حتمی انصاف تاریخ کرتی ہے

زاہدہ حنا  اتوار 1 اپريل 2018
zahedahina@gmail.com

[email protected]

نوعمری کے دن تھے اور بادشاہوں کی کہانیاں اچھی لگتی تھیں۔ ان ہی دنوں شہنشاہ جہانگیر کی زنجیر عدل کا قصہ پڑھا۔ ایک طرف نوشیرواں عادل کے انصاف کا ذکر ہوتا اور دوسری طرح شہنشاہ جہانگیر کے عدل کی کہانیاں بیان ہوتیں۔ ان ہی دنوں ’توزک جہانگیری‘ ہاتھ لگی اور اس کی جلد اول میں زنجیر عدل کے بارے میں شہنشاہ جہانگیر کے دست خاص سے لکھی ہوئی تفصیل پڑھی۔

اپنی توزک (ڈائری) میں جہانگیر نے لکھا کہ تخت نشین ہوتے ہی جو حکم میں نے سب سے پہلے جاری کیا، وہ زنجیر عدل کا نصب کرنا تھا، اگر کارکنانِ عدالت، ستم رسیدوں اور مظلوموں سے انصاف کرنے میں تغافل برتیں تو مظلوم اور فریادی اس زنجیر عدل تک اپنے آپ کو پہنچا کر اسے ہلائیں تاکہ اس کی آواز سے مجھے آگاہی ہو۔

اس زنجیر کی وضع اور ساخت یہ ہے کہ میں نے حکم دیا کہ ایک زنجیر خالص سونے کی بنائی جائے جس کا طول تیس گز ہو اور اس میں ساٹھ گھنٹیاں لگی ہوئی ہوں، اس کا وزن چار من ہو، اس کا ایک سرا قلعہ آگرہ کے شاہ برج کے کنگرے میں ہو اور دوسرا سرا دریائے جمنا کے کنارے گڑے ہوئے سنگ میل میں لگا دیا جائے۔

شہنشاہ جہانگیر کے اپنے قلم سے زنجیر عدل کی تفصیل پڑھ کر قدرے اطمینان ہوا، اس کے باوجود یہ تجسس رہا کہ اس زنجیر عدل نے کتنوں کوانصاف فراہم کیا اور کتنے مجرم سزا کو پہنچے۔ انصاف کا خون ہمیں ڈھائی ہزار برس پہلے سقراط کے مقدمے میں نظر آتا ہے جب ایک بوڑھے کو ایتھنز کے منتخب اراکین موت کی سزا سناتے ہیں اور وہ زہر کا پیالہ پی کر امر ہوجاتا ہے۔ اسی طرح اب سے 1085 برس پہلے کا شہر بغداد یاد آتا ہے جہاں حسین ابن منصور حلاج کو قتل کیا جانے والا تھا۔

خلیفہ المقتدر نے اس کے قتل کے جس فرمان پر مہرِ خلافت لگائی اس میں لکھا گیا تھا کہ قاضیوں نے حسین ابن منصور حلاج کے قتل کا فتویٰ دے دیا ہے اور اس کا خون مباح قرار دیا ہے، اسے شُرطہ عبدالصمد کے حوالے کیا جائے۔ وہ اسے ہزار دُرّے مارے (500 دُرّے ضرب الموت سمجھے جاتے تھے) اور اگر اس کے بعد بھی وہ جان سے نہ گزرے تو اس کا سر اڑا دیا جائے۔‘‘

المقتدر باللہ کے وزیر حامد نے عبدالصمد کو حکم دیا ’’اسے ایک ہزار دُرّے مارے جائیں، اس کے ہاتھ اور پیر باری باری کاٹے جائیں، اس کا سر اڑا دیا جائے، اس کا بدن جلادیا جائے اور اس کی راکھ دجلہ کے پانیوں میں بہادی جائے۔‘‘

27 مارچ 922ء کو اسے ہزار دُرّے مارے گئے اور اس دوران اس نے آہ بھی نہ کی، پھر اس کا ایک ہاتھ کاٹا گیا، وہ بہتے ہوئے خون کو اپنے چہرے پر ملتے ہوئے مسکرایا اور کہا کہ نمازِ عشق کے لیے وضو یوں ہی کیا جاتا ہے، پھر اس کا پیر کاٹا گیا، پھر دوسرا ہاتھ، پھر دوسرا پیر، اس وقت تک شام رات میں تبدیل ہوگئی تھی جب خلیفہ کا فرمان آیا کہ اس کا سر اڑا دیا جائے۔ سولی کے منتظم نے کہا کہ یہ کام ہم کل مکمل کریں گے۔

28 مارچ 922ء کو اسے سولی پر بلند کیا گیا تاکہ تماشائی اس کے سر کا اڑایا جانا دیکھیں اور جلاد کی تلوار نے اس کے شانوں کا بوجھ ہلکا کیا۔ اس کا دھڑ جو اب بھی پھڑک رہا تھا، سولی سے اتارا گیا، دھڑ کو چٹائی میں لپیٹا گیا، نو درہم کا تیل چھڑک کر اس کے بدن کو آگ لگادی گئی اور اس کی راکھ ایک بلند مینار ’راس المنارہ‘ سے دجلہ کی لہروں پر بکھیر دی گئی۔ سر ایک برس تک سپاہیوں کے پہرے میں خاص و عام کے نظارے کے لیے بلندی پر قندیل کی طرح روشن رہا اور سر کے ساتھ ہی ہاتھوں اور پیروں کی بھی نمائش ہوتی رہی۔

اس کے قتل کے محضرنامے پر سلطنتِ اسلامیہ کے 84 سر بر آوردہ افراد کے دستخط ثبت تھے۔ روایت ہے کہ اس کے خون کے قطرے ٹپکے تو انھوں نے 84 مرتبہ ’اللہ‘ لکھا۔ یہ فقیہوں کی وہ تعداد تھی جنھوں نے اس کے خلاف جھوٹی شہادت دی تھی۔

منصور کے قتل کے دن کے بارے میں جتنی روایتیں بھی ملتی ہیں، ان میں اس بات پر اصرار کیا گیا ہے کہ اس کی شہادت کا نظارہ کرنے کے لیے لوگوں کا ایک انبوہ کثیر تھا جو امڈ آیا تھا۔ اس روز بغداد کے خواص اور عوام نے ان ہزار کوڑوں کی آواز سنی جو اس کی پشت پر برسے اور جنھیں مارنے والے حبشی غلام نے اپنے بازوؤں کی تمام طاقت و قوت صرف کردی، منصور کی کھال کے ٹکڑے اس کے کوڑے سے چپک گئے تھے لیکن اس عقوبت کو سہنے والا منہ سے اف نہیں کرتا تھا۔ اس کی آہ نہیں نکلتی تھی اور خلق خدا ہر ضرب پر نعرے بلند کرتی تھی۔

انصاف کا خون ہمیں کیپٹن الفریڈ ڈریفس کے ساتھ ہوتا نظرآتا ہے۔ داد دینی چاہیے فرانسیسی ادیبوں کی جنھوں نے اپنی جان خطرے میں ڈالتے ہوئے کیپٹن ڈریفس کا مقدمہ لڑا اور آخرکار ثابت کیا کہ وہ بے گناہ تھا۔ یہ ایمائل ژولا تھا جس کی تفتیش و تحقیق کے نتیجے میں کیپٹن ڈریفس کے خلاف پیش کیے جانے والے تمام کاغذات جعلی نکلے اور وہ باعزت بری ہوا۔

نوبیل انعام یافتہ حوزے سارا میگو کی کہانی انصاف کے حوالے سے ایک ناقابل فراموش کہانی ہے۔ یہ 400 برس پہلے کی کہانی ہے جو ہمیں بتاتی ہے کہ فلورنس کے ایک قصبے میں اچانک گرجاگھرکی گھنٹی بجی۔ یہ گھنٹی اس وقت بجائی جاتی تھی جب قصبے کے کسی فرد کی موت ہوگئی ہو۔ لوگ یہ جاننے کے لیے اکٹھے ہوگئے کہ کس شخص کو موت کا فرشتہ اپنے ساتھ لے گیا ہے۔ تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ ایک شخص نے یہ گھنٹی اس لیے بجائی تھی کہ لوگوں کو معلوم ہوسکے کہ قصبے میں انصاف کی موت ہوگئی ہے۔

ہوا یہ تھا کہ علاقے کا زمیندار زیادہ سے زیادہ زمین ہتھیانے کی ہوس رکھتا تھا۔ وہ ہر دس بیس روز بعد اپنی زمین کی حد بندی کے پتھروں کو آگے بڑھاتا جاتا تھا اور غریب دیہاتی کی زمین کم ہوتی جارہی تھی۔ دیہاتی اس ناانصافی کے خلاف احتجاج کرتا لیکن دادرسی کو کوئی نہیں آیا۔ اس نے قانونی چارہ جوئی بھی کی لیکن قانون نے اس کی دست گیری نہ کی، اور زمیندار ہر دوسرے چوتھے دن اس کی زمین ہڑپ کرتا رہا۔ آخرکار وہ دیہاتی کسان قصبے کے گرجاگھر میں گیا اور اس نے وہ گھنٹی بجادی جو کسی کی موت پر بجائی جاتی تھی۔

قصبے والوں نے پوچھا کہ تم نے ایسا کیوں کیا، تو اس نے جواب دیا کہ انصاف کی موت واقع ہوگئی ہے، اس لیے میں نے یہ گھنٹی بجا کر تم سب لوگوں کو اطلاع دے دی ہے۔ حوزے کی اس کہانی میں ہمیں یہ معلوم نہیں ہوتا کہ انصاف کا خون ہونے کا اعلان کرنے والی گھنٹی کو بجانے والے پر کیا گزری۔ یہ مختصر کہانی جسے آصف فرخی نے ترجمہ کیا اس میں حوزے ہمیں بتاتا ہے کہ میں تصور کرتا ہوں کہ یہ واحد موقع تھا جب دنیا میں کسی بھی جگہ گھنٹی نے انصاف کی موت کا ماتم کیا تھا۔

یہ گجر پھر نہ بجایا گیا مگر انصاف روز مرتا ہے۔ اور جب بھی انصاف زخموں کی تاب نہ لاکر ڈھیر ہوجاتا ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کا ان لوگوں کے لیے کوئی وجود ہی نہ تھا جو اس پر اعتبار کرتے تھے، جو اس کی توقع رکھتے تھے، جس کی توقع کے ہم سب حقدار ہیں: وہ لکھتا ہے کہ میں اس انصاف کی بات نہیں کررہا جو تھیٹر کے اداکاروں کا سا رنگ دھار لیتا ہے اور کھوکھلی خطابت سے ہمیں دھوکا دیتا ہے۔ یا وہ انصاف جو اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ دیئے جانے اور ترازو کے پلڑے جھک جانے کی اجازت دیتا ہے۔ میں اس انصاف کی بات نہیں کررہا جس کی تلوار کی دھار ایک طرف سے تیز ہے اور دوسری طرف سے کُند۔ میرا انصاف منکسرالمزاج ہے اور ہمیشہ مسکینوں کا ساتھ دیتا ہے۔ اس سیاق وسباق میں انصاف، اخلاقیات کا ہم معنی ہے اور روحانی صحت کے لیے لازمی۔ میں صرف اس انصاف کی بات نہیں کررہا جو عدالت سے حاصل ہوتا ہے بلکہ اس سے بھی اہم تر، وہ انصاف جو فطری طور پر سماج کے اپنے اعمال سے پھوٹتا ہے۔

یہ کہانی پڑھتے ہوئے مجھے نوبیل انعام یافتہ مشہور روسی ادیب سولزے نتسن کی یاد آئی جس نے سالہا سال سائبیریا کے برفیلے جہنم میں گزارے۔ باریک ٹائپ میں چھپی ہوئی اس کی یادداشتیں ہمیں اس جہنم کے کئی طبقات میں جھانکنے کا موقع دیتی ہیں جو چند انسانوں نے اپنے سیاسی مخالفین کے لیے تعمیر کیے تھے۔ یہ ایک ہولناک دنیا ہے۔ اس کا سرسری جائزہ رونگٹے کھڑے کردیتا ہے۔ اپنی ان یادداشتوں میں سولزے نتسن نے کئی بار عدالتوں اور نظام عدل کے بارے میں لکھا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ:

٭ جج اپنے چیمبر میں ایک ٹیلی فون کی شکل میں رکھی ہوئی ’’سیاہ سچائی‘‘ کو ہر لمحہ اپنے سامنے رکھتا ہے۔ وہ جب تک اس سے وصول ہونے والے فیصلے سناتا رہے گا، اس کے لیے ’’معجزے‘‘ رونما ہوتے رہیں گے۔ ٭ ججوں کے اے محترم ٹولے مرحبا! خدا کرے کہ انصاف آپ کے قدموں کے نیچے دبیز قالین کی طرح بچھا رہے۔ ٭ کسی بھی سماج میں بس اسی وقت بہتری آسکتی ہے جب ہر گنہگار سزا پائے اور مجرمانہ سرگرمیوں کی تحقیقات کرنے والے پولیس افسران کو انعامات دیئے جائیں۔ ٭ ہمارے قانون میں جھوٹی شہادت دینے والے کے لیے کوئی سزا نہیں، بلکہ قانون اس عمل کو جرم ہی تصور نہیں کرتا۔ ہمارے یہاں جھوٹی شہادت دینے والوں کی ایک فوج موجود ہے جو نہایت عزت و احترام کے ساتھ لمبی عمر پاتی ہے اور آرام کی زندگی گزارتی ہے۔ ہم شاید دنیا کا واحد سماج ہیں جہاں وعدہ معاف گواہوں کے ناز نخرے اٹھائے جاتے ہیں۔

آخر میں سولزے نتسن نے کسی اور کا ایک جملہ نقل کیا ہے جو کچھ یوں ہے کہ ’’ایک غیر منصف عدالت، ٹھگوں اور بٹ ماروں سے کہیں بدتر ہے۔‘‘

اس کی یہ بات بھی سچ ہے کہ ایوان عدل میں ہونے والے مقدمات کا حتمی فیصلہ کرسی عدل پر بیٹھنے والے نہیں، تاریخ کرتی ہے اور تاریخ نے ایک بار نہیں بار بار یہ ثابت کیا ہے کہ اسی کا فیصلہ درست ٹھہرتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔