پاکستان کو بھارتی ہائی کمشنر کا نیا بھاشن

تنویر قیصر شاہد  پير 2 اپريل 2018
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

تقریباً چار ماہ قبل اجے بساریہ پاکستان میں نئے بھارتی ہائی کمشنر متعین ہُوئے تھے۔ انھوں نے گوتم بمبا والے بھارتی ہائی کمشنر کی جگہ سنبھالی تھی۔ اجے بساریہ سے پہلے24بھارتی ہائی کمشنرز پاکستان میں کام کر چکے ہیں لیکن جب سے یہ صاحب آئے ہیں، پاک بھارت تعلقات میں کشیدگی بڑھی ہے۔

اجے بساریہ کو عین اُس وقت مارچ پریڈ میں خصوصی طور پر بلایا گیا جب اِسی (7اور 23) مارچ2018ء کے دوران نئی دہلی میں پاکستانی سفارتکاروں اور اُن کے بال بچوں کو،بھارتی حکام کے اشارے پر، 50مرتبہ ہراساں کیا گیا۔ یعنی 17دنوں کے دوران بھارت نے ہمارے سفارتکاروں کی 50مرتبہ توہین کی ہے۔ابھی یہ زخم ہرا ہی تھا کہ اجے بساریہ ’’صاحب‘‘ کو لاہورکی ایک تاجر تنظیم نے بلالیا۔

مسٹر بساریہ نے چار دن قبل، 30مارچ کو لاہوری تاجروں سے خطاب کرتے ہُوئے فرمایا: ’’پاکستان اور بھارت کو ماضی کا بوجھ اُتار کر نئے سرے سے باہمی تعلقات استوار کرنے چاہئیں۔ ہم اچھے تعلقات بنا کر باہمی تجارت کو تین ارب ڈالر سے بڑھا کر تیس ارب ڈالر تک لے جا سکتے ہیں۔‘‘

اجے بساریہ کو خبر ہونی چاہیے کہ پاکستان نے تو ہمیشہ بھارت سے اچھے تعلقات استوار کرنے کی مسلسل کوشش کی ہے لیکن یہ بھارت ہے، اور وہ بھی مودی کا بھارت، جس نے پچھلے چار سال کے دوران پاکستان کی ہر دوستی اور تعاون کی پیشکش مسترد کر دی ہے۔ جس روز اجے بساریہ کا مذکورہ بیان شایع ہُوا ہے، اُسی روز پاکستان کے مشیرِقومی سلامتی، ناصر خان جنجوعہ، کا بھارتی بد عہدی اور بدنیتی کو عیاں کرتا ایک بیان شایع ہُوا۔

ناصر جنجوعہ نے پاکستان میں فرانسیسی سفیر سے ملاقات کے دوران کہا: ’’بھارت نے مذاکرات سے مسلسل انکار کرکے دو طرفہ جذبے کو نقصان پہنچایا ہے۔ پاکستان سے بھارت کے منہ موڑنے سے ہم کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکتے۔‘‘ مطلب یہ ہے کہ پاکستان تو دوستی کے لیے بھارتی دروازے پر بار بار دستک دے رہا ہے لیکن بھارت اپنی طرف لگی کُنڈی ہی نہیں کھول رہا۔

تو پھر یہ مسٹر اجے بساریہ کس کو بھاشن دے رہے ہیں؟ کیا محض دکھاوا؟ ساری دنیا جانتی ہے کہ بھارت جس طرح پاکستان کے خلاف آبی جارحیتیں کررہا ہے، کیا اِن بھارتی وارداتوں کو کوئی بھی پاکستانی فراموش کر سکتا ہے؟خواجہ معین الدین چشتی علیہ رحمہ کے عرس میں شریک ہونے والے درجنوں پاکستانیوں کے ویزے منسوخ کرکے بھارت نے ایک اور منفی اقدام ہے۔اور مسٹربساریہ کیا نہیں جانتے کہ پاکستانی فنکاروں سے بھارت میں کتنا گھناؤنا سلوک کیا جاتا ہے؟

بھارتی ہائی کمشنر اجے بساریہ صاحب یہ تو کہتے ہیں کہ ’’پاکستان اور بھارت ماضی کا بوجھ اتار دیں‘‘ لیکن موصوف یہ نہیں بتاتے کہ ’’ماضی کا بوجھ‘‘ دراصل ہے کیا؟ مقبوضہ کشمیر میں گزشتہ سات عشروں سے بھارت جو مظالم ڈھا تا آرہا ہے، وہ دراصل بھارتی ضمیر پر بوجھ بن چکا ہے۔ بھارتی اسٹیبلشمنٹ، بھارتی خفیہ ایجنسیوں اور بھارتی فوج نے کشمیریوں کا جس وحشت اور دہشت سے استحصال کیا ہے، اِن مجرمانہ سر گرمیوں نے بھارتی دماغوں اور ضمیروں پر بوجھ ڈال رکھا ہے۔

ڈھٹائی اور ضِد میں مگر اس بوجھ کو اتارنے کی وہ ہمت نہیں رکھتے۔ یوں بھارت عالمی ضمیر کے سامنے مجرم بنے کھڑا ہے۔اِس سے بڑا جرم اور ظلم اور کیا ہو سکتا ہے کہ بھارتی قابض فوجوں نے (تین دن پہلے) پورے دو برسوں کے بعد کشمیری قیادت کو گھروں اور جیلوں میں قید کرنے کے بعد ’’رہائی کا پروانہ‘‘ دیا ہے۔ اور پورے آٹھ سال بعد مقبوضہ کشمیر کے ممتاز ترین اور بزرگ ترین حریت پسندلیڈر جناب سید علی گیلانی کو حیدر پورہ کی مسجد میں نمازِ جمعہ ادا کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔

مقبوضہ کشمیر کے میر واعظ عمر فاروق صاحب کو بھی پورے دو سال بعد سرینگر کی تاریخی جامعہ مسجد میں نمازِ جمعہ پڑھانے اور خطبہ دینے کی بھارتی حکام نے اجازت دی ہے۔ کشمیری عوام اور کشمیری قیادت کیونکر اِس ظلم کو بھول سکتے ہیں؟ بھارتی حکمران اس ظلم کو ماضی کا بوجھ سمجھ کر اپنے ضمیر سے اتارنا بھی چاہیں تو نہیں اتار سکتے۔ کیا بھارتی ہائی کمشنر، اجے بساریہ، کی نظر کبھی اِدھر بھی اُٹھی ہے؟

مقبوضہ کشمیر میں پولیس کے سربراہ سوشیل پال وید نے 30 مارچ2018ء کو ’’کمال فیاضی‘‘ سے یہ اعلان کیا: ’’سید علی گیلانی، میر واعظ عمرفاروق اور یاسین ملک پر (دوسال بعد) عائد پابندیاں اٹھا لی گئی ہیں۔ اب وہ جہاں چاہیں، آ جا سکتے ہیں۔ امید ہے یہ قائدین صحیح راستہ اختیار کریں گے۔‘‘

کشمیری میڈیا نے سوشیل پال وید، مقبوضہ کشمیر کی کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی اور بھارتی اسٹیبلشمنٹ کا، اِس اعلان کے پس منظر میں، خوب مذاق اڑایا ہے اور بجا اڑایا ہے۔ یعنی مقبوضہ کشمیر کا ایک ہندو پولیس افسر اب یہ طے کرے گا کہ علی گیلانی، میر واعظ عمر اور یاسین ملک ایسے جہاندیدہ اور سرد و گرم چشیدہ مسلمان حریت پسند قائدین ’’صحیح راستہ‘‘ اختیار کریں گے؟ ؛ چنانچہ بزرگ علی گیلانی اور نوجوان جذبوں کے حامل میر واعظ عمر فاروق نے نہائیت مستحسن الفاظ میں اپنے اپنے خطبات میں بھارتی غاصب حکام اور اُن کے چیلوں چانٹوں کو بروقت للکارا ہے۔

اورغاصب بھارت کو یہ بھی یاد دلایا ہے کہ کشمیری حریت پسند کبھی بھی ’’صحیح راستے‘‘ کے انتخاب کے لیے بھارت کے محتاج نہیں رہے ہیں۔ اگر کشمیری ’’صحیح راستے‘‘ کے انتخاب میں بھارتی اسٹیبلشمنٹ کی طرف دیکھ رہے ہوتے تو مقبوضہ کشمیر میں کبھی بھی میر واعظ یوسف شاہ،چوہدری غلام عباس،صوفی محمد اکبر، امان اللہ خان، مقبول بٹ شہید، میر واعظ مولوی فاروق، افضل گرو شہید ایسے عظیم اور حریت پسند سر نہ اٹھاتے۔ صحیح اور درست راستہ وہی ہے جو کشمیری نوجوان مقبوضہ کشمیر کو بھارتی استبداد سے نجات دلانے کے لیے دیوانہ وار اختیار کررہے ہیں۔

ان جوانوں میں مقبوضہ کشمیر میں تحریکِ حریت کے نئے اور پُرعزم لیڈر جناب محمداشرف صحرائی کے بلند قامت صاحبزادے ، جنید اشرف، بھی شامل ہیں۔ تین دن پہلے ہی اشرف صحرائی نے ببانگِ دہل سری نگر میں سب کو بتایا ہے : ہاں، میرا بیٹا جنید اشرف کشمیری جہادی تحریک (حزب المجاہدین) میں شامل ہو چکا ہے۔ انھوں نے کہا: ’’میرا یہ بیٹاایم بی اے کی ڈگری رکھتا ہے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے۔ وہ سوچ سمجھ کر ہی اس تحریک میں شامل ہُوا ہے۔

قابض بھارتی حکام نے اُسے اپنے ٹاچر سیلوں میں بے پناہ تشدد کا ہدف بھی تو بنا رکھا تھا۔‘‘ کیا پاکستان میں بھارتی ہائی کمشنر اجے بساریہ ظلم وستم کی ان داستانوں سے باخبر ہیں؟ اگر ہیں تو وہ کس منہ سے پاکستان کو یہ بھاشن دے رہے ہیں کہ پاکستان و بھارت کو ماضی کے بوجھ اتار پھینکنے چاہئیں؟ ایسے میں مقبوضہ کشمیر کے ایک کٹر ہندو لیڈر اشوک کَول ، جو کشمیر میں بی جے پی کا سیکریٹری بھی ہے، نے ایک بیان دے کر دراصل مقبوضہ کشمیر بارے نئی دہلی حکام کی بدنیتی کو بھی ظاہر کیا ہے۔

اشوک نے پرسوں کہا:’’یہ جو کشمیری علیحدگی پسندوں کو رہا کیا گیا ہے، یہ دراصل نئی دہلی کا CBM ہے۔ رہا ہونے والوں کو احتیاط برتنا ہوگی۔‘‘سچ کہا ہے کسی نے کہ بی جے پی کی دُم کبھی سیدھی نہیں ہو سکتی۔ کیا اجے بساریہ ’’صاحب‘‘اِس قطع کے لوگوں کے منہ میں لگام ڈالنے کے لیے بھارتی حکام کو کوئی مشورہ دے سکتے ہیں؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔