تذکرہ تین کتابوں کا

شبیر احمد ارمان  منگل 3 اپريل 2018
shabbirarman@yahoo.com

[email protected]

ترکی اسلامی تہذیب کا مرکز رہا ہے ، اسلامی تاریخ کے ان گنت مظاہر، اسلامی اسلاف کے متعدد تبرکات، قدم بہ قدم تاریخی حوالوں سے منسلک مقامات، ترک قوم کا حسن ذوق مل کر ترکی کی تشکیل کرتے ہیں ۔ ترکی سے ایک مسلمان کا ربط و انس لافانی ہے ۔

ترکی کا مقام عہد صحابہ سے شروع ہوتا ہے ، حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کا مزار مبارک ترکی میں واقع ہے ، واضح رہے کہ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کو نبی کریم ﷺ کے میزبان ہونے کا شرف بھی حاصل ہے ۔ ترکی کا ایک حوالہ سلطنت عثمانیہ ہے ، سلطنت عثمانیہ نے ایک طویل مدت تک مسلمانوں کے ذہنوں اور دلوں پر راج کیا ہے ، پاک و ہند میں بھی خطبہ خلیفہ وقت کا ہی پڑھا جاتا تھا۔ تحریک خلافت نے ترکی اور پاک وہند کے مسلمانوں کو یک جان و دو قالب کی صورت عطا کر دی تھی ۔

آج بھی ترکی پاکستان کا اسلامی برادرملک ہے ترکی سیاحوں کے لیے پرکشش ہے، ترکی مشرق و مغرب کا امتزاج ہے ، اس کا ایک حصہ مشرق سے اور دوسرا حصہ یورپ سے ملتا ہے ۔ ترکی کے توپ کا پے میوزیم میںان برگزیدہ شخصیات کے اصل تبرکات موجود ہیں جن کا حوالہ اسلام کا حوالہ ہے ۔ اسی طرح ترکی کا ایک حوالہ مولانا روم بھی ہے ۔ مولانا روم اپنی مثنوی کی وساطت سے مشرق و مغرب میں معروف ہیں ۔

اس وقت ترکی کا ایک سفر نامہ بنام جنت ارضی استنبول زیر مطالعہ ہے جس کے مصنف اقبال مانڈویاہے ، یہ ان کی پہلی کتاب ہے جو انھوں نے تحریر کی ہے ۔ تحریر دلچسپ ، معلوماتی اور آسان اردو زبان میں ہے ۔ یہ سفر نامہ 27عنوانات پر مشتمل ہے ہر عنوان معلوماتی اور دلچسپ ہے یہ کتاب 160صفحات پر مشتمل ہے ۔اس کی پہلی اشاعت 2016ء کو اور دوسری اشاعت فروری 2017ء کو ہوئی ۔

اس کتاب میں ترکی کا کلچر، تاریخ ، رہن سہن ، کھانا پینا ، عادات واطوار کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ مصنف نے ہر اپنے گہرے مشاہدے سے تاریخ مرتب کی ہے ۔ وہ ریسٹورنٹ جاتے ہیں تو وہاں بل کی ادائیگی کا رواج بیان کرتے ہیں ، مساجد میں وضو وغیرہ کا اہتمام کاذکر کرتے ہیں، پینے کا پانی کی دستیابی کا کہتے ہیں ، مساجد میں جوتے کس طرح رکھے جاتے ہیں ، امام کس طرح منبر پر متمکن ہوتا ہے ، خطبہ کیسے دیتا ہے ، وہاں کے بازاروں کی دلکشی اور رعنائی کے علاوہ دکانداری کو بھی نمایاں کرتے ہیں ، باربر شاپ کا بھی پورا نقشہ بیان کرتے ہیں ، کسی تاریخی مسجد یا مزارکا ذکر تفصیل سے کرتے ہیں ، وہاں قیام پذیر پاکستانی و بھارتی شہریوں کا احوال بھی بیان کرتے نظر آتے ہیں۔

الغرض یہ کتاب سیاحوں کو ترکی کے متعلق بنیادی معلومات و رہنمائی فراہم کرتی ہے۔ جس کے لیے مصنف کی کاوش قابل تحسین ہے ۔

عمیر رزاق لیاری کے باصلاحیت ہونہار نوجوان ہے جو لیاری میں واقع شہید محترمہ بے نظیربھٹو یونیورسٹی کے طالب علم ہیں ،انھیں رپورٹنگ سے لگاؤ ہے ، انھوں نے تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ ایک انگریزی ماہنامہ اخبار میں سماجی ، تعلیمی ، ادبی اور اسپورٹس تقاریب کی کوریج کرنا شروع کی ۔

یہ لیاری کا پر آشوب دور تھا، لوگ نفسیاتی خوف سے باہر نکلنے کی اپنی سی کوششیں کررہے تھے اور لیاری گینگ وار کے سیاہ داغ کو مٹانے کے لیے اپنی مدد آپ کے تحت اپنی خداداد صلاحیتوںکو اجاگرکررہے تھے ، سماجی، تعلیمی، ادبی اور اسپورٹس کی تقاریب منعقد کرنے میں مصروف تھے ۔

ایسے میں نوجوان عمیر رزاق نے قلم کی طاقت کو استعمال کرتے ہوئے دنیا کو بتانا شروع کیا کہ لیاری کی پہچان صرف گینگ وارنہیں ہے بلکہ لیاری امن کا گہوارہ تھا جسے گہری کھائی میں دھکیل دیا گیا تھا اب لیاری جاگ اٹھا ہے اور اس کے فرزندوں کے ہاتھوں میں امن کا جھنڈا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ لیاری ہمیشہ امن کا گہوارہ رہا ہے، یہ الگ بات ہے کہ اس کے امن کو ایک سازش کے تحت تہہ و بالا کیا گیاتھا ۔

لیاری نے کل بھی گوہر نایاب شخصیات کو جنم دیا تھا اور آج بھی لیاری کی گود میں ہیرے پرورش پارہے ہیں جنھیں تراشنے کی ضرورت ہے ۔ عمیر رزاق نے اپنی انھی اخباری رپورٹس کو یکجا کیا اور انھیں کتابی صورت دی ۔ یہ رپورٹس انھوں نے 2015ء تا 2017ء کے درمیان قلم بند کی گئی تھیں ۔ یاد رہے کہ لیاری میں مدتوں بعد امن کا پھول 2013ء میںکھلنا شروع ہوا جو اب کھلتا ہوا گلاب ہے ۔

عمیر رزاق نے ان رپورٹس کو لیاری کی تاریخ کاروپ دیتے ہوئے اسے Lyari On The Rise   نامی انگریزی کتاب مرتب کی ۔ جس کی تقریب اجراء گزشتہ دنوں شہید محترمہ بے نظیر بھٹو یونیورسٹی میں ہوئی۔ 174صفحات پر مشتمل اس کتاب میں لیاری کے با صلاحیت نوجوانوں کی مثبت سرگرمیوں کو اجاگرکیا گیا ہے جو مستقبل قریب میں ملک و قوم کا نام روشن کریں گے ، چونکہ عمیر رزاق نے 2015ء میں اخباری رپورٹنگ شروع کی اس لیے وہ لیاری میں منعقدہ 2013 ء اور2014ء کی سماجی سرگرمیوں کو کور کرنے سے قاصر رہے تھے اس لیے اس اعتبار سے ان کی یہ کتاب لیاری میں امن کی بحالی کے بعد منعقدہ تقریبات کی حال و احوال کو ادھورا بیان کرتی ہے لیکن اگر وہ کسی سینئر لکھاری کی سرپرستی حاصل کرتے تو شاید یہ کمی اس صورت میں پوری ہوسکتی تھی.

سینئر لکھاری یقینا اس کی رہنمائی کرتے ہوئے اسے مشورہ دیتے کہ وہ 2013ء اور 2014ء کے حالات و واقعات پر مبنی ایک تجزیاتی تحریر لکھ کر اس کتاب میں شامل کریں ، لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا جس وجہ سے کتاب میں تشنگی پائی جاتی ہے ۔ لیکن مجموعی  طور پر یہ کتاب لیاری کی روشن چہرے کی عکاسی کرتا ہے ۔ دعا ہے لیاری کے یہ روشن چراغ ہو چہار سو روشنی پھیلائیں اور عمیر رزاق جیسے نوجوان قلم کو اپنی طاقت بنائیں۔

محمد حنیف ناشاد لیاری کے نوجوان شاعر ہیں وہ ایک قلیل عرصے سے شاعری کررہے ہیں،گزشتہ دنوں ان کی شاعری کا مجموعہ ’’ نئی صبح ‘‘ کا انتظار ہے کی تقریب رونمائی لیاری میں واقع فٹبال ہاؤس میں ہوئی، جسے حاضرین نے پذیرائی بخشی ۔160صفحات پر مشتمل اس کتاب میں 157غزلیں اور نظمیں شامل ہیں ۔محمد حنیف ناشاد کی شاعری کچلے ہوئے عوام کی دکھ درد کی ترجمانی کرتی ہے ۔ بلدیہ کی فیکٹری میں زندہ جل کر مرنے والوں کے نام لکھتے ہیں۔

موت کے اک دائرے میں جولوگ پھنس گئے/ جلتی ہوئی آگ میں سب جھلس گئے / ان گنت لاشیں تھیں مردہ خانے میں / ایک دو کسی کے تو کسی کے دس گئے / ماؤں کو اب تسلی دو اور احباب سے کہو / مت روکے مرنے والے کہیں اور جاکے بس گئے / ورثاکی زندگی میں تو قیامت گزرگئی / دیدار کے لیے تو وہ با لکل ترس گئے ۔

لیاری کے کشیدہ حالات کے دوران لکھی گئی ، نظم مجھے صرف اور صرف امن چاہیے، میں لکھتے ہیں کہ

آپس میں لڑکر مجھے دکھ دے رہے ہو / یہ کیا سن رہا ہوں میں / روز اخبارکی شہ سرخیوں میں /کہ لیاری دھماکوں سے گونج اٹھا ہے / خدا کے لیے گولیاں نہ  چلاؤ اور دھماکے نہ کراو /کہ میں دکھی ہوں بہت / میں زخمی ہوں بہت / مجھے اپنے بیٹوں سے یہی عرض ہے کرنی / کہ میری محبت کا احترام کرلو / بس اک کام کر لو / لیاری کو تم سے نہیں چاہیے کچھ / مجھے صرف اور صرف امن چاہیے ۔

اسی طرح شاعر دیگر اشعار میںلوگوں کا دکھ درد بیان کرتے ہیں ۔اجڑے ہوئے گلستان کا ذمے دار کون ہے ؟ ، ہے ہر چمن ویران گناہ گار کون ہے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔