فیصلے کا اختیار

ایس نئیر  منگل 9 اپريل 2013
s_nayyar55@yahoo.com

[email protected]

عبداﷲ بن اُبئی تاریخ اسلام کے ابتدائی دور کا ایک دلچسپ اور بڑا عبرت انگیز کردار ہے۔ یہ مدینہ کا ایک با اثر سردار تھا۔ نبی پاکﷺ جب مکہ سے ہجرت فرما کر مدینہ تشریف لائے تو آپ ﷺ کی آمد سے قبل عبداﷲ بن اُبئی کو مدینے کا سردار بنائے جانے کی تمام تیاریاں تکمیل کے آخری مراحل میں تھیں۔ آپ ﷺ کی آمد نے مدینے کا نقشہ ہی بدل دیا۔ انصار مدینہ نے مہاجرین مکہ کے لیے دیدہ و دل فرش راہ کر دیے۔ مواخات کے عمل نے سونے پر سہاگہ کا کام کیا۔

مدینے کے لوگ دیوانہ وار شمع رسالتؐ کی جانب کھنچے چلے آئے۔ اس ماحول میں عبداﷲ بن اُبئی کی متوقع ’’تاجپوشی‘‘ فراموش کر دی گئی۔ ہر شخص کی زبان پر محمد ﷺ کا ہی نام تھا۔ حالات کا یہ رخ دیکھ کر عبداﷲ بن اُبئی بھی کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گیا اور صحابہ کرام کے ساتھ شورائی اجلاسوں میں بھی شریک ہونے لگا لیکن درپردہ خفیہ طور پر مکہ جا کر کفار مکہ کو مسلمانوں کی سرگرمیوں سے آگاہ بھی کرتا رہا۔ تاریخ اسلام کا یہ کردار دراصل منافقت کا ایک استعارہ ہے۔ اس شخص نے بظاہر مسلمان ہوتے ہوئے، مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا۔ آپ ﷺ اس کی حقیقت سے اچھی طرح واقف تھے۔

جنگ احد کے موقعے پر یہ کہتے ہوئے کہ ’’اس کی تجویز نہیں مانی گئی‘‘ یہ عین جنگ پر روانگی کے وقت اپنے 300 ساتھیوں سمیت اسلامی لشکر سے علیحدہ ہو گیا۔ لیکن یہی شخص جب بسترِ مرگ پر پہنچا تو اس نے ایک عجیب و غریب وصیت کی۔ جس کے مطابق اس نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ اس کی نماز جنازہ آنحضرت ﷺ خود پڑھائیں اور کفن کی جگہ اسے نبی پاکﷺ کے کرتے میں لپیٹ کر دفن کیا جائے۔

اس کے انتقال کے بعد جب لوگوں نے نبی پاک ﷺ کو اس کی وصیت اور آخری خواہش سے آگاہ کیا تو نبی پاکﷺ جنھیں خدا نے دونوں جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا تھا، اپنی فطری رحم دلی کے باعث، اس کی آخری خواہش پوری کرنے پر آمادہ ہو گئے۔ سرکار دو عالمﷺ نے عبداﷲ بن اُبئی کو اپنا کرتا بھی عطا کیا اور اس کی نمازِ جنازہ بھی خود پڑھائی۔ لیکن نبی پاکﷺ کو حضرت جبرائیل کے ذریعے بتا دیا گیا کہ ’’اے میرے رسول، بے شک تم نے اپنا کرتا بطور کفن اسے عنایت کر دیا اور اس کی نمازِ جنازہ بھی پڑھا دی، لیکن اس شخص کو اس کے باوجود بھی معافی نہیں ملے گی۔ یہ منافق تھا اور اس کا ٹھکانہ جہنم کا سب سے نچلا گڑھا ہی ہو گا۔‘‘

اس مثال سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص کلمہ پڑھ کر، اور خدا کی وحدانیت کا اقرار کر کے مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتا ہے تو وہ یقیناً مسلمان ہے۔ لیکن وہ کیسا مسلمان ہے؟ اس کا فیصلہ کوئی دوسرا مسلمان نہیں کر سکتا۔ یہ خدا اور اس انسان کے درمیان ایک ایسا معاملہ ہے، جس کے فیصلے کا اختیار صرف اور صرف اسی مالک کائنات کے پاس ہے، جو نیتوں کا حال تک جانتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو نبی پاک ﷺ عبداﷲ بن اُبئی کی اصل حقیقت سے واقف ہونے کے باوجود، اس کی نماز جنازہ کبھی نہ پڑھاتے۔

لیکن ہم بڑے دھڑلے کے ساتھ معمولی معمولی باتوں پر ایک دوسرے کے خلاف کفر کے فتوے جاری کرنے سے قطعاً نہیں ہچکچاتے، ایک دوسرے کو کافر قرار دینا، کسی بھی مسلمان کو دائرہ اسلام سے خارج کر دینا ہمارے معاشرے کا ایک ایسا چلن بن چکا ہے اور یہ معاشرتی برائی اس قدر عام ہو چکی ہے کہ اسے کوئی بھی سنجیدگی سے نہیں لیتا۔ مذہبی رہنماؤں کا یہ حال ہے کہ انھوں نے مسلکی اختلافات کو مذہبی اختلاف کا رنگ دے رکھا ہے۔ کون اچھا مسلمان ہے اور کون سا شخص نہیں ہے؟ اس کا فیصلہ آج کل ہمارے ریٹرننگ افسران کر رہے ہیں۔ لیکن یہ ریٹرننگ افسران جن لوگوں کے بارے میں یہ فیصلے کر رہے ہیں، بڑی حد تک یہی لوگ خود اپنے ساتھ ہونے والے اس ’’سلوک‘‘ کے ذمے دار بھی ہیں۔

آئین پاکستان میں درج آرٹیکل باسٹھ اور تریسٹھ آج کل میڈیا میں گرما گرم بحث کا موضوع بنے ہوئے ہیں۔ آئین پاکستان میں یہ دونوں شقیں ایک ایسے فوجی ڈکٹیٹر نے شامل کیں، جو اسلام کے نام پر ساڑھے گیارہ برس تک اس ملک پر مسلط رہا۔ ہمارے ان ہی سیاستدانوں اور ان قانون سازوں نے جو ہر قیمت پر اقتدار سے لطف اندوز ہونے کی خواہش رکھتے تھے، اس آمر کی خوشنودی کی خاطر یہ دونوں ترامیم آئین میں شامل کیں اور اسے یہ اختیار بھی دیا کہ وہ جب چاہے کروڑوں عوام کا دیا گیا مینڈیٹ اپنے ایک اشارہ ابرو پر خاک میں ملا سکتا ہے۔ وہ آمر خود تو فنا کے گھاٹ اتر گیا، لیکن یہ ترامیم ورثے کے طور پر اپنے جانشینوں کو سونپ گیا۔ ہمارے قانون سازوں کو کم سے کم دو مرتبہ یہ سنہری مواقعے ملے، جب وہ آئین سے یہ متنازع شقیں حذف کر سکتے تھے۔

97 میں میاں نواز شریف نے دو تہائی اکثریت کی طاقت سے 58-2B کو تو ختم کر دیا، لیکن باسٹھ اور تریسٹھ کی شقیں برقرار رکھیں؟ کیوں؟ اس کا جواب تو وہ خود ہی دے سکتے ہیں۔ دوسری مرتبہ پچھلی حکومت نے اٹھارویں ترمیم کے وقت آئین میں تقریباً سو کے قریب ترامیم کیں، تمام جماعتیں سر جوڑ کر بیٹھیں، لیکن باسٹھ اور تریسٹھ کو انھوں نے بالکل نہیں چھیڑا۔ لیکن آج سب رو رہے ہیں، ریٹرننگ افسران کو ہدف تنقید بنایا جا رہا ہے، لیکن وہ تو یہ سب کچھ آئین کے مطابق ہی کر رہے ہیں، جو ان ہی قانون سازوں نے انھیں بنا کر دیا ہے۔ اگر اٹھارویں ترمیم کے وقت باسٹھ اور تریسٹھ کی اصلاح کر کے اسے بہتر بنا لیا جاتا تو آج ہمارے قانون ساز، ان ریٹرننگ افسران کے سامنے کھڑے ہو کر اس امر کا ثبوت پیش نہ کر رہے ہوتے کہ وہ ایک اچھے مسلمان ہیں۔

ہر شخص کو صادق اور امین ہونا چاہیے، خصوصاً ان لوگوں کو، جن پر ملک و قوم کی قیادت کرنے کی ذمے داری عائد کی جاتی ہے۔ میری ذاتی رائے میں ہر شخص سچا اور دیانتدار ہے تاوقتیکہ اس کے خلاف جھوٹ بولنے اور بددیانتی کرنے کا الزام ثابت نہ ہو جائے۔ جعلی ڈگری والا، بینک ڈیفالٹر، ٹیکس نادہندہ دہری شہریت والا اور کرپشن میں ملوث، کسی شخص کو یہ حق حاصل نہیں ہونا چاہیے کہ وہ پارلیمنٹ میں بیٹھ کر قوم کی قیادت کرے، ان الزامات کو ثابت کرنے کے لیے اسٹیٹ بینک، ایف بی آر اور نیب کی چھلنی کافی ہے۔ لیکن کون اچھا مسلمان ہے؟ صوم و صلوٰۃ کا پابند ہے؟ اس کا فیصلہ کرنے کا اختیار کسی بھی انسان کو نہیں دیا جا سکتا۔

یہ ایک مسلمان اور خدا کے درمیان موجود ایسا معاملہ ہے، جس کا فیصلہ صرف خدا ہی کر سکتا ہے۔ ہمیں صرف یہ پرکھنا ہے کہ کوئی بھی امیدوار اﷲ کے ساتھ نہیں بلکہ اﷲ کے بندوں کے ساتھ معاملات میں کیسا ہے؟ صوم و صلوٰۃ کا پابند تو عبداﷲ بن اُبئی بھی تھا۔ وضع قطع بھی مسلمانوں جیسی تھی۔ جب خود نبی پاک ﷺ نے اسے مسلمان تسلیم کر کے، اس کی نماز جنازہ پڑھا دی تو ہم کون ہوتے ہیں کسی کلمہ گو کے بارے میں یہ فیصلہ کرنے والے کہ وہ مسلمان ہے یا نہیں؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔