روشنی کے نام پر آپس میں دست و گریباں سائے

عماد ظفر  منگل 3 اپريل 2018
روشنی کا نام لے کر لڑ رہے ہیں...اس طرف بھی کچھ سائے، اس طرف بھی کچھ سائے۔ فوٹو: انٹرنیٹ

روشنی کا نام لے کر لڑ رہے ہیں...اس طرف بھی کچھ سائے، اس طرف بھی کچھ سائے۔ فوٹو: انٹرنیٹ

مفروضوں اور ان دیکھی سازشوں کا تصور کرکے شوقِ تجسس کی تسکین کرنا گزشتہ صدی کے اوائل تک انسانی فطرت کا حصہ سمجھا جاتا تھا۔ اس دور میں دنیا میں فاصلے سمٹے نہیں تھے اور ابلاغ، مواصلات کے ذرائع بھی محدود تھے۔ چنانچہ ان دیکھی مافوق الفطرت قوتوں، سازشوں اور ازخود گھڑی روایات پر من و عن ایمان لاتے ہوئے انسان باآسانی کسی بھی تھیوری یا قصے کو سچ مان لیتے . وقت بدلا اور انسان نے فہم و شعور کی منزلیں طے کرتے ہوئے سائنس، ٹیکنالوجی، فلسفہ اور دیگر علوم کی مدد سے ترقی کی منزلیں طے کرنا شروع کیں۔ ذرائع ابلاغ، مواصلات کے نظام اور سائنسی ایجادات کے بعد سچ اور جھوٹ میں تمیز کرنا نسبتاً آسان ہو گیا۔

انسان نے ٹیکنالوجی کے انقلاب کی بدولت فاصلوں کو مٹا کر ایک نئی عالمی تہذیب کی بنیاد رکھ دی۔ انٹرنیٹ، سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے دنیا بھر میں برپا ہونے والے حالات و واقعات پل بھر میں زمین پر بسنے والے تمام کونوں میں پھیلنے لگے۔ ادھر سائنس، نفسیات، معاشیات اور دیگر علوم میں ترقی کی بدولت انسان نے عقل و شعور پر بندھی پٹی کو اتار پھینکا اور زمین سے نکل کر کائنات کے دیگر سیاروں تک جا پہنچا۔ پراپیگنڈے اور سچ میں تمیز کرنا ایک کامن سینس والے فرد کےلیے نسبتاً آسان ہو گیا۔ البتہ جو معاشرے اس دوڑ میں پیچھے رہ گئے یا جہاں نئی عالمی تہذیب کو قبول کرتے ہوئے علوم و فنون اور جدید افکار کو قبول کرنے سے انکار کر دیا گیا وہاں کچھ بھی نہیں بدلا۔

ان معاشروں میں زندگی مجموعی طور پر جدید اور تہذیب یافتہ دنیا سے کئی صدیوں پہلے کی تہذیب و تمدن میں مقید ہے۔ دنیا کی ترقی اور ایجادات میں کسی بھی طور پر کوئی قابل ذکر حصہ نہ ڈال پانے اور شعور و ادراک کی نئی جدتوں کو رد کرنے کی وجہ سے ان معاشروں میں جہالت اور پسماندگی کی بہتات ہوگئی اور ان معاشروں کو تیسری دنیا کے لقب سے نوازا گیا۔ بدقسمتی سے ہمارا سماج بھی تیسری دنیا کا ہی ایک حصہ کہلاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہاں حقائق کو منطق یا لٹمس ٹیسٹ سے پرکھنے کے بجائے من پسند مفروضوں اور اپنے اپنے حصے کے سود مند نقطہ نظر کو ہی حرف آخر مان کر جینے اور مرنے مارنے کی رسم عام ہے۔

ہمارے ہاں سچ یا حقیقت اس شے کا نام ہے جو ہمارے نظریات، عقائد یا سوچ کے انداز سے مطابقت رکھے۔ ہر وہ بات جو ہمارے سوچنے کے انداز سے مختلف ہووہ ہمارے لیے جھوٹ اور فسانہ ہوتی ہے۔ چونکہ مجموعی طور پر معاشرے میں دلائل کی منطق کے بجائے جذباتی یا فرسودہ خیالات و نظریات کو پسندیدگی کی سند حاصل ہوتی ہے، اس لیے ہمارے ہاں باآسانی جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ میں بدل کر پیش کر دیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ہمارے وطن عزیز میں آج بھی اللہ کے فنضل و کرم سے ایسے پڑھے لکھے دماغ موجود ہیں جو بچوں کے پولیو کے قطروں سے لیکر دودھ اور خوراک میں ملاوٹ کو کفار کی سازش قرار دیتے ہیں۔

ہمارے ہاں ایسے افراد کی بھی بہتات ہے جو ناسا کو جھوٹ کا پلندہ قرار دیتے ہیں اور ابھی تک اس بحث میں الجھے ہیں کہ کیا واقعی انسان چاند تک پہنچا یا نہیں۔ ایسے افراد بھی ہیں جو ڈی این اے ٹیسٹ اور اعضا کی پیوندکاری تک کو ناجائز سمجھتے ہیں۔ زینب قتل کیس ہو یا انتخابات میں دھاندلی اور پانامہ کا سیاسی مقدمہ، ذاتی زندگی کے مسائل ہوں یا اجتماعی قومی مسائل، ہمیں بحیثیت معاشرہ اپنی کوتاہیاں کسی اور کے ذمے ڈالنے کےلیے کوئی نہ کوئی قربانی کا بکرا درکار ہوتا ہے۔

مثال کے طور پر ذاتی زندگی کی ناکامیاں یا مشکل وقت ہمارے نزدیک یا تو کسی دشمن کے جادو ٹونے کی وجہ سے آتا ہے، یا پھر اس کی وجہ حکمران ہوتے ہیں۔ انکل سام یعنی امریکہ ہمارے نزدیک ہمارا سب سے بڑا دشمن ہے، لیکن ہم ایک گرین کارڈ یا ایچ ون ویزہ کے حصول کےلیے پورا دن قطاروں میں لگ کر امریکہ اور دیگر کفار ممالک میں بسنے کی دعائیں گڑگڑا کر مانگتے ہیں۔ انکل سام سے امداد بھی ہمیں قبول ہے، لیکن اس کی تباہی و بربادی کی دعائیں بھی مانگنا ہمارا فرض ہے۔

سقوط ڈھاکہ کی وجہ ہمارا دشمن تھا اور شیخ مجیب ایک غدار تھا۔ یہ الگ بات کہ غدار شیخ مجیب تقسیم سے پہلے ڈھاکہ سے کلکتہ سائیکل پر سفر طے کرکے قائداعظم محمد علی جناح کی تقاریر سننے آتا تھا۔ ایوب خان کے خلاف الیکشن کے دوران محترمہ فاطمہ جناح کا پولنگ ایجنٹ بھی یہی شخص تھا، اور اسی غدار نے 1970 کے عام انتخابات میں مشرقی پاکستان سے تقریباً تمام نشستیں جیت کر وزارت عظمیٰ کا منصب اپنے نام کر لیا تھا، لیکن اس غدار کو ادھر ہم ادھر تم کا نعرہ لگا کر ہم نے سقوط ڈھاکہ کروا لیا۔

ہمارے ہاں تمام جرائم اور مسائل کی جڑ بھی صرف اور صرف سیاستدانوں، بیرونی دنیا اور عریانی و فحاشی کو سمجھا جاتا ہے۔ اور پر لطف بات یہ ہے کہ جعلی ادوایات بیچنے والے سے لے کر دو نمبر اور چوری کے موبائل بیچنے والے، زمینوں پر قبضہ کرنے والے، ذخیرہ اندوز، اشیائے صرف میں ملاوٹ کرنے والے، رشوت، چوری چھپے کمیشن یا ناجائز منافع کمانے والے، میرٹ کی دھجیاں بکھیرنے والے، عقائد کے نام ہر لوگوں کو لوٹنے اور گمراہ کرنے والے حضرات بھی زور و شور سے مللک سے کرپشن، بے حیائی اور لوٹ کھسوٹ کے خاتمے کے نعرے مارتے نہ صرف سراپا احتجاج بنے رہتے ہیں بلکہ کمال ڈھٹائی سے حکمرانوں کو اس کا مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔ گویا کہ جیسے حکمران ان میں سے ہر شخص کے پاس آکر انہیں اپنی اپنی بساط کے مطابق دھونس دھاندلی کرنے کےلیے زبردستی مجبور کرتے ہیں۔

معاشرے کی اس نفسیات کو مد نظر رکھتے ہوئے کوئی بھی طاقتور یا بااثر فرد، گروہ یا ادارہ باآسانی جذبات کو بھڑکاتے اور سازشی تھیوریاں پیش کرکے اذہان کو پراہیگنڈے کے تابع کر لیتا ہے۔ آپ زینب کے قتل کی مثال لے لیجِیے۔ اس بچی کا قاتل پکڑا گیا اور اس کا ڈی این اے ٹیسٹ بھی زینب اور دیگر مقتول بچیوں سے مل گیا، لیکن ہماری خود ساختہ کہانیاں سننے کی عادت نے اس بچی کا بھی تماشہ بنا کر رکھ دیا۔ آئے روز نئی کہانیاں سامنے لائی جاتی ہیں۔ ڈاکٹر شاہد مسعود جیسے حضرات ٹی وی ہر ایک گھنٹہ کا پروگرام کر کے اسپلٹ پرسنالٹی ڈس آرڈر کے مریض مجرم عمران کو بین الاقوامی مافیا کا شاطر ترین ایجنٹ ڈیکلیئر کرتے ہیں اور لاکھوں افراد اس من گھڑت بات پر صدق دل سے ایمان لے آتے ہیں۔

سوشل میڈیا پر قاتل کی تصویر اور ڈی پی او کی فوٹو شاپڈ تصویر کو یکجا کر کے سابق ڈی پی او قصور کو قتل کا مجرم ثابت کرنے کی بھونڈی حرکت کی جاتی ہے اور بے شمار افراد محض سیاسی مخالفت کے زیر اثر من و عن ایمان اس پر بھی یقین بھی کر لیتے ہیں۔

وطنِ عزیز میں عام انتخابات کے چند ماہ کے بعد ہی پس پشت قوتیں منتخب حکومت کو دھاندلی کے خود ساختہ الزام میں گھیر کر اپنے سیاسی مہروں عمران خان اور طاہر القادری کے ذریعے دھرنوں کا بندوبست کرتی ہیں۔ میڈیا کے دم ہر منظم مہم چلاتی ہیں اور عوام ڈگڈگی پر ناچتے دھاندلی کے مفروضے کو من و عن تسلیم کر لیتی ہے۔ ایک شخص محض وزیر اعظم کی شیروانی پہننے کی خاطر ملک میں چار سال دھرنے جلوس اور احتجاج سے ہیجان انگیزی پیدا کرتا ہے، کرپشن کے بادشاہوں کو ارد گرد کھڑا کر کے ایمانداری کے بھاشن دیتا ہے اور اپنی مرضی کا سچ سننے کے شوقین واہ واہ کرتے اس کے پیچھے لگ جاتے ہیں۔

گزشتہ ستر برسوں سے عوام کو سیاستدانوں کے احتساب کا چورن بیچا جا رہا ہے۔ ان ستر برسوں میں سوائے سیاستدانوں کے چہرے بدلنے کے کھیل کے علاوہ ملکی خزانے میں ایک الف لیلوی کھربوں روپے میں سے ایک روپیہ بھی جمع نہیں ہوا، لیکن عوام پھر بھی یہ منجن خریدتی ہے۔

صاحبو! نہ تو دنیا اتنی فارغ ہے کہ ہمہ وقت سب کام چھوڑ کر ایک ایسے ملک کو تباہ و برباد کرنے کا سوچے جس کا جدید ایجادات یا تہذیب میں کوئی خدمات اور حصہ ہی نہیں، اور نہ ہی ہر برائی کی جڑ حکمران ہیں۔ وطن عزیز میں بے پناہ ٹیلنٹ اور وسائل کے باوجو دنیا کی ترقی میں اپنا حصہ نہ ڈال پانا دراصل ہماری اجتماعی ناکامی ہے۔

اسی طرج نہ تو تہذیب کو صدیوں پہلے کے وقت میں مقید کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی نظریات اور افکار کو جامد کر کے یا ان پر عقائد و رسوم رواج کے جبری پہرے لگا کر زمانہ جدید اور نئی تہذیب سے منہ موڑا جا سکتا ہے۔ محض ہیجان انگیزی، رومان پروری اور مافوق الفظرت قصوں کہانیوں یا من پسند و خود ساختہ سازشیں گھڑنے سے نہ تو دنیا میں موجود کسی حقیقت کو تبدیل کیا جا سکتا ہے، اور نہ ہی ان کے دم پر سماج میں تعمیری کام سرانجام دییے جا سکتے ہیں۔ ہمارے رویے اور ہماری تعصب پسندانہ سوچ ہمیں باآسانی پراپیگنڈے کا شکار بنا کر کبھی پس پشت قوتوں، کبھی میڈیا ریٹنگ، کبھی طاقت کی جنگ کا چارہ اور کبھی عقائد کے سوداگروں کے ہاتھ استعمال کرواتی ہے۔

روشنی کا نام لیکر اندھیروں میں ایک دوسرے سے لڑ کر اپنے اندھیرے کو روشنی کی مانند قرار دینے سے روشنی نہیں پھوٹا کرتی۔

بقول شاعر:

روشنی کا نام لے کر لڑ رہے ہیں…

اس طرف بھی کچھ سائے، اس طرف بھی کچھ سائے۔

دراصل ہماری ترجیحات اور نظریات و عقائد بالکل متضاد اور غلط ہیں۔ ہم سیاستدانوں کو ایوانوں میں پہنچا کر خود اپنی اپنی بساط کے مطابق کرپشن کرتے ہیں اورتوقع رکھتے ہیں کہ سیاستدان ایسا نہ کریں۔ ہم آفاقی معاملات کو بذات خود حل کرنا چاہتے ہیں اور ایسے فیصلے جو صرف خدائے بزرگ و برتر کر سکتا ہے، ان کا اختیار ہم مولویوں، پیروں اور نام نہاد علمائےکرام کو دے دیتے ہیں۔ ہم دنیا سے نفرت کرتے ہیں، اسے تباہ و برباد کرنے کے درپے ہیں، لیکن توقع رکھتے ہیں کہ غیر مسلم دنیا ہمارے لیے پھول برساتی رہے۔

ہم اپنے صحن میں اس امید کے ساتھ اسٹریٹیجک اثاثوں کے نام پر سانپ پالتے ہیں کہ یہ ہمارے ہمسایوں کو ڈسیں گے، لیکن آخر میں خود ہی ان سانپوں سے ڈسے جاتے ہیں۔ ہم اقلیتوں کو دبا کر رکھتے ہیں، لیکن دنیا بھر میں اقلیتوں کے حقوق کی دہائیاں دیتے نہیں تھکتے۔ ہمارے قائم کردہ نظریات اور تصورات سے متصادم بات یا الگ سوچ ہمارے نزدیک ناقابل قبول ہوتی ہے اور غداری توہین یا مغربی سازش کے زمرے میں آتی ہے۔ لیکن ہمارے نزدیک دنیا پر لازم و ملزوم ہے کہ وہ ہمیں ایک سنجیدہ، مدلل اور تہذیب یافتہ معاشرہ قرار دیتے ہوئے ہماری کہی ہر بات کو درست اور ہمارے تصورات کو من و عن مانے۔

ہم جب تک اپنے رویوں، اپنی ترجیحات کو درست نہیں کریں گے اور اپنے تصورات ونظریات کو لٹمس ٹیسٹ سے نہیں گزاریں گے تب تک ٹرک کی لال بتی کے پیچھے بھاگتے کبھی مافوق الفطرت قصوں کہانیوں، کبھی من گھڑت سازشوں اور کبھی تہذیبی نرگسیت کا شکار رہیں گے۔ یا طاقت کی لڑائی میں چارے کے طور پر استعمال ہوتے ہوئے معاشرے کے طاقتور طبقات کے پراپیگنڈے کا شکار ہو کر کولہو کے بیل کی مانند بس ایک دائرے میں ہی گھومتے رہ جائیں گے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ[email protected] پر ای میل کردیجیے۔

عماد ظفر

عماد ظفر

بلاگر گزشتہ کئی سال سے ابلاغ کے شعبے سے منسلک ہیں۔ ریڈیو، اخبارات، ٹیلیویژن اور این جی اوز کے ساتھ وابستگی بھی رہی ہے۔ میڈیا اور سیاست کے پالیسی ساز تھنک ٹینکس سے بھی وابستہ رہے ہیں۔ باقاعدگی سےاردو اور انگریزی بلاگز اور کالمز لکھتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔