وزیر اعظم صاحب! تمہی کہو یہ اندازِ گفتگو کیا ہے؟

رحمت علی رازی  اتوار 1 اپريل 2018
rehmatraazi@hotmail.com

[email protected]

ہم تو وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کو ایک سنجیدہ اور شائستہ سیاستدان سمجھتے تھے۔ اُنکے والد ایک غیر جمہوری حکمران کے ساتھی رہے، اسلیے ہمیں اُن سے کبھی یہ توقعات نہیں رہی تھیں کہ وہ کبھی جمہوریت اور جمہوری روایات کی محبت میں، عوام کے حق کی بات کرینگے۔

وہ فورسز کے سابق عہدیدار رہے تھے لیکن ہمیں اُن سے کوئی بڑی توقع کبھی نہیں رہی تھی۔البتہ اُن کے انجینئر اور سیاستدان بیٹے کہ شاہد خاقان عباسی ہے، سے یہ امیدیں وابستہ کیے رکھیں کہ وہ وزیر اعظم بن کر ملکی یکجہتی اور ملکی اتحاد کے لیے عملی اور فکری کوششیں کرینگے۔ ٹوٹے دلوں کو جوڑنے کی سعی کرینگے۔ مرکزِ مائل قوتوں کے پیغام رساں بنیں گے۔

ایل این جی اور کئی دیگر مشکوک معاملات کے حوالے سے اگرچہ وہ بھی تہمتوں اور الزامات کی زَد میں ہیں، اِس کے باوجود قومی یکجہتی کے حوالے سے اُن سے وابستہ ہماری امیدیں ٹوٹی نہیں تھیں۔ وہ پچھلے سات آٹھ ماہ سے حکومت پر براجمان ہیں اور پچھلے سات آٹھ ماہ ہی سے پٹرول کی مسلسل قیمتیں بڑھا کر اُنہوں نے عوام کی زندگیاں مزید جہنم بنا دی ہیں۔

گھر گھر لڑائیاں ڈال دی ہیں۔ اُنکے وزیر اعظم بننے کے متذکرہ دَور میں اسلام آباد کا دارالحکومتی شہر جرائم کی آماجگاہ بن چکا ہے لیکن مجرموں پر کوئی ہاتھ نہیں ڈال رہا ہے اور اسلام آباد کی پولیس شتر بے مہار کی طرح دندنا رہی ہے۔ وفاقی شہر میں رشوت کے ریٹ آسمان سے باتیں کررہے ہیں لیکن وزیر اعظم ان سب سے دیدہ دانستہ بے خبر اپنے نااہل کیے گئے قائد صاحب کی خدمت میں جُٹے ہیں۔

یہ بھی قابلِ برداشت تھا لیکن شاہد خاقان عباسی نے جس دل آزار اور دلشکن لہجے میں تازہ تازہ منتخب ہونیوالے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف بیان کا گولہ داغا ہے، اس عمل نے اُنہیں عوام کی نظروں میں سرخرو نہیں کیا ۔اخلاقیات اور والدین کی دی گئی تعلیم و تربیت ہمارے قلم کے آڑے آ رہی ہے، اسلیے ہم کوئی غیر پارلیمانی اور غیر اخلاقی لفظ اپنی زبان اور اپنے قلم سے نہیں نکالنا چاہتے، حالانکہ اُنہوں نے چیئرمین سینیٹ کے خلاف غیر پارلیمانی بیان دیکر ہمارا دل کباب کر دیا ہے۔

اِس وقت جب سارے ملک کے بائیس کروڑ عوام دل کی گہرائیوں سے یہ چاہتے ہیں کہ سُلگتا بلوچستان امن اور سکون کا گہوارہ بن جائے۔ ناراض بلوچ اپنی ناراضیاں تج کر پاکستان کی یکجہتی میں اکٹھے ہو جائیں۔ رواں لمحوں میں جب کہ وطنِ عزیز کی سیکیورٹی فورسز اپنی جانوں کا نذرانہ دیکر بلوچستان میں بھارت کی لگائی آگ سرد کرنے کی کوششیں کر رہی ہے۔ عین اِسی لمحے وزیر اعظم نے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سینیٹ کے چیئرمین کے خلاف بیان دیکر نہائیت ہی غیر حکیمانہ اقدام کیا ہے۔

اگر یہ کہا جائے کہ اُنہوں نے چیئرمین سینیٹ کے خلاف بیان د یکر دراصل بلوچستان کے حق میں کی گئی سیکیورٹی فورسز کی ساری تگ ودَو کو اکارت کر دیا ہے، ساری کوششوں پر پانی پھیر دیا ہے تو یہ کہنا بالکل مبالغہ نہیں ہو گا۔ نجانے شاہد خاقان عباسی اُس وقت کس ترنگ میں تھے، کس لہر میں تھے جب اُنہوں نے یہ ’’ارشاد‘‘ فرمایا: ’’چیئرمین سینیٹ ووٹوں سے نہیں، نوٹوں سے آیا ہے۔ ہم سنجرانی کی جگہ متفقہ چیئرمین لائیں گے۔‘‘

اِسی پر بس نہیں کی۔ وزیر اعظم شاہد خاقان نے مزید گُل فشانی یوں کی: ’’صادق سنجرانی فروخت کیے گئے ووٹوں سے چیئرمین بنے۔ اس سے دنیا میں پاکستان کی کیا عزت ہو سکتی ہے؟ یہ بے عزتی کا مقام ہے۔موجودہ چیئرمین سینیٹ کی عوام میں کوئی عزت نہیں ہے۔‘‘ ذرا وزیر اعظم کے ان الفاظ کی نشست و برخاست کا جائزہ لیا جائے۔ ذرا یہ آہنگ تو ملاحظہ کیا جائے۔ ذرا یہ لہجہ اخلاقیات کی میزان میں تولا جائے، تو صاف عیاں ہو جاتا ہے کہ وزر اعظم شاہد خاقان عباسی نے صاف طور پر پاکستان کے وفاق کی علامت (سینیٹ) کے منتخب سربراہ کی توہین کی ہے۔ اُنہیں بے توقیر کیا گیا ہے۔

وزیر اعظم نے ایوانِ بالا کے سربراہ کی بے حرمتی کی ہے۔ یہ محض ایک منتخب شخص کی بے حرمتی نہیں ہے بلکہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے رقبے کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کی بھی توہین اور بے عزتی کی ہے۔ اُنہوں نے یہ دل آزار اور بے زار گفتگو کرکے دراصل بلوچستان کی مرکزِ مائل قوتوں کو بیگانہ کرنے کی دانستہ سعی کی ہے۔ کیا وہ یہ چاہتے ہیں کہ یہ قوتیں خاکم بدہن مرکزِ گریز شکل اختیار کر لیں؟ وزیر اعظم سے کم از کم ہمیں یہ توقع نہیں تھی کہ وہ ایسی بے لگام اور بے ہنگام گفتگو بھی کر سکتے ہیں۔

یہ کلام کر کے کیا اُنہوں نے اپنے’’نااہل‘‘ قائد کی خوشنودی حاصل کرنیکی ایک بے سواد کوشش کی ہے؟ اُنکے قائد میاں محمد نواز شریف اگرچہ مصدقہ اور مستند غدارِ پاکستان شیخ مجیب الرحمن کو خراجِ تحسین پیش کر چکے ہیں۔ شاہد خاقان عباسی کے یہ قائد اگرچہ بلوچستان کی اُن شخصیات کو دل کے قریب رکھنے کا عملی مظاہرہ کرتے آ رہے ہیں جن کی زبانوں پر پاکستان کی کم اور بھارت و افغانستان کی محبتوں کے ترانے زیادہ جاری رہتے ہیں۔ تو کیا شاہد خاقان عباسی بلوچستان کے اس نجیب خاندان کے فرزند صادق سنجرانی کے خلاف یہ ناقابلِ تحسین زبان بروئے کار لا کر کہیں اپنے قائد سے بھی دو ہاتھ آگے نکلنے کی سعی تو نہیں کر رہے؟ کیا یہ اُنکی تازہ تازہ امریکا یاترا کا اثر ہے؟

کیا بلوچستان کے ایک معزز سیاستدان (جو وفاق کی علامت پاکستان کے سب سے بڑے سیاسی ادارے کے امام بھی ہیں) کے بارے میں یہ اسلوب اختیار کرنے کی اشیرواد کسی امریکی ہدایت کار کی ہدایت کا شاخسانہ ہے؟ ارے ہاں، شاہد خاقان عباسی کی امریکا یاترا سے خوب یاد آیا!! سوشل میڈیا پر ایک کلپ وائرل ہو چکا ہے جس میں شاہد خاقان عباسی سے منسوب ایک منظر دکھایا گیا ہے۔ مبینہ طور پر وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی حالیہ امریکی دورے میں ایک امریکی ائر پورٹ پر ’’مکمل تلاشی‘‘ لی گئی۔

اللہ جانے یہ ویڈیو کلپ درست ہے یا نہیں لیکن اس نے پاکستان اور پاکستان کے وزیر اعظم کے عہدے کی زبردست توہین کر دی ہے۔ غضب خدا کا، نہ تو اِس حوالے سے خود وزیر اعظم لب کشا ہُوئے ہیں اور نہ ہی وزیر اعظم ہاؤس اور نہ ہی پاکستان کی وزارتِ داخلہ اور نہ ہی ہماری وزارتِ داخلہ کے ترجمان نے صدائے احتجاج بلند کی ہے۔ سب اس بے عزتی پر خاموشی کی چادر اوڑھ کر بیٹھے رہے۔ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی سے امریکی ائر پورٹ پر روا رکھے گئے سلوک پر ہمارا دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔

ایسے میں ہم اُن سے ایک دو معصومانہ سوالات پوچھنے کی جسارت کرتے ہیں: آپ نے چیئرمین سینیٹ کے بارے میں ’’فرمایا‘‘ ہے کہ ’’موجودہ چیئرمین سینیٹ کی عوام میں کوئی عزت نہیں ہے۔‘‘ تو کیا امریکی ائر پورٹ پر امریکی امیگریشن عملے نے جناب کی جو تواضع کی ہے، اس سے آپ کی عزت افزائی ہُوئی ہے؟

حقیقت یہ ہے کہ اگر یہ ویڈیو کلپ درست ہے تو آپ کو امریکی سرزمین پر قدم نہیں رکھنے چاہئیں تھے۔ اُسی وقت واپسی کا سفر اختیار کرنا چاہیے تھا تاکہ آپ کے احتجاج کی گونج اور باز گشت ساری دنیا میں نہیں تو کم از کم سارے عالمِ اسلام میں سنائی دیتی۔ لوگوں کو پتہ چلتا کہ ایٹمی پاکستان کے وزیر اعظم نے بطورِ احتجاج امریکا میں داخل ہونے سے انکار کر دیا لیکن افسوس آپ ایسا نہ کر سکے اور یوں تاریخ نے آپ کو جو سنہری موقع فراہم کیا تھا، وہ آپ نے اپنی فطری بزدلی کے ہاتھوں ارزاں طور پر ضائع کر دیا۔ دراصل آپ کے پیکرِ خاکی میں جان ہی نہیں تھی۔ آپ جرأت سے خالی ثابت ہوئے ہیں۔

سرمایہ دار حکمران شائد ایسے ہی ہُوا کرتے ہیں۔ لیکن عباسی صاحب سے ہمارے سوال جاری رہیں گے جب تک وہ چیئرمین سینیٹ کے خلاف دئیے گئے بیان پر معافی نہیں مانگ لیتے۔ حقیقت یہ ہے کہ اُنہوںنے سنجرانی صاحب کے خلاف دل آزار بیان دیکر ساری قوم کا دل دکھایا ہے۔ ایسے میں سابق وزیر اطلاعات اور معروف سیاستدان محمد علی درانی نے بجا طور پر یوں آواز بلند کی ہے: بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سینیٹ کے منتخب چیئرمین کو ’’بِکاو‘‘ اور ’’بے عزت‘‘ قرار دیکر وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے پاکستان کی سالمیت کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا ہے۔ مودی بلوچستان میں دہشتگردی کر رہا ہے اور نون لیگ کی قیادت منتخب بلوچ قیادت کی تذلیل کر کے چھوٹے صوبے کے عوام کے دلوں میں نفرت کے بیج بونے کی کوشش کر رہی ہے۔

نومنتخب چیئرمین سینیٹ کے خلاف عباسی کا بیان دراصل جاتی عمرہ کے ’’خدمت گزار‘‘ کا بیان ہے۔ شاہد خاقان عباسی اگر معذرت نہیں کرینگے تو تادیر بلوچوں کے زخم ہرے رہینگے اور اس کا سارا جرم نون لیگیوں کے کھاتے میں ڈالا جائیگا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ درانی صاحب کا یہ کہنا بجا ہے کہ چھوٹے صوبے کی منتخب قیادت کے خلاف پنجابی وزیر اعظم کا توہین آمیز رویہ پاکستان کی سلامتی اور سالمیت کے خلاف سازش ہے۔ شاہد خاقان نے اپنے قائد کے نقشِ قدم پر چلتے ہُوئے جو تازہ واردات ڈالی ہے،اِس نے بلا مبالغہ پاکستانیت اور پاکستان کی یکجہتی کی چُولیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ عوام کی اکثریت نے وزیر اعظم کے الفاظ کے خلاف سخت ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔ لوگ بجا طور پر مشتعل ہیں۔ سینیٹ میں قائد ِ حزبِ اختلاف شیری رحمن نے بھی غصے کا اظہار کرتے ہُوئے کہا ہے، حادثاتی وزیر اعظم کو متفقہ چیئرمین سینیٹ لانے کی بات زیب نہیں دیتی۔ حقیقت یہ ہے کہ پورے ملک میں شاہد خاقان عباسی کے خلاف ایک شورِ محشر برپا ہے۔ بلوچستان کے صوبائی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے بھی بین السطور سخت ردِ عمل کا مظاہرہ کیا ہے۔

ہم یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتے کہ شاہد خاقان عباسی کے اس ’’بے حکمت‘‘ بیان نے درحقیقت امریکا، بھارت اور افغانستان میں بیٹھی اُن قوتوں کو تقویت دی ہے جو ہر لمحہ بلوچستان کا بہانہ کر کے پاکستان کی سلامتی کے درپے ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ چیئرمین سینیٹ جناب صادق سنجرانی نے پلٹ کر وزیر اعظم کو اُنہی کے لہجے میں ابھی تک کوئی جواب نہیں دیا۔ یہ اُن کا صبر ہے اور اللہ تعالیٰ اُنہیں صبر کا ثمر بھی دیگا لیکن بلوچستان ناراض ہے اور بجا طور پر ناراض ہے۔ اس بات کے بھی قوی امکانات ہیں کہ اگلا وزیر اعظم بلوچستان سے آجائے ۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ شاہد خاقان عباسی قبیل کے لوگ اُس کے خلاف بھی یہی تماشہ لگانا شروع کردینگے جو چیئرمین سینیٹ کے خلاف لگایا گیا ہے؟

کیا پھر اُس کے خلاف بھی ویسی ہی زبان استعمال کی جانے لگے گی جو زبان وزیر اعظم نے(بدقسمتی سے) صادق سنجرانی کے خلاف استعمال کی ہے اور ساری نون لیگ نے منہ میں گھنگنیاں ڈالے رکھیں۔ کیا یہ ہے نون لیگی قیادت کا تصورِ یکجہتی پاکستان؟ شاہد خاقان عباسی کے بیان پر تو بھارت نے بھی بغلیں بجائی ہونگی۔ عباسی ایسے دوستوں کی موجودگی میں بھارت ایسے دشمنوں کی ضرورت کیا رہ جاتی ہے؟ ویسے جناب شاہد خاقان عباسی نے پاکستان سے ’’دوستی‘‘ کا ایک اور ثبوت یوں بھی دیا ہے کہ اپنے ایک بزنس پارٹنر کے صاحبزادے کو امریکا کے لیے سفیر نامزد کر دیا ہے۔

’’نیب‘‘ مضبوط بنیادوں پر اس ’’صاحبزادے‘‘ کا پیچھا کررہا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اُسے ای سی ایل میں ڈال دیا جائے۔ اگر ایسا ہو گیا تو وزیر اعظم کے فیصلے کی خوب شوبھا ہو گی۔ اِسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ’’ہمارے‘‘ وزیر اعظم کے نزدیک عزت کا پیمانہ کیا رہ گیا ہے۔ شائد اِسی لیے اُنہوں نے چیئرمین سینیٹ کے خلاف دل آزار بیان دیتے ہُوئے بار بار عزت کا لفظ استعمال کیا ہے۔

ششدر انگیز بات یہ بھی ہے کہ ابھی وزیر اعظم کے الفاظ کی سنگینی کی گرد بیٹھی نہیں تھی کہ یہ خبر بھی آگئی کہ وزیر اعظم نے چیئرمین سینیٹ سے ملاقات کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ ہم نے یہ خبر ٹی وی کی سکرین پر دیکھی تو اپنا سر پِیٹ لینے کو جی چاہا۔ کیا کوئی وزیر اعظم وفاق کی سب سے نمایاں علامت کو ایسے بھی مسترد کر سکتا ہے؟ یوں بھی ملنے سے انکار کر سکتا ہے؟

خدانخواستہ، خدانخواستہ اگر کل کلاں بلوچستان قیادت، اِسی ردِ عمل میں، اجتماعی طور پر پاکستان کی ہر منتخب مرکزی قیادت سے ملنے سے انکار کر دے تو کیا منظر بن سکتا ہے؟ جو الفاظ شاہد خاقان عباسی نے صادق سنجرانی کے بارے میں ادا کیے ہیں، اگر یہی الفاظ بلوچستان کا ہر سیاستدان پاکستان کے ہر صدر اور وزیر اعظم کے بارے میں کہنا شروع کر دے تو شاہد خاقان عباسی اور اُنکے قائد صاحب کا کیا ردِ عمل ہوگا؟

مسٹر شاہد خاقان عباسی کے اس اقدام پر کسی بھی محبِ وطن پاکستانی نے اظہارِ پسندیدگی نہیں کیا ہے۔ تمام سنجیدہ ماہرینِ آئین نے بھی اِسے خلاف ورزی قرار دیا ہے اور سب سے بڑی حیرانی کی بات یہ ہے کہ وزیر اعظم کے ’’وزیر اعظم صاحب‘‘ نے بھی اس بارے میں اُن کی تصحیح کرنے کا تکلّف نہیں کیا ہے۔ وزیر اعظم تو چیئرمین سینیٹ سے نہیں ملے ہیں لیکن وہ چیف جسٹس آف پاکستان سے ملنے ضرور چلے گئے ہیں۔

ہمیں نہیں معلوم ہے کہ اس ملاقات کا ایجنڈہ کیا تھا لیکن تمام سنجیدہ اور فہمیدہ حلقوں نے یہی کہا ہے کہ ملاقات سے پہلے ایجنڈے کا بتایا جانا ضروری تھا۔ اگر ایسا ہوتا تو شکوک و شبہات جنم لیتے نہ کسی کو لب کشائی کرنے کا موقع ہی ملتا۔ چیف جسٹس صاحب کو پورے پاکستان میں آج عوام جن بلند توقعات اور آدرشوں کے تحت دیکھ رہی ہے، اِس پس منظر میں کوئی شخص یہ نہیں چاہے گا کہ عزت مآب میاں ثاقب نثار صاحب پر انگشت نمائی ہو۔ وہ اپنے فیصلوں اور اقدامات کی روشنی میں عوام کے دلوں میں گھر کر چکے ہیں۔

ہمارے دل میں بھی اُن کا بلند مقام ہے؛ چنانچہ مناسب یہی تھا کہ وزیر اعظم اور چیف جسٹس کی باہمی ملاقات کے بارے میں غیر مبہم ایجنڈا سامنے آ جاتا۔ یہ ملاقات مبینہ طور پر تقریباً دو گھنٹے رہی۔ اس دوران میڈیا والے اپنے اپنے قیافوں کی تانیں اڑاتے رہے۔ اگرچہ سب محتاط ہی تھے لیکن ہر طرف تجسس کی کیفیت طاری تھی۔ درمیان میں بلا وجہ کسی نے این آر او کی ہوائی بھی اڑانے کی کوشش کی۔ یہ سب اسلیے ہُوا ہے کہ ملاقات کے بارے میں کوئی ایجنڈا سامنے لایا گیا تھا نہ کوئی اعلان ہی کیا گیا۔

میاں نواز شریف، اُنکی صاحبزادی، اُنکے داماد اور اُنکے سمدھی کے بارے میں ’’نیب‘‘ میں جو مقدمات زیر سماعت ہیں اور چیف جسٹس صاحب کے نواز شریف کے بارے فیصلوں پر وزیر اعظم کے جو تنقیدی خیالات سامنے آ چکے ہیں، ان سب کی موجودگی میں شائد یہ ملاقات نہ ہوتی تو بہتر تھا۔ چند سال قبل جب سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے مبینہ طور پر چوہدری اعتزاز احسن کی ایما پر سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سے ایک تقریب میں بہانے سے ملاقات کر لی تھی تو اس کے بھی کئی افسانے تراش لیے گئے تھے؛ چنانچہ اکثریتی عوام کی یہ خواہش ہے کہ تازہ ملاقات کے بارے میں بھی کوئی ایسا افسانہ تراش نہ لیا جائے کہ جس کی بنیاد پر خدا نخواستہ عزت مآب چیف جسٹس صاحب کی حُرمت پر کوئی حرف آئے۔

نواز شریف اور وزیر اعظم کی پارٹی تو دُوریاں پیدا کرنے اور غلط فہمیاں پھیلانے کی پہلے سے کوششیں کررہی ہے۔ یہ پارٹی بوجوہ اپنے مخالفین کو اپنے سامنے کھڑا ہوتے ہُوئے نہیں دیکھ سکتی ، جیسا کہ گوجرانوالہ میں ڈپٹی کمشنر سہیل احمد ٹیپو کی پُراسرار موت نے بھی مقامی نون لیگی قیادت کے بارے میں شکوک و شبہات کو تقویت دی ہے۔ ڈپٹی کمشنر ٹیپو نے اپنی پُشت پر خود ہی اپنے ہاتھ باندھ کر خود کشی کی ہے، یہ کوئی ماننے پر تیار نہیں ہے۔

حیرانی کی بات ہے کہ لاہور کے ایک بیوروکریٹ اور ایل ڈی اے کے سابق ڈی جی احد چیمہ کو مبینہ کرپشن کے کئی کیسوں کی بنیاد پر ’’نیب‘‘ نے گرفتار کیا تو پنجابی بیوروکریسی نے صدائے احتجاج بلند کرنا اپنا اولین فریضہ سمجھ لیا تھا لیکن اب گوجرانوالہ میں ایک بیوروکریٹ کی پُراسرار خودکشی کا سانحہ سامنے آیا ہے تو سب بیوروکریسی کو سانپ سونگھ گیا ہے۔ اس حوالے سے گوجرانوالہ کی سیاست میں بہت سی کہانیاں زیر گردش ہیں لیکن مفادات نے ابھی زبانوں پر تالے ڈال رکھے ہیں۔

اس اسرار کی گرہ کشائی کے لیے بھی عوام الناس عزت مآب چیف جسٹس صاحب ہی کی طرف امید بھری نظروںسے دیکھ رہے ہیں۔دیکھتے ہیں ٹیپو کے قاتل کب تک منہ چھپائے رکھنے میں کامیاب رہتے ہیں؟ وہاں کی انتظامیہ نے ٹیپو مرحوم کے بارے میں جو شرمناک پُراسرار خاموشی اختیار کیے رکھی ہے انھیں بھی شاملِ تفتیش کرنا چاہیے اور اس سلسلے میںاعلیٰ اختیارات کاہائیکورٹ کے جج کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن بنایا جائے جو تین ماہ میں اپنی رپورٹ دے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔