ٹارزن کی واپسی

شکیل صدیقی  منگل 3 اپريل 2018

ٹارزن ان دنوں بہت بور ہو رہا تھا ، اس لیے آج وہ اپنے نائب ہابو کے ساتھ لوڈو کھیل رہا تھا ۔ بور اس لیے ہو رہا تھا کہ جنگل کے جتنے سماج دشمن عناصر تھے ، وہ انھیں ٹھکانے لگا چکا تھا اور جو باقی بچے تھے، انھوں نے اس کی اطاعت قبول کر لی تھی ۔گویا جنگل میں امن وامان تھا اور شہروں کی طرح کوئی بدامنی پھیلانے والا نہیں تھا ۔ نہ کوئی سیاسی پارٹی تھی اور نہ لیڈر ، جس کی گیدڑ سنگھی سے مخالف گروہ کے افراد سہم جاتے ۔ سب سے دلچسپ بات یہ کہ کوئی اخبار بھی وہاں سے شایع نہیں ہوتا تھا ، جس میں پارٹی لیڈروں کے بیانات شایع ہوتے ہیں۔

نہ لینا ایک نہ دینا دو ۔ وہاں کوئی ٹیلی وژن یا ڈیڑھ سو چینلز بھی نہیں تھے، جن کے اینکرز سچ میں جھوٹ اور جھوٹ میں سچ ملا کر ناظرین کو شب و روز کنفیوژکرتے رہتے ہیں۔

ٹارزن اس وقت چونک گیا جب اس نے ایک لینڈ روور اپنی جھونپڑی کے دروازے پر رکتے دیکھی۔اس میں سے تین افراد اترے اور دروازے پر آکر اندر آنے کی اجازت طلب کرنے لگے۔ان میں ایک فلمی ہدایتکار اور باقی دونوں اس کے نائب تھے۔

’’ کون ہو تم لوگ؟ ‘‘ ٹارزن نے پوچھا ۔

اس کے جواب میں جو کچھ بتایا گیا وہ اس کی سمجھ میں بالکل نہ آیا ۔ اس موقعے پر اس کے نائب ہابو نے اس کی مدد کی۔’’مگر یہ لوگ میری زندگی پر فلم کیوں بنانا چاہتے ہیں؟‘‘اس نے پوچھا۔

’’تاکہ آپ مشہور ہوجائیں۔‘‘ہابو نے کہا۔

’’کیا میں ابھی تک مشہور نہیں ہوا؟ اتنا کچھ کرنے کے بعد بھی لوگ مجھ سے ناواقف ہیں؟

’’جب سے آپ کی باتصویر کہانیاں روزنامہ ’’پتنگ‘‘میں شایع ہونا بند ہوئی ہیں، لوگ آپ کو بھولتے جا رہے ہیں، لہٰذا ’’لاجواب کیرانوی ‘‘ نے فیصلہ کیا ہے کہ آپ کی زندگی پر فلم بنا کر آپ کو مشہور و مقبول کر دیا جائے۔‘‘

’’لیکن میری زندگی میں سوائے شیر ، چیتوں اور بندروں کے کیا رکھا ہے؟ لوگ انھیں چڑیا گھروں میں دیکھ ہی لیتے ہیں۔اس کے علاوہ نیشنل جیوگرافی نے بھی کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی ہے۔ اس نے تمام درندوں کو تو دکھا دیا ۔‘‘

’’ہم وہ کچھ دکھائیں گے جو اب تک نہیں دکھایا نہیں گیا۔‘‘کیرانوی نے کہا اور اپنے نائبوں کے ساتھ بغیر اجازت اندر چلا آیا۔جس چٹائی پر ٹارزن بیٹھا تھا وہ کافی کشادہ تھی۔سب اس پر بیٹھ گئے۔اپنی لچھے دارگفتگو سے کیرانوی کے لیے ٹارزن کو شیشے میں اتارنا دشوار ثابت نہیں ہوا۔

پہلی شوٹنگ میں ٹارزن کو ایک لڑکی سے عشق لڑانا تھا ۔ سین کوپندرہ بار ٹیک کیا گیا ، اس لیے کہ ٹارزن نے اپنی زندگی میں کبھی عشق ہی نہیں لڑایا تھا ۔اس کی زندگی میں کبھی کوئی عورت ہی نہیں آئی تھی ۔کیرانوی نے احتیاطاً ٹارزن کو کپڑے پہنا دیے تھے ، اس لیے کہ فلم کو سنسر سے پاس بھی کرانا تھا ۔ جینز میں وہ ٹارزن کا جدید شہری ایڈیشن لگنے لگا ۔ پہلے رومانی قسم کے مکالمے تھے اور اس کے بعد ایک گانا ۔ اس کا کہنا تھا کہ ہدایتکار ٹائم ضایع کررہا ہے۔ لڑکی اگر نہ مانے تو اسے کندھوں پر اٹھا کر جھونپڑی تک لے جایا جاسکتا اور عشقیہ مناظر فلمبند کیے جاسکتے ہیں۔ تب کیرانوی نے اسے سمجھایا کہ فلم میں ایسا ہی ہوتا ہے ۔ ہیروئن سے شادی سے پہلے ہیرو کو پانچ چھ گانے گانا ہوتے ہیں۔

دوسری شوٹنگ میں ٹارزن آٹا لینے مارکیٹ گیا ہوا ہوتا ہے کہ واپسی پر ایک شخص کو اپنی جھونپڑی کے دروازے پر کھڑا دیکھتا ہے ۔ ٹارزن اس سے استفسار کرتا ہے تو پتا چلتا ہے کہ وہ اس کی بیوی کو اغوا کرنے آیا ہے۔ابھی وہ کھانا پکا رہی ہے۔جب پکا لے گی تو یہ واردات عمل میں آئے گی۔’’مگر اغوا کرنے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘ ٹارزن نے حیرت کا اظہار کیا۔’’تم اسے سہولت سے لے جاسکتے ہو۔سائیکل لائے ہو اپنی؟میں تو اس کی روز روزکی فرمائشوں سے تنگ آگیا ہوں۔یہ چاہیے، وہ چاہیے۔آج ہی اس نے کہا تھا کہ میں اس کے لیے اونچی ایڑیوں کی سینڈلیں لاؤں ، ورنہ وہ کھانا نہیں کھائے گی۔‘‘

لاجواب کیرانوی یہ مکالمے سن کر ہکا بکا رہ گیا۔ اس نے ٹارزن کو اسکرپٹ یاد دلایا اور ہدایت کی کہ وہ اپنی طرف سے کچھ نہ بولے۔ چنانچہ شوٹنگ ری ٹیک ہوئی۔

تیسری شوٹنگ میں اسے ایک شیر سے لڑنا تھا ۔ ٹارزن کے لیے ایسی لڑائی بھڑائی معمول تھی ۔ وہ نامعلوم کتنے شیروں کو ٹھکانے لگا چکا تھا، لہٰذا اس نے ریہرسل کرنے سے انکارکردیا۔تب کیرانوی نے اسے اصل بات بتادی۔

ان کے لیے جنگل جاکر شوٹنگ کرنا بے حد دشوار تھا ، چنانچہ جنگل کا سیٹ لگا دیا گیا تھا ۔ نقلی درخت اور نقلی گھاس ۔ان پر بیٹھے ہوئے پرندے بھی نقلی تھے ۔اسے بتا دیا گیا تھا کہ جب ان کی آوازیں ساؤنڈ ٹریک کے ذریعے ڈالی جائیں گی تو سارامنظر اصلی معلوم ہوگا ۔ پس منظر سے شیر کے دہاڑنے کے آواز بھی آئے گی، جو چڑیا گھر جاکر ریکارڈ کر لی گئی۔

منظر یہ تھاکہ وہ ایک اودبلاؤکے ساتھ مچھلیاں کھا رہا ہوتا ہے کہ اچانک شیر آجاتا ہے اور دخل در معقولات کرتا ہے ۔ ٹارزن کا موڈ چوپٹ ہوجاتا ہے ۔ وہ دو تین بار جنگلی آواز میں اس کی سرزنش کرتا ہے،لیکن جب شیر ،گنوار گدھوں کی سی حرکت کرتا ہے تو اسے غصہ آجاتا ہے اوروہ اسے سبق سکھانے کے لیے اس کی طرف لپکتا ہے اور نا چاہتے ہوئے بھی ’’شیر کو شہید‘‘ کر دیتا ہے۔

منظر میں شیر کو دائیں جانب سے چھوڑا گیا۔وہ غراتا ہوا ، بائیں جانب آگیا ، تاکہ اپنے جثے کی نمائش کرسکے۔ ٹارزن اپنی جگہ سے کھڑا ہوگیا اور اپنے منہ سے بھی آوازیں نکالنے لگا ۔ بے معنی اور مہمل آوازیں ۔ جن کا کوئی مفہوم نہیں ہوسکتا ۔ پھر وہ شیر کی طرف لپکتا ہے ۔اس کے منہ میں نقلی خنجر دبا ہوا تھا جو اسے ہدایتکارکے نائب نے دیا تھا، لیکن ٹارزن نے اسے جوش جذبات میں نظر انداز کردیا اور اپنی جانگیہ میں اڑسا ہوا اصلی خنجر نکال لیا۔

ٹھیک اسی وقت اس کا نائب ہابو آگے بڑھا اور اس نے ٹارزن کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے پیچھے کھینچ لیا۔’’ ابے چھوڑ ،کیا کر رہا ہے؟ابھی دوں گا ایک لپڑ تو ساری بتیسی باہر آجائے گی۔‘‘

’’ہاہاہا۔ہابو ہنسا۔’’استاد یہ اصلی شیر نہیں ہے ۔ نقلی ہے، لہٰذا اسے نقلی خنجر سے ہلاک کرو۔‘‘

ٹارزن کو احساس ہواکہ وہ کچھ جذباتی ہوگیا تھا ، لہٰذا سین ری ٹیک کیا گیا۔

ٹارزن کو پہلی بار معلوم ہوا کہ شہروں میں دکھائی دینے والے شیر اصلی تے وڈے شیر نہیں ہوتے۔ وہ کاغذی شیر ہوتے ہیں اور انھوں نے صرف کھال اوڑھی ہوئی ہوتی ہے اور منہ سے بے معنی آوازیں نکالتے رہتے ہیں ۔ اپنے اثاثوں کا حساب بھی نہیں دیتے لیکن اپنی تصاویر اور بیانات اخباروں میں شایع کراتے ہیں پھر جب ان کا کان پکڑ لیا جاتا ہے اور دھکا پڑتا ہے ، انھیںایوان سے نکال دیا جاتا ہے توگلیوں گلیوں کہتے پھرتے ہیں۔’’مجھے کیوں نکالا گیا؟‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔