پاک دامنی کی کہانیاں

نصرت جاوید  منگل 9 اپريل 2013
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

ایمان داری کی بات تو یہ ہے کہ میں نے کبھی ڈگری کے حصول کے لیے کتابیں نہیں پڑھیں۔ مزاج میں ضرورت سے زیادہ تجسس رہا جو زیادہ سے زیادہ علم کے حصول پر مائل کرتا رہا۔ اتفاق سے میں نے پیشہ بھی وہ اپنایا جہاں ڈگریاں آپ کے کام نہیں آتیں۔ خبر ڈھونڈنا اور اسے بیان کرنے کی صلاحیت کو زیادہ اہم سمجھا جاتا ہے۔ ڈگریوں سے اپنی ذاتی بے اعتنائی کے باوجود مجھے ان سیاستدانوں سے ہر گز کوئی ہمدردی نہیں جو جعلی ڈگریوں کی وجہ سے جیل بھیجے جا رہے ہیں۔

اصولی طور پر جنرل مشرف کا اسمبلیوں میں پہنچنے کے لیے ڈگری کی شرط عائد کرنا ایک غلط فیصلہ تھا۔ ایک حوالے سے یہ بنیادی انسانی حقوق اور جمہوریت کی اس بنیاد کے بالکل برخلاف تھا جہاں ریاستی امور طے کرنے کے عمل میں شرکت کے حوالے سے تمام شہریوں کے حقوق مساوی سمجھے جاتے ہیں۔ مگر اس فیصلے پر عملدرآمد کو نہ روک سکنے والے نواب زادہ نصر اللہ خان اور غلام مصطفیٰ جتوئی جیسے جید سیاستدان ڈگریاں نہ ہونے کی وجہ سے انتخابی عمل سے باہر بیٹھے رہے۔

سیدہ عابدہ حسین نے اچھی خاصی ڈھلتی عمر میں امتحانات دینے کے بعد ڈگری حاصل کی اور قومی اسمبلی تک پہنچیں۔ ایسے میں وہ لوگ یقیناً بڑے دھوکے باز ثابت ہوئے جنہوں نے جعلی ڈگریاں بنوائیں اور ان کے درست ہونے کے حلف نامے داخل کرنے کے بعد ہمارے منتخب ایوانوں میں بیٹھے رہے۔ ان کا جھوٹ اور دغا بازی یقیناً سزا کا مستحق ہے۔ میرا سوال پھر بھی یہ ہے کہ دھوکا دہی کرنے کے جرم میں صرف سیاستدانوں کو ہی سزائیں کیوں دی جا رہی ہیں۔

ہمارے ہاں 1973سے ایک آئین بھی تو ہے۔ ریاست کے اعلیٰ ترین اداروں کی سربراہی پر فائز ہونے والے اس کے تحفظ کی قسم اُٹھایا کرتے ہیں۔ اسی آئین میں آرٹیکل 6 کے ہوتے ہوئے بھی جنرل ضیاء الحق نے 5  جولائی 1977 کو اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ اس نے آئین کو منسوخ نہیں معطل کیا اور اس وقت کے سپریم کورٹ نے نظریہ ضرورت کے تحت نہ صرف اس معطلی کو جائز قرار دیا بلکہ ایک فوجی آمر کو پاکستان کے مخصوص حالات کی روشنی میں آئین کو زیادہ قابل عمل بنانے کے نام پر ترامیم متعارف کرانے کی اجازت بھی دے ڈالی۔

اس حوالے سے صرف جنرل ضیاء نے اکیلے ہی نہیں بلکہ سپریم کورٹ نے بھی اپنے حلف سے روگردانی کی۔ کسی ملک کا آئین وہاں پر رائج تمام قوانین کی ماں سمجھا جاتا ہے۔ اس کی پامالی جعلی ڈگری والے جھوٹ سے کہیں زیادہ سنگین جرم ہے۔ مگر ایاز امیر کی نااہلی کا سینہ پھلا کر دفاع کرنے والے اس ضمن میں تقریباً خاموش ہیں ۔

جعلی ڈگریوں کے ذریعے دھوکا دہی انفرادی اعمال ہیں۔ مگر ضیاء الحق اور مشرف نے جو ریفرنڈم کرائے وہ قومی سطح کی ظالمانہ بددیانتی تھی جس میں محض افراد نہیں بہت سارے ریاستی ادارے اور خاص طور پر ان ادوار کے الیکشن کمیشن مکمل طور پر ملوث تھے۔ حبیب جالبؔ نے جن تھا یا ریفرنڈم تھا والے مصرعے کے ذریعے ضیاء الحق کے ریفرنڈم کی قلعی کھول دی تھی۔ جس دن مشرف کا ریفرنڈم ہوا میں سکھر اور لاڑکانہ سے اس کا آنکھوں دیکھا حال لکھنے کے بعد جیکب آباد پہنچا۔ ریفرنڈم کے نتائج کا اعلان ہونے سے ذرا پہلے میں اپنے ایک دیرینہ دوست کے ہاں پہنچا جو اپنے لان میں کرسیاں بچھائے میرا انتظار کر رہے تھے۔

ایک میز پر بڑا ساٹیلی ویژن رکھا تھا جس کی اسکرین پر اس وقت کے چیف الیکشن کمشنر ارشاد حسن خان صاحب نمودار ہوئے۔ انھوں نے بڑے جوش و خروش سے پہلا نتیجہ سنایا جو بقول ان کے ڈیرہ بگٹی سے وصول ہوا تھا۔ تقریباََ 70 فیصد سے زیادہ کے ٹرن آئوٹ کے تحت 97 فی صد ووٹر مشرف کے اقدامات کے اثبات کرتے رپورٹ ہوئے۔ میں جہاں موجود تھا وہاں مختلف تحصیلوں میں متعین چند انتظامی افسران بھی بیٹھے تھے۔ انھوں نے فوراًموبائل فون اُٹھا کر اپنے ماتحت عملے کو ڈانٹنا شروع کر دیا کہ ان سے متعلقہ پولنگ اسٹیشنوں سے نتائج اکٹھا کر کے الیکشن کمیشن تک کیوں نہیں پہنچائے جا رہے۔

میری آنکھوں کے سامنے ایک ایسے ہی افسر نے اعتراف کیا تھا کہ اس کے علاقے میں دس فیصد سے زیادہ ووٹر ریفرنڈم کا ووٹ ڈالنے نہیں آئے مگر وہی صاحب اب اپنے ماتحت عملے کو واضح الفاظ میں بتا رہے تھے کہ ٹرن آئوٹ کسی صورت 90 فیصد سے کم نہ دکھایا جائے۔ مختصر لفظوں میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ چیف الیکشن کمشنر سے شروع ہو کر مقامی سطح کے کم ترین ریاستی کارندوں نے جنرل مشرف کے رچائے ریفرنڈم کے عمل میں مجموعی طور پر قومی سطح کی بددیانتی کا ارتکاب کیا۔ مجھے خبر ہے کہ سیاستدانوں سے اندھی نفرت کرنے والے لوگ میری جانب سے مشرف کے ریفرنڈم کے ذکر کو ان دنوں میں ایک فضول اور لایعنی بات سمجھیں گے۔

پارسائی کے فتوے بانٹنے والے البتہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ مشرف کے بعد آنے والے حکمرانوں کو اس کے آمرانہ دور کی جعل سازیوں کی سزا دینے سے کس نے روکا تھا۔ مگر یہ دونوں دلائل میری دانست میں بودے قرار پائیں گے۔ کیونکہ جعلی ڈگری والوں کو دھوکا دہی کی سزائیں بھی تو جرم سرزد ہونے کے پانچ اور دس سال بعد سنائی جا رہی ہیں۔ جنرل مشرف اور اس کے وردی اور وردی کے بغیر والے حلیفوں اور حواریوں نے بھی تو اپنے جرائم تقریباًاسی عرصے میں سرزد کیے تھے۔

ان کی پکڑ نہ ہوئی توکسے یقین ہے کہ ہمارا آئین ایک بار پھر معطل نہیں کیا جا سکتا اور اس معطلی کو اعلیٰ ترین عدلیہ جائز قرار نہ دے گی اور پھر اس معطلی کو خلقِ خدا کے منظوری کے نام پر رچائے جانے والے ریفرنڈم کے ذریعے درگزر نہیں کیا جائے گا۔ ہمارے الیکشن کمیشن کے چند مستقل ملازمین آج کل پارسا شکلوں کے ساتھ بڑے جارح محتسب بنے ہوئے ہیں۔ وہ تھوڑی سی اخلاقی جرأت دکھاتے ہوئے ہمیں انتا ہی بتا دیں کہ آیا جنرل مشرف کے دنوں میں رچائے گئے ریفرنڈم کا سرکاری ریکارڈ ان کے مرکزی دفتر میں موجود بھی ہے یا نہیں اور اگر وہ موجود ہے تو ہمارے عام شہری، صحافی یا تاریخ کے کسی سنجیدہ طالب علم کو اس ریکارڈ کی پڑتال کا حق ہے یا نہیں۔ اگر اس سوال کا جواب مجرمانہ خاموشی ہے تو خدا کے لیے پاک دامنی کی کہانیاں گھڑنا بند کر دیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔