کبھی کے دن بڑے…؟

رئیس فاطمہ  اتوار 1 اپريل 2018
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

میری طرح بے شمار آنکھیں مختلف ٹیلی ویژن پہ وہ مناظر بڑی حیرت اور استعجاب سے دیکھ رہی تھیں جن میں سابق وزیراعظم لوگوں میں گھل مل گئے تھے نہ کوئی پروٹوکول نہ کوئی گارڈ نہ ہارن اور سائرن بجاتی گاڑیاں جو اپنی آواز سے میلوں دور کھڑے لوگوں کو خبردار کردیتی ہیں کہ ’’ہٹو بچو شہنشاہ معظم کی سواری آرہی ہے‘‘ لیکن یہاں تو معاملہ ہی برعکس تھا، میاں صاحب نے بیکری سے خریداری کی، بچوں سے باتیں کیں! اپنا آپ منوانے کے لیے انھیں مخملی مسند سے نیچے اترنا پڑا۔

بہت خوب! سوال یہ ہے کہ وزارت عظمیٰ سے سبکدوش ہوتے ہی انھیں نہ پروٹوکول کی فکر رہی نہ اپنی سیکیورٹی کی۔ لیکن وزارت کا حلف اٹھاتے ہی اچانک یہی عوام اتنے خوفناک کیوں لگنے لگتے ہیں کہ زناٹے بھرتی گاڑیوں کا ریلہ کسی انسان کی شکل کو سڑک پر دیکھنا گوارا نہیں کرتا۔ کیونکہ گن مینوں اور سیکیورٹی اہلکاروں کو بھی اپنی کارکردگی دکھانی ہوتی ہے تاکہ آئندہ ترقی کے اور سفارش کے راستے کھلے رہیں۔

پاکستان در حقیقت احمقوں کی جنت ہے، اسے مزید دیوانہ بنا دیا ہے، سوشل میڈیا اور ٹیلی ویژن کے پلے پلائے دانشوروں اور ’’افلاطون کے استاد اینکر پرسنز نے جو اپنے آگے کسی کو بولنے نہیں دیتے جھوٹ، مکر و فریب خوشامد، الزامات حکومت کو بہت سوٹ کرتے ہیں۔ وزرا کے گھر سے ہیروئن بنانے کا مواد سے لے کر ڈالر، دینار اور ریال تک بوریوں میں بند مل رہے ہیں۔ میڈیا کھلے عام دکھا بھی رہا ہے لیکن مجرموں پرکوئی اثر نہیں۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں سیاست کی گندی گلی سے پاکستانی سیاست میں داخلہ بہت آسان ہے۔

ماسٹرز ڈگری ہولڈر ڈگریاں لیے جوتیاں چٹخاتے پھر رہے ہیں اور انگوٹھا چھاپ جاگیردار وڈیرے اور سردار اقتدار کی کلف لگی پگڑیاں سر پر سجائے ایوان میں داخل ہو رہے ہیں۔ حالیہ سینیٹ کے الیکشن میں جس طرح غلاموں کی خرید و فروخت ہوئی وہ ہمیں دنیا بھر میں ذلیل کرنے کو کافی ہے۔ اقتدا ر کا سرچشمہ دولت ہے کسی بھی پارٹی کا ٹکٹ لینے کے لیے جو کثیر رقم دی جاتی ہے وہ اب لاکھوں اور کروڑوں سے بڑھ کر اربوں میں پہنچ چکی ہے۔

تقاریر میں وہ جوش و خروش اور گالم گلوچ کہ اﷲ دے اور بندہ لے۔ کسی دانا کا قول ہے کہ ’’انسان اپنی زبان میں چھپا ہے‘‘ اور یہ سو فی صد درست ہے انسان کی زبان اس کی سات پشتوں کی آئینہ دار ہوتی ہے۔ انسان کتنا ہی خود پر خول چڑھا لے، مہذب بننے کی کوشش کر لے آپ جناب کر لے لیکن اصل نسب زبان سے پتہ چل جاتا ہے۔ افسوس اس بات کا کہ آج اسمبلی کے فلور پر بد زبانی اور گالم گلوچ کا ماحول عروج پر ہے۔

لوگوں کی خوش فہمی پر رونا آتا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ایک چیف جسٹس سب کچھ ٹھیک کر دیںگے۔ یہ وہ ملک ہی نہیں جو ٹھیک ہو سکے، جہاں چور خزانوں کے پہرے دار بنے ہوں وہاں عوام کے لیے کون کام کرے گا۔ ایک عجیب ہولناک معاشرہ سامنے آرہا ہے۔ ایک طرف وہ طبقہ ہے جو ہزاروں رو پوں کے برگر اور پیزا، کولڈ ڈرنک آرڈر کرتا ہے۔ آدھا کھاتا ہے، آدھا ضایع کرتا ہے۔

دوسری طرف وہ بد نصیب جو ریستوران کے باہر اس امید میں بیٹھے ہوتے ہیں کہ بچا کچھا شاید انھیں مل جائے۔ کہنے کو مہنگائی اپنی آخری حدوں کو چھو رہی ہے، متوسط طبقے کا جینا محال ہے۔ ریستوران بھرے نظر آتے ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے نت نئے کھلنے والے سپر مارکیٹوں اور شاپنگ مال کی بہتات گھومنے والے زیادہ خریدارکم۔ اور جو خریدار ہیں وہ کئی کئی ٹرالیاں مختلف اشیا کی بھر کر لے جارہے ہیں۔ ساتھ ساتھ شو کیس میں لگی غیر ملکی ٹافیاں اور چاکلیٹ اٹھا کرکھاتے جا رہے ہیں،کوئی ڈرکوئی خوف نہیں حالانکہ یہ بد تہذیبی ہے کیمرے کی آنکھ تو ان حرکتوں کو دیکھتی ہی ہے۔ آس پاس کے لوگ بھی ناپسندیدہ نظریں ڈالتے ہیں۔

ادھر شادیوں کا حال دیکھیے نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کے رشتے اسی لیے نہیں ہو رہے ہیں کہ کھانے کے اور شادی ہال کے کرائے ان کی استطاعت سے باہر ہیں۔ پہلے لوگ گھروں کے آگے یا کسی میدان میں شامیانہ لگاکر تقریب کر لیتے تھے۔ اب دکھاوے اور رسم و رواج نے کمر توڑ دی ہے۔ بیٹیاں اور بیٹے شادیوں کی عمر کو پہنچ گئے ہیں لیکن دکھاوے اور نمائش کی وجہ سے لڑکیوں کی مانگ میں چاندی کے تار جھلملانے لگے اور لڑکوں کی کنپٹیاں سفید بالوں سے بھرگئیں۔

امیر طبقے نے مڈل کلاس کا جینا دو بھرکر رکھا ہے۔ لوگوں میں نمائش کا جذبہ بہت ابھر کر سامنے آ رہا ہے۔ ایک طرف رشتوں کے حصول کا مسئلہ، دوسری طرف لڑکی والوں کی ڈیمانڈ، رشتے ہوں توکیونکر ہوں، لڑکا اعلیٰ تعلیم یافتہ ہو، ملازمت اچھی ہو، گھر اپنا ہو، خاندان مختصر ہو، تنخواہ پرکشش ہو، بھاری بھرکم ہو، ادھر جہیز کی فکر میں ماں باپ پریشان، اچھے اور خاندانی لوگ کبھی جہیز کی ڈیمانڈ نہیں کرتے۔ ایسا وہ لوگ کرتے ہیں جو اچانک کہیں سے دولت آجانے پر اپنی سماجی حیثیت ایک دم بدل لیتے ہیں۔

پہلے محلہ بدلتے ہیں پھر رشتے تلاش کرتے ہیں لیکن خاندانی لوگ خود چاہتے ہیں کہ بیٹی کو خالی ہاتھ رخصت نہ کیا جائے۔ اب اس خالی ہاتھ کی تفصیل بھی سن لیجیے۔ بیڈ روم سیٹ، صوفہ سیٹ، وارڈ روپ، کم از کم پچیس جوڑے دلہن کے ضروری ہیں، دوسرا سامان ڈنر سیٹ وغیرہ علیحدہ۔ دوسری طرف بری کا اہتمام، زیور، کپڑے ہی میں بہت کچھ آجاتا ہے۔ حالانکہ لوگ اگر نقل کے بجائے عقل و شعور سے کام لیں تو یہ کام نہایت سادگی اور آسانی سے ہو سکتا ہے۔

دلہا اور دلہن والے اگر جہیز اور بری کے چکر سے نکل آئیں تو کسی قدر آسانی ہوسکتی ہے۔ کپڑوں، زیور کے لیے ایک عمر پڑی ہوتی ہے، میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ لڑکیوں کی بہ نسبت لڑکوں کی شادی زیادہ مشکل سے ہوتی ہے۔ سب سے پہلے اگر لڑکا کرائے کے گھر میں رہتا ہے تو صاف انکار ہو جائے گا۔ پھر تنخواہ دیکھی جائے گی اور بہنوں کی تعداد زیادہ ہوئی تو فوراً لڑکے کو ’’چیونٹیوں بھرا کباب‘‘ کہہ کر بات ختم کردی جائے گی۔

حکومت سے کوئی امید رکھنا فضول ہے کہ انھیں اپنے خزانے بھرنے ہیں، البتہ علمائے کرام چاہیں تو یہ مہم چلا سکتے ہیں کہ شادی بیاہ میں سادگی اختیار کرو، لوگوں کو خود بھی ہمت کرنی پڑے گی۔ ساتھ ہی لڑکی والوں کو اپنے رویے میں تبدیلی لانی پڑے گی۔ اسکول ٹیچر، کلرک اور پرائیویٹ اداروں میں چھوٹی موٹی نوکریاں کرنے والے بھی انسان ہوتے ہیں، اگر دونوں مل کر زندگی کی گاڑی چلائیں تو آسانیاں پیدا ہو سکتی ہے اور وقت پر شادیاں بھی ہوسکتی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔