سیاسی خلا اور انتخابات

ڈاکٹر توصیف احمد خان  منگل 9 اپريل 2013
tauceeph@gmail.com

[email protected]

کیا 11 مئی کو انتخابات واقعی منعقد ہوجائیں گے؟ ریٹرننگ افسروں کی جانب سے آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کے بہیمانہ استعمال اور الیکشن کمیشن کے تبدیل ہوتے ہوئے فیصلوں سے ملک میں ایک غیر یقینی صورتحال پیدا ہوگئی ہے اور سیاسی خلا بڑھ گیا ہے ۔ جب پارلیمنٹ نے اپنی گزشتہ مہینے ختم ہونے والی مدت کے دوران آئین میں بنیادی ترمیم کی تھی تو ان کا بنیادی مقصد عوام کی ریاست پر بالادستی کو مستحکم کرنا تھا اور یہ مقصد جمہوری نظام کو شفاف اور موثر بنا کر حاصل کیا جاسکتا تھا۔

پارلیمنٹ نے اس ضمن میں ایک خودمختار الیکشن کمیشن اور نگراں حکومت کے قیام کے طریقہ کار کو واضح کیا، الیکشن کمیشن کے چاروں اراکین کا تقرر متعلقہ صوبوں کے چیف جسٹس کی مشاورت سے صدر نے کیا۔ چیف الیکشن کمشنر کے تقرر کے لیے وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف میں اتفاق لازمی قرار دیا۔ دوسری صورت میں چیف جسٹس کو تقرر کا اختیار ملا۔ اس طرح کمیشن کو مکمل مالیاتی اور انتظامی خود مختاری ملی پھر چیف الیکشن کمشنر کو نگراں وزیراعظم کے تقرر کو اس صورت میں نامزدگی کا اختیار دیا گیا کہ اگر وزیراعظم، قائد حزب اختلاف اور پارلیمانی کمیٹی کسی ایک امیدوار پر متفق نہ ہوسکیں۔

جب آئین میں کی گئی 20 ویں ترمیم پر عملدرآمد شروع ہوا تو اس ترمیم پر عملدرآمد میں پیچیدگیاں ظاہر ہونا شروع ہوئیں، الیکشن کمیشن کے نامزد اراکین کا تعلق عدلیہ سے ہے اور تمام معزز اراکین متعلقہ ہائی کورٹس کے ریٹائرڈ جج ہیں مگر یہ تصور کیا جاتا ہے کہ وہ ابھی اپنے صوبوں کی حکومتوں کی پالیسی کے اسیر ہیں۔ جب موجودہ چیف جسٹس افتخار چوہدری کی قیادت میں نئی عدالتی پالیسی تیار کی گئی تو اس میں تحریر تھا کہ کوئی جج عدالتی امور کے علاوہ کوئی اور فریضہ انجام نہیں دے گا، یوں ضمنی انتخابات میں پہلی دفعہ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ریٹرننگ افسرمقرر نہیں ہوں گے۔

مگر جب عام انتخابات قریب آئے تو چیف الیکشن کمشنر جسٹس ریٹائرڈ فخر الدین جی ابراہیم کی درخواست پر چیف جسٹس نے عدالتی افسروں کو بعض شرائط کے ساتھ انتخابی فرائض انجام دینے کی اجازت دی، اب یہ عدالتی افسر ریٹرننگ افسر کی حیثیت سے چیف الیکن کمشنر کی ہدایات کے پابند ہوگئے۔ چیف جسٹس نے ریٹرننگ افسروں سے خطاب کرنا شروع کیا اور ریٹرننگ افسروں کو ہدایت کی کہ وہ آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 پر سختی سے عملدرآمد کرائیں۔ الیکشن کمیشن نے اس بارے میں مکمل خاموشی اختیار کرلی۔

آئین کی یہ شقیں سابق صدر جنرل ضیاء الحق نے پی سی او کے تحت نافذ کی تھیں۔ 1985 میں غیر جماعتی بنیادوں پر منتخب ہونے والی پارلیمنٹ نے مارشل لاء کے خاتمے کے عوض اس پی سی او کی منظوری دی تھی مگر 1985 سے 2008 تک ملک میں 9 دفعہ عام انتخابات منعقد ہوئے۔ ان انتخابات میں ڈاکٹر معین قریشی کی نگرانی میں ہونے والے انتخابات بھی شامل تھے۔ ان انتخابات میں امیدواروں سے یوٹیلٹی بلوں کی ادائیگی اور بینکوں سے قرض دہندہ نہ ہونے کے سرٹیفکیٹ طلب کیے گئے تھے مگر ان تمام انتخابات میں ریٹرننگ افسروں نے کئی امیداروں کے کاغذات ان کے ذاتی عقیدے کی بنا پر پوچھے گئے سوالات کی بنیاد پر منسوخ نہیں کیے تھے۔ مگر اب ریٹرننگ افسروں کی جانب سے ذاتی عقیدے کی بنا پر سوالات پر نااہلی کے فیصلوں سے ملک میں سیاسی خلا بڑھ گیا۔

بعض قانونی ماہرین کہتے ہیں کہ ریٹرننگ افسروں پر آئین کی متعلقہ شقوں پر سختی سے پابندی کی ہدایات کی بنا پر یہ صورتحال پیدا ہوئی۔ ان ماہرین کا کہنا ہے کہ عدالتی افسروں کا وژن محدود ہے، ان میں سے بیشتر جنرل ضیاء الحق کے دور کی پیداوار ہیں۔ ان افسروں نے قانون کی کتابوں میں بھی مذہبی نظریات کو زیادہ پڑھا ہے یوں ان کا وژن محض مذہب کی مخصوص تشریح تک محدود ہے، یہ صورتحال اعلیٰ عدالتوں میں بھی موجود ہے۔ انسانی حقوق کی کارکن عاصمہ جہانگیر کا تجزیہ ہے کہ نادیدہ قوتیں اپنے مقاصد کے لیے مخصوص لوگوں کی انتخابات میں کامیابی چاہتی ہیں، بعض ریٹرننگ افسر یہ فریضہ انجام دے رہے ہیں اوراس صورتحال کے خطرناک نتائج نکل سکتے ہیں۔

یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ اگر مخصوص اسلامی نظریے کی شرائط پر پورا اترنے والے ملک کو اچھے حکمران دے سکتے ہیں تو تاریخ اس بارے میں مایوسی کے علاوہ کچھ نہیں رہی۔ صرف جنرل ضیاء الحق کے دور کو ماڈل بنایا جائے تو پاکستان کے موجودہ حالات کی وجوہات واضح ہیں۔ جنرل ضیاء الحق نے اپنی مرضی کا اسلامی نظام قائم کیا، انھوں نے مخصوص مسلک کے مطابق قوانین بنائے اور اپنی مجلس شوریٰ میں اپنی پسند کے لوگوں کو نامزد کیا، 1985 کے غیر جماعتی انتخابات پر سخت ضابطہ پر پورے اترنے والے افراد کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دی گئی مگر جنرل ضیاء الحق کا دور تاریکیوں کے علاوہ کچھ نہیں دے سکا۔ بھارت میں اندراگاندھی کے قتل کے بعد راجیو گاندھی نے اقتدار سنبھالا، راجیو نے اس وقت انفارمیشن ٹیکنالوجی کو بھارت میں متعارف کرایا۔

اب بھارتی ماہرین سلیکون ویلی کے ذریعے امریکا، کینیڈا اور یورپ میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ پاکستان عدم استحکام کے خوف کا شکار ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اعلیٰ ترین عدالتی افسر صحافیوں ، تجزیہ کاروں کی تحریروں اور ان کے کالموں سے متاثر ہوتے ہیں۔ وہ بار بار شریعت کے نفاذ کا مطالبہ کرتے ہیں مگر یہ نہیں بتاتے کہ کس فرقے یا مکتبہ فکر کی شریعت نافذ کی جائے۔ اگر ان کی مخصوص فکر کے تحت لوگوں کو منتخب ہونے دیا جائے تو مختلف فقہوں کی بنا پر لوگ منتخب ہوں گے اور اس کے نتیجے میںکیا فرقہ پرستی نہیں بڑھے گی؟ اس کا جواب ان کے پاس نہیں ہے۔ کیونکہ فرقے کی بنیاد پر منتخب ہونے والے دوسرے فرقے کے ماننے والوں کو اب تو زندہ رہنے کا حق دینے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں۔ ان سب کی متفقہ رائے ہے کہ خواتین کا فریضہ گھروں میں رہنا ہے اور ان میں سے بیشتر تو انتخابی نظام کو مغرب کی دین سمجھتے ہیں جب کہ طالبان جمہوریت کو کفر کا نظام کہتے ہیں۔

اردو ادب کے ایک استاد کا کہنا ہے کہ کچھ صحافی حضرات اردو کے عظیم شاعر فراق گورکھپوری کو اردو کے نصاب سے نکالنے کا مطالبہ کرچکے ہیں کیونکہ وہ ہندو ہیں اور روس نے انھیں اعزازات دیے تھے، اس صورت میں مرزا غالب، علامہ اقبال اور جوش کو بھی نصاب سے خارج کرنا پڑے گا۔ ان کی سوچ محض ماضی کی طرف دھکیلنے کے علاوہ کچھ نہیں۔ اعتزاز احسن کی یہ بات درست ہے کہ قائد اعظم، ان کی اہلیہ رتی اور بہن فاطمہ جناح کا طرز زندگی کسی صورت آرٹیکل 62 اور 63 کے مطابق نہیں تھا، پھر انھیں بھی تاریخ سے خارج کرنا پڑے گا۔ جمہوری نظام کے استحکام کے لیے اگر غیر منتخب ادارے بنیادی فیصلے کرتے رہے تو پھر جمہوری ادارے کبھی مستحکم نہیں ہوسکیں گے۔

اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ چیف الیکشن کمشنر جسٹس فخر الدین جی ابراہیم اپنے کردار کو موثر بنائیں اور الیکشن ٹریبونل کو یہ ہدایات دی جائیں کہ وہ ذاتی عقیدے کی بنیاد پر مقرر کیے جانے والے امیدواروں کی اپیلیں منظور کریں۔ پھر منتخب ہونے والے اراکین اس صورتحال سے سبق سیکھتے ہوئے حلف اٹھاتے ہی آئین میں ترمیم کریں اور آرٹیکل 62 اور 63 ختم کا جائے۔ اس طرح عبوری حکومت کے قیام اور الیکشن کمیشن کے اراکین کے نامزدگی کے طریقہ کار کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ یہ صورت حال پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے لیے بھی ایک سبق ہے۔ انھوں نے مذہبی جماعتوں کے دبائو پر آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کو خارج نہیں کیا، یوں آج نادیدہ قوتوں کو موقع مل گیا۔ مگر سب سے اہم ترین بات یہ ہے کہ انتخابات ہر صورت پرامن منعقد ہوں، انتخابات کا کسی صورت التوا ملک کو سیاسی اور انتظامی بحران میں مبتلا کردے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔