ملالہ پاکستان کا خوبصورت چہرہ، کاش! پاکستانی سمجھیں، والد

ایکسپریس نیوز  پير 2 اپريل 2018
بیٹی نے کتابکرسٹینا لیمب سے مل کر لکھی کیونکہ پاکستانی رائٹر نے انکار کردیا تھا، والد۔ فوٹو: فائل

بیٹی نے کتابکرسٹینا لیمب سے مل کر لکھی کیونکہ پاکستانی رائٹر نے انکار کردیا تھا، والد۔ فوٹو: فائل

اسلام آباد: ملالہ یوسفزئی کے والد ضیاء الدین یوسف زئی نے کہا ہے  تنقید کو صبر سے برداشت کرتے ہیں کیونکہ ہمارا مشن سچا اور بڑا ہے۔

ایکسپریس نیوز کے اینکر رحمان اظہر سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ضیاء الدین یوسف زئی نے کہا پاکستان میں بہت تبدیلی آچکی ہے، امن قائم اور سکولوں میں بچوں کی تعداد میں بڑھی ہے سوات ہم 3 گھنٹے کے لئے گئے تھے مگر یہ ضرور کہنا چاہتا ہوں اگر اسلاآباد سے واپس چلے جاتے تو ہاف ہوم ہوتا اور سوات جانا فل ہوم ہے، ملالہ کے کمرے میں گئے اس کی ٹرافیاں سکیچز دیکھے۔

پاکستان آنے کا فیصلہ پوری فیملی کا فیصلہ تھا۔ ہمیں خوف نہیں تھا اگر ہوتا تو نہ آتے۔ ہمیں پتا تھا کہ حکومت پاکستان سپورٹ کررہی ہے۔ یہاں آکر خلاف توقع بہت زبردست رسپانس دیکھ رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ملالہ کے خلاف نفرت کے غبارے میں بہت ہوا بھر دی گئی تھی ، مگر جیسے ہی ہم نے یہاں لینڈ کیا اس غبارے سے ہوا نکلی گئی۔ یہاں ہم لوگوں سے ملے تو اندازہ ہوا بہت محبت کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا ملالہ پر ہونے والی تنقید کے حوالے سے ہم صرف صبر کرتے ہیں اور جانتے ہیں کہ سچائی ایک دن خود ثابت ہوجاتی ہے، ملالہ چاہتی ہے ہر بچہ سکول جائے، پاکستان میں امن ہو، مرد و عورت برابر ہوں اور دونوں کو ایک جیسے مواقع ملے۔اگر یہ سازش ہے تو اچھی سازش ہے۔ملالہ کے خلاف منفی کمنٹس آتے ہیں ملالہ منفی کمنٹس نہیں دیتی۔ وہ خود پسند نہیں ہے اس کا پختہ عقیدہ ہے کہ لوگوں کو حق ہے کہ وہ آپ کے بارے میں رائے قائم کریں۔

ہم کیوں خدا بننا چاہتے ہیں کہ ہمارے خلاف کوئی بات نہ کرے۔آپ ایسے لوگوں کو کیسے سمجھا سکتے ہیں مارٹش شلز کی تصویر پر لائن کھینچ کر کہیں کہ یہ سلمان رشدی ہے اور ملالہ اس کے ساتھ ہے۔ اب اگر کسی کے دل میں تعصب ہو اور وہ کسی کو بدنام کرنا چاہے تو آپ اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ آپ دنیا کے کسی ملک میں جائیں اور وہاں کے طلباء اور دانشوروں سے پوچھیں ملالہ کون ہے؟ وہ کہیں گے ملالہ وہ لڑکی ہے جو بچوں کی تعلیم اور خواتین کی برابری کی بات کرتی ہے۔

اگر کسی نے کہا ملالہ پاکستان مخالف یا اسلام مخالف ہے تو میں اپنا مشن چھوڑ دوں گا۔ ملالہ پاکستان کا انتہائی خوبصورت چہرہ ہے کاش پاکستانی اسے سمجھ سکیں۔ ملالہ نے وزیر اعظم بننے کی خواہش کا اظہار بھی چھوڑ دیا ہے۔ ملالہ کہتی ہے ہم نے اپنی آدھی آبادی کو جبری گھر وں میں بند کیا ہوا ہے اور اگر ہم باوقار قوم بننا چاہتے ہیں تو ہمیں انھیں ملکی ترقی میں شامل کرنا ہوگا،اگر یہ بدنامی کا باعث ہے تو یہ اچھی بدنامی ہے۔ اگر دو سو کروڑ لوگ بھی یہ کہیں گے کہ ہم امن اور برابری پر یقین نہیں رکھتے تو بھی ہم اپنا موقف بیان کریں گے۔

ملالہ فنڈ سے ہم سب سے زیادہ کام پاکستان میں کررہے ہیں۔ ہم نے پاکستان مین 6ملین ڈالر سے زیادہ کے منصوبے بنائے ہیں۔ مگر ہم تشہیر نہیں کرتے۔ ملالہ فنڈ سے سکول قائم کیا اور ایک اور پروجیکٹ کیا شانگلہ میں۔ دو اعشاریہ پانچ ملین ڈالر کا پروجیکٹ مکمل ہوگیا۔ ان بچیوں کے لئے جہاں 7لاکھ کی آبادی میں ایسا ایک بھی سکول نہیں تھا۔ سکول شروع ہوچکاہے اور اب اس میں ایسی بچیاں جاتی ہیں جو انتہائی غریب ہیں۔ ملالہ کی کتاب ملالہ اور کرسٹینا لیمب کی جانب سے مشترکہ طور پر لکھی گئی ہے۔

میرا خیال اس میں کوئی ایسی بات نہیں جس پر اعتراض کیا جائے۔ جو تنقید میں نے دیکھی ہے وہ اوٹ آف کنٹسٹ ہے۔ پہلے جو ایڈیشن تھا اس میں نبی پاک ؐ کے نام کے ساتھ ﷺ لکھنا بھول گئے تھے۔وہ تو ہائی لائیٹ ہوگیا مگر ملالہ اور اس کی والدہ کی خانہ کعبہ میں تصویر اور روتے ہوئے دعائیں مانگنے کی تصاویر پر بات نہیں کی گئی۔ ہم میں سے کچھ لوگ حب الوطنی کرتے نہیں ہیں بکتے ہیں۔ اس کتاب کا اردو میں ترجمہ آچکا ہے۔ لوگ اس کو پڑھ لیں۔ کتاب کو پڑھے بغیر لوگ سنی سنائی باتوں کے ذریعے متنازعہ بیانیہ دیتے ہیں۔

کرسٹینا لیمپ کا انتخاب اس لئے کیا گیا کہ انھیں پاکستان کے بارے میں اور پاکستانی سیاست کے بارے میں بہت معلومات تھیں۔ ہم نے پاکستان کے ایک معروف رائٹر سے کتاب لکھنے کے لئے رابطہ کیا مگر انھوں نے انکار کردیا۔میں نے ایک مضمون لکھا تھا جو میرا موقف بھی ہے جس میںمیں نے وزیر اعظم سے درخواست کی تھی کہ نوجوان چاہے وہ قبائل کے ہوں ، انھیں سننا بہت ضروری ہے ، جب آپ لوگوں کو سنتے نہیں انھیں سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے تو یہ فاصلہ بڑھتے ہیں۔

ملالہ سے مختلف موضوعات پر اختلافات بھی ہوتے رہتے ہیں۔ ملالہ میری بیٹی بھی ہے اور لیڈر بھی۔ کئی معاملات پر اس کا ویژن مجھے سے بہت آگے ہے۔ جس طرح ہم اپنے بیٹوں پر اعتبار کرتے ہیں اسی طرح بیٹیوں پر بھی اعتبار کرنا چاہئے۔ بیٹیاں بھی لیڈر بن سکتی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔