہولیات۔ اگر وہ اسپیشل اسکول میں جانے کے قابل ہو تو اس کے لیے تمام ذمے داری حکومت پر ہے کہ اسے کس اسکول میں اور کس طرح بھجوانا ہے، گھر پر فزیو تھراپی کی یا نرس کی مدد کی ضرورت ہے تو اس کا انتظام بھی ہو گا۔

نارمل بچوں کا بھی وقت پر اسکول جانا، ان کی رہائش کے علاقے میں ، قریب ترین اسکول میں ان کا داخلہ یقینی ہوتا ہے، آٹھویں جماعت کے بعد انھیں اپنا مستقبل چننے کے لیے مدد اور گائیڈ لائن ان کے رجحانات کو مد نظر رکھتے ہوئے کی جاتی ہے۔ اسکول کی تعلیم ختم کر کے دو سال کے لیے ہر نوجوان لازمی فوجی تربیت حاصل کرتا ہے۔ شادی شدہ جوڑوں کو مفت یا کم نرخوں پر گھر خریدنے کی سہولت دی جاتی ہے، بے آسرا بچوں اور بڑوں کے لیے بھی شیلٹر ہوم بنے ہوئے ہیں۔

صرف یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے بچے ہی ان کی نظر میں نہیں ہوتے… ان کی نظر میں وہ بچے بھی ہوتے ہیں جو اسکول جانے کی عمر میں ہیں مگر ان کے والدین انھیں اسکول نہیں بھیجتے، انھیں سختی سے اسکول بھیجا جاتا ہے۔ اس میں اس بات کی لازمی شرط نہیں ہے کہ ان کے والدین وہاں پر قانونی طور پر رہ رہے ہیں یا غیر قانونی طور پر، وہ ایک علیحدہ مسئلہ ہے جسے بچوں کے تعلیم حاصل کرنے کے بنیادی حق کے ساتھ منسلک نہیں کیا جاتا۔ کس بچے کا کس عمرکا انجکشن لگنے کا وقت آ گیا ہے، کس کے دانتوں کا تین ماہ کے بعد کا معائنہ ہونا ہے، یہ سب کچھ ان کے ریکارڈ پر ہے اور والدین کو یا بچوں کو یاد ہو یا نہ ہو، ان کے ڈاکٹر یا لوکل ہیلتھ یونٹ کی طرف سے ان کو نوٹس آ جاتا ہے اور قریب ترین ڈاکٹر کے ساتھ ان کی اپائنٹمنٹ بنا کر انھیں مطلع کر دیا جاتا ہے۔

یہ تو چند ایک نکات ہیں جو میں نے اس مختصر کالم میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے، اس پر تو تفصیل سے کئی کالم لکھے جا سکتے ہیں مگر مقصد صرف یہ بتانا ہے کہ ہم ترقی کی راہ میں ، اخلاقی طور پر ابھی بہت پیچھے ہیں اور دوسری جنگ عظیم کے بعد کھنڈر بن جانے والے ملک، جرمنی سے… ہمارا لگ بھگ اسی دورانئے میں جنم لینے والا ملک، آج مقابلے کی دوڑ میں کہیں ایک دوسرے کے پاسنگ بھی نہیں ہیں۔

اس کی اہم وجہ ہمارے ہاں تعلیم اور شعور کا فقدان ہے جس کے باعث ہم بار بار لالچ میں لتھڑے ہوئے لوگوں کو اپنے سربراہ بنا کر اپنے ووٹ کی طاقت کا غلط استعمال کرنے کا ثبوت دیتے اور ان ہی گھاکوں کے ہاتھوں ستر سال سے بے وقوف بن رہے ہیں، بنتے رہیں گے۔ بہتر ہے کہ ہم ایسے ملکوں کے ساتھ اپنا موازنہ کرنے کی بجائے اپنے ووٹ کی اس چھوٹی سی پرچی کا درست استعمال سیکھ لیں اور ان سیاست دانوں سے چھٹکارا حاصل کریں جو ہمارے ساتھ تو کیا، اپنے ساتھ بھی مخلص نہیں ہیں۔ اس ملک کو اسلامی فلاحی ریاست بنانا اور ترقی کی راہ پر گامزن کرنا تودور کی بات ہے، اسے مزید بدنام بھی نہ کریں تو ان کا بھلا ہو!!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔