قصہ ایک شہر کا

مقتدا منصور  پير 2 اپريل 2018
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

دیگر ساتھی صحافیوں کی طرح ہم بھی دن بھرکی مختلف سرگرمیوں سے وقت نکال دوپہر کا کھانا کھانے پریس کلب پہنچ جاتے ہیں۔ جہاں ایک سے دو گھنٹے ہم خیال دوستوں سے مختلف موضوعات پر گفتگو رہتی ہے۔ چند احباب کا ہمارا ایک گروپ جو اکثر ظہرانے پر ساتھ ہوتا ہے، اس میں پیرزادہ سلمان خصوصی توجہ کا مرکز ہوتے ہیں۔

سلمان ہم سے عمر میں خاصے چھوٹے ہیں لیکن بقول شیخ سعدی ’’بزرگی از خرد نہ کہ ماہ وسال‘‘، وہ اپنی علمیت اور پختہ فکری رجحانات کے باعث ہمیں دل وجان سے عزیز ہیں۔ جہاں انگریزی کے عمدہ وقویع نگار ہیں، وہیں اردو اور انگریزی کے اچھے شاعر بھی ہیں۔ان کے اجداد کا تعلق بھارتی ریاست ہریانہ کے شہر پانی پت سے ہے، جو ایک تاریخ ساز شہر ہے۔ ایک روز دوران گفتگو پانی پت کا تذکرہ نکل آیا اور بات اس شہر کی تاریخی حیثیت سے نکل کر ان خاندانوں تک جاپہنچی، جنھوں نے علم وادب، تاریخ اور فنون لطیفہ میں کارہائے نمایاں سرانجام دیے۔

پانی پت دہلی کے شمال میں 90 کلومیٹر کی مسافت پر کوئی ایک ملین آبادی کا شہر اور 1992ء سے ضلع ہے۔ یہ کبھی چھوٹا سا قصبہ اور کرنال ضلع کی تحصیل ہوا کرتا تھا۔ اس کہ وجہ شہرت یہاں لڑی جانے والی تین بڑی جنگیں ہیں، جنھوں نے متحدہ ہندوستان کی تاریخ پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ پہلی جنگ 1526ء میں وسط ایشیا سے آنے والے حملہ آور ظہیرالدین بابر کی ابراہیم لودھی کے ساتھ ہوئی۔ جس کے نتیجے میں شمالی ہند سے پٹھانوں کی حکومت کا خاتمہ اور مغلوں کی حکمرانی کا آغاز ہوا۔

دوسری جنگ 1556ء میں بابر کے پوتے اکبر کی شمالی ہند کے حکمران ہیم چندر وکرما دتہ کے ساتھ ہوئی، جس میں اکبر غالب آیا اور دہلی پر مغلوں کا ایک بار پھر مکمل قبضہ ہوگیا۔ تیسری جنگ 1761ء میں مرہٹوں اور احمدشاہ درانی کی قیادت میں افغان اور بلوچ فوجوں کے درمیان ہوئی۔ احمد شاہ درانی نے پشاور سے لاہور اور دہلی تک راستے میں آنے والے ہر شہر کو تاراج کیا اور فتح کرنے کے بعد دہلی کو جی بھر کر لوٹا، جو ایک الگ داستان ہے۔

ہریانہ اصل میں راجپوتوں کی ریاست ہے۔ اس حوالے سے پانی پت بھی راجپوتوں کا شہر ہے۔ راجپوت، راجپوتانہ (راجستھان) سے شمال میں ہریانہ تک، مشرق میں مغربی یوپی اور شمال مغرب میں پنجاب تک پھیلے ہوئے ہیں۔ راجپوت برصغیر کا بہادر اور جری نسلی گروہ ہے۔ ہندوستان کے ہر مسلمانوں حکمران نے اپنی فوج میں ترک اور افغان فوجیوں کے ساتھ راجپوتوں کو بھی اعلیٰ مناصب عطا کیے تھے۔ مان سنگھ اکبر کی فوج کا سالار ہونے کے ساتھ اس کا سالا بھی تھا۔

اسلام کی آمد کے بعد عرب، ترک، افغان، بلوچ اور ایرانی قبائل بھی پانی پت سمیت قرب و جوار کے شہروں اور دیہات میں بڑی تعداد میں آباد ہوگئے۔ کہا جاتا ہے کہ مسلمان گھرانوں کی اکثریت ان فوجیوں کی اولاد ہیں، جو جنگوں کے بعد اس مردم خیز خطے میں مستقلاً آباد ہوگئے تھے۔ جب کہ علما، فضلا اور صوفیا نے بھی اس شہر کو اپنا مسکن بنایا۔ پانی پت کے خواجگان صوفیوں کے اسی سلسلہ کا حصہ ہیں۔

ریاست ہریانہ میں جید علما وفضلا پیدا ہوئے۔ جن میں ترک عالم دین اور مورخ ضیاالدین برنی شامل ہے، جو کرنال میں پیدا ہوا تھا۔ اس نے ہندوستان کی تغلق دور تک کی تاریخ لکھی تھی، جو خاصی مستند تصور کی جاتی ہے۔ معروف عالم دین احمد سرہندی (المعروف مجدد الف ثانی) دریائے بیاس کے مشرقی کنارے پر آباد شہر سرہند سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ وہی مجدد تھے، جنھوں نے اکبر کے دین الٰہی کو چیلنج کیا تھا اور اکبر کے بعد جہانگیر کے دور میں بھی جیل میں رہے اور وہیں وفات فرمائی۔

اب جہاں تک پانی پت کا تعلق ہے تو اس چھوٹے سے شہر نے اتر پردیش کے شہر امروہہ کی طرح علم و فضل کے ان گنت گوہر نایاب پیدا کیے۔ ویسے تو پانی پت کے کئی گھرانوں نے شہرت پائی، لیکن خاندان خواجگان اور نواب مصطفیٰ خان شیفتہ کے افغان خاندان کو شہرت دوام حاصل ہوئی۔ ان کے بزرگوں کی جاگیر گڑگاؤں (ہریانہ) سے ضلع میرٹھ (اتر پردیش) تک پھیلی ہوئی تھی۔ ان کی چار نواسیاں تھیں۔

بڑی نواسی پاکستانی سیاستدان احمد رضا قصوری کی والدہ (نواب محمد احمد خان قصوری کی بیگم) تھیں۔ سب سے چھوٹی نواسی جمیل الدین عالی کی بیگم تھیں۔ عالی جی کا تعلق دہلی سے ملحق ہریانہ کی ایک چھوٹی سی ریاست لوہارو سے تھا۔ عالی جی اردو کے مشہور شاعر اور نثر نگار تھے۔ وہ برسہا برس تک انجمن ترقی اردو کے سیکریٹری کے عہدے پر فائز رہے۔ ان کی بھتیجی کی شادی میاں محمود علی قصوری کے ساتھ ہوئی تھی، جن کے فرزند سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری ہیں۔ جب کہ سابق کمشنر کراچی جی اے مدنی شیفتہؔ مرحوم کے پوتے تھے۔

پانی پت کے خواجگان نے اس خطے میں علم وفضل، شعروادب کو فروغ دینے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ اس خاندان نے بڑے نامی گرامی ادبا، شاعر اور دانشور پیدا کیے۔ مولانا الطاف حسین حالی ان میں سرفہرست ہیں، جو غالبؔ کے شاگرد اور سرسید کے دست راست تھے، لیکن خود بلند پایہ شاعر اور تاریخ دان تھے۔ ان کے نواسوں میں خواجہ احمد عباس نے افسانہ نگاری اور فلمسازی میں عالمگیر شہریت پائی۔ انھیں ماسکو فلم فیئر میں کئی بار ایوارڈز سے نوازا گیا۔

سات ہندوستانی ان کی معرکہ آرا فلم تھی، جس میں انھوں نے پہلی بار امیتابھ بچن کو متعارف کرایا۔ دوسرے نواسے ڈاکٹر غلام السیدین تھے۔ جو آزاد ہندوستان کے پہلے سیکریٹری تعلیم تھے۔ انھوں نے مولانا ابوالکلام آزاد کی زیر نگرانی ہندوستان کی پہلی تعلیمی پالیسی تشکیل دی۔ وہ اقبالیات کے شارح تسلیم کیے جاتے ہیں۔ انھوں نے ادب اور سماجیات پر کئی کتابیں تحریر کیں۔

انھی خواجگان میں سے ہمارے عہد کی چند نامور شخصیات بھی ہیں۔ ڈاکٹر مبشر حسن پہلے پاکستانی ہیں جنھوں نے سول انجینئرنگ میں Ph.D کیا ہے۔ وہ پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی اراکین میں سے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی تشکیل انھی کے گھر پر ہوئی تھی۔ بھٹو مرحوم کی کابینہ میں خزانہ اور منصوبہ بندی کے وزیر رہے۔ ان کے بڑے بھائی ڈاکٹر شبر حسن نے 1941ء میں کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور سے طب میں سند حاصل کرنے کے بعد بیرون ملک سے اسی شعبہ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ وہ طویل عرصہ اپنی مادر علمی سے بطور استاد اور پرنسپل وابستہ رہے۔ اس کے بعد پنجاب حکومت کے محکمہ صحت میں اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے۔ دو برس قبل ان کا انتقال ہوا۔

اسی خانوادے میں دیگر معروف شخصیات بھی پیدا ہوئیں، جن میں ماہر نفسیات ڈاکٹر ذکی حسن اور پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ صحافت کے لائق وفائق استاد، معروف دانشور اور کئی کتابوں کے مصنف ڈاکٹر مہدی حسن شامل ہیں۔ یہ دونوں صاحبان ڈاکٹر مبشر حسن کے کزن ہیں۔

اسی طرح عالمی شہرت یافتہ ٹاؤن پلانر عارف حسن اور ان کی بہن سابق سفارتکار معصومہ حسن ڈاکٹر مبشر حسن کے کزن (پھوپی زاد) ہیں۔ معصومہ حسن سابق طالب علم رہنما اور مزدور کسان پارٹی کے سابق سربراہ فتحیاب علی خان مرحوم کی بیوہ ہیں۔ہم نے کوشش کی ہے کہ تاریخ کے اس نامی گرامی شہر اور اس کی نادر روزگار ہستیوں کے بارے میں اپنے محدود علم کی روشنی میں اختصار کے ساتھ یہ چند سطور قارئین کی خدمت میں پیش کریں۔ اگر کہیں کوئی غلطی رہ گئی ہو تو ضرور مطلع کریں، تاکہ آیندہ اس کی درستی کی جاسکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔