الیکشن ٹربیونلز میں اپیلوں کی سماعت کا مرحلہ شروع

جی ایم جمالی  منگل 9 اپريل 2013
جب ایک امیدوار ایک ریٹرننگ افسر کی نظر میں الیکشن لڑنے کے لیے نا اہل ہوسکتا ہے تو وہ دوسرے ریٹرننگ افسر کی نظر میں کیسے اہل ہوسکتا ہے؟  فوٹو : فائل

جب ایک امیدوار ایک ریٹرننگ افسر کی نظر میں الیکشن لڑنے کے لیے نا اہل ہوسکتا ہے تو وہ دوسرے ریٹرننگ افسر کی نظر میں کیسے اہل ہوسکتا ہے؟ فوٹو : فائل

کراچی: آئندہ عام انتخابات کیلئے امیدواروں کے کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کا اعصاب شکن مرحلہ مکمل ہوچکا ہے۔

اس وقت کاغذات نامزدگی کے منظور یا مسترد ہونے کے خلاف الیکشن ٹریبونلز میں اپیلوں کی سماعت ہو رہی ہے ۔ اس ضمن میں ریٹرننگ افسروں کے فیصلوں کے خلاف خصوصاً سندھ میں جتنی اپیلیں دائر ہونے کی توقع تھی ، اتنی اپیلیں دائر نہیں ہوئی ہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ریٹرننگ افسروں نے جن امیدواروں کے کاغذات منظور کر لیے ہیں۔ ان میں 90 فیصد سے زیادہ امیدوار انتخابات میں حصہ لیں گے ۔ اس سے یہ بات بھی ظاہر ہوتی ہے کہ انتخابی عمل میں ریٹرننگ افسر سب سے زیادہ بااختیار ہیں لیکن پورے ملک میں ریٹرننگ افسروں کے فیصلے ایک جیسے نہیں ہیں ۔

اس سوال کا جواب ابھی تک کسی کو نہیں مل سکا ہے۔ ایک امیدوار کے ایک حلقے سے کاغذات منظور ہوگئے جبکہ اسی امیدوار کے دوسرے حلقے سے کاغذات مسترد ہوگئے۔ اس حوالے سے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف اور دیگر کئی امیدواروں کی مثالیں دی جاسکتی ہیں۔ جب ایک امیدوار ایک ریٹرننگ افسر کی نظر میں الیکشن لڑنے کے لیے نا اہل ہوسکتا ہے تو وہ دوسرے ریٹرننگ افسر کی نظر میں کیسے اہل ہوسکتا ہے؟

ریٹرننگ افسران امیدواروں سے ایسے سوالات پوچھتے رہے جن کے بارے میں بعدازاں الیکشن کمیشن نے یہ قراردیا کہ اس طرح کے سوالات غیر ضروری ہیں ۔ سب سے زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ جعلی ڈگری کی بنیاد پر امیدواروں کو نااہل قرار دیا گیا اور بعض سیاستدانوں کو تو جیل بھیج دیا گیا ۔ عدالتوں نے ڈگری والے مسئلے کو زیادہ اہمیت دے کر کچھ حلقوں کو خوش تو کیا ہے لیکن اس سے سیاست میں احتساب کا مقصد حاصل نہیں ہوا ۔ ریٹرننگ افسروں نے کاغذات نامزدگی منظور اور مسترد کرنے میں آئین اور قانون کی اپنی مرضی سے تشریح کی اور احتساب کا مقصد یہاں بھی حاصل نہیں ہوا۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما چوہدری نثار علی خان کے راولپنڈی کے ایک حلقے سے کاغذات نامزدگی اس لیے مسترد کردیئے گئے کہ انہوں نے اپنے اثاثوں کی مالیت کم ظاہر کی جبکہ سندھ میں بڑی تعداد میں ایسے امیدوار ہیں جنہوں نے اپنے اثاثوں کی مالیت قطعی طور پر درست بیان نہیں کی ۔

اس میں سے ایک مثال پیپلز پارٹی کے سابق وفاقی وزیر سید خورشید احمد شاہ کی ہے ۔ انہوں نے کراچی کے مہنگے ترین علاقے ڈیفنس میں اپنے بنگلے کی مالیت صرف 16 لاکھ روپے ظاہر کی ہے جبکہ ڈیفنس میں ایک بیڈ روم کا فلیٹ بھی 16 لاکھ روپے میں نہیں ملتا ۔ خورشید شاہ کی طرح بہت سے دیگر امیدوار ایسے ہیں جنہوں نے کروڑوں اور اربوں روپے کے اثاثوں کی مالیت اتنی کم بتائی ہے کہ اس سے دگنی مالیت پر اثاثے بخوشی خرید لیں گے ۔

سندھ میں ایسے بہت سے امیدوار ہیں جن کے پاس اربوں روپے کے اثاثے ہیں ، جو کچھ عرصہ قبل ان کے پاس پورے پاکستان کی طرح نہیں تھے اور ان کی آمدنی اور کاروبار بھی ان کے اثاثوں سے مطابقت نہیں رکھتے۔ کہا یہ جاتا تھا کہ ایسے امیدوار کاغذات نامزدگی کی چھلنی سے نہیں گزر سکیں گے لیکن وہ آسانی سے اس چھلنی سے گزر گئے جس طرح کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کی گئی ہے اس سے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ ریٹرننگ افسروں نے آئین کے آرٹیکلز 62 اور 63 کی اپنی اپنی تشریح کی اور انہوں نے دوسروں کیلئے بھی یہ راستہ کھول دیا کہ وہ اپنی اپنی مرضی کی تشریح کریں۔

جنرل (ر) پرویز مشرف کے کراچی کے حلقہ این اے 250 سے کاغذات نامزدگی مسترد کردیئے گئے ہیں۔ مذکورہ حلقے کے ریٹرننگ افسر اور سیکنڈ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج سید اکرام الرحمن نے کاغذات نامزدگی مسترد کرتے ہوئے اپنے آرڈر میں لکھا ہے کہ پرویز مشرف آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت سزا کے مستحق ہیں ۔

دوسری طرف سندھ میں ٹکٹوں کی تقسیم کے مسئلے پر مختلف سیاسی پارٹیوں کے اندر زبردست اختلافات کی خبریں سامنے آرہی ہیں لیکن سب سے زیادہ مسئلہ پیپلز پارٹی میں ٹکٹوں کی تقسیم کا ہے۔ پیپلز پارٹی سندھ کی سب سے بڑی اور مقبول سیاسی جماعت ہے لہذا اسے ٹکٹوں کے لئے سب سے زیادہ درخواستیں موصول ہوئی ہیں۔ سندھ سے قومی اسمبلی کی 61 اور صوبائی اسمبلی کی 130 نشستوں کے لئے 6 ہزار سے زائد امیدواروں نے درخواستیں دیں لیکن پیپلز پارٹی کی قیادت نے خوش اسلوبی سے ٹکٹوں کا مسئلہ حل کرلیا ہے۔

ہر جگہ پارٹی کے پارلیمانی بورڈ کے فیصلوں کو تسلیم کیا گیا لیکن سکھر میں عجیب وغریب صورت حال پیدا ہوگئی ۔ پیپلز پارٹی کے رہنماء اور وفاقی وزیر سید خورشیداحمد شاہ نے نہ صرف اپنے عزیزوں کو ٹکٹ دلانے کیلئے اصرار کیا بلکہ ٹکٹ نہ ملنے کی صورت میں پارٹی سے کھلی ناراضگی کا بھی اظہار کیا۔ سید خورشید احمد شاہ خود پارلیمانی بورڈ کے اہم رکن ہیں ۔ ان کے اس رویے پر پارٹی قیادت کو حیرت ہوئی۔

خورشید احمد شاہ اگرچہ اپنے داماد اور بھتیجے سید اویس شاہ اور ڈاکٹر نصر اللہ بلوچ سمیت دیگر ساتھیوں کو ٹکٹ دلوانے میں کامیاب ہوگئے ہیں لیکن پیپلز پارٹی کے کارکن یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا ضلع سکھر کبھی سید خورشید شاہ کی اجارہ داری سے نہیں نکل سکے گا اور کیا پارٹی کے قربانی دینے والے دیگر لوگوں کو موقع نہیں ملے گا؟ ان کارکنوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ پارٹی نئے لوگوں کو بھی موقع دے ۔ ویسے سندھ میں پیپلز پارٹی امیدواروں کے انتخاب میں بہت سوچ بچار سے کام لے رہی ہے ۔ سندھ میں پیپلزپارٹی کے مخالفین کو اس بات کا شدت سے انتظار ہے کہ پیپلزپارٹی امیدواروں کی حتمی فہرست کب جاری کرتی ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔