زینب کے بعد مبشرہ: سوموٹو نہیں انصاف چاہیے

صادق مصطفوی  جمعرات 5 اپريل 2018
زینب واقعے کے بعد مبشرہ کا ایک واقعہ نہیں ہوا، روز اخبارات میں ایسے واقعات ملتے ہیں۔ فوٹو:انٹرنیٹ

زینب واقعے کے بعد مبشرہ کا ایک واقعہ نہیں ہوا، روز اخبارات میں ایسے واقعات ملتے ہیں۔ فوٹو:انٹرنیٹ

قصور کی معصوم زینب کا کیس ابھی منطقی انجام کو نہیں پہنچا تھا کہ جڑانوالہ میں ایک اور معصوم کلی درندگی کا شکار ہوگئی۔ ایک اور ماں کی گود کو ویران کردیا گیا، ایک باپ سے اس کی شہزادی دور کردی گئی، ایک بھائی سے اس کی گڑیا جدا ہو گئی، ایک گھر کی رونق کو چھین لیا گیا اور والدین کو سسکیاں اور آنسوؤں کے حوالے کردیا گیا۔ ایک اور خاندان میں صف ماتم بچھا دی گئی۔ ابھی تو معصوم مبشرہ نے ماں کے آنگن سے باہر کی دنیا کو دیکھا بھی نہیں تھا، اور اس انسانیت سوز واقعے سے غموں کے پہاڑ تلے دب کر والد کے اپنی بیٹی کیلئے دیکھے گئے خواب بکھر گئے۔

زینب کے واقعے کے بعد سے لے کر اب تک مبشرہ کا ایک واقعہ نہیں ہوا، بلکہ ہر روز اخبارات میں اس طرح کے واقعات پڑھنے کو ملتے ہیں۔ کہیں اسماء کیس ہے تو کہیں عابدہ کا دل سوز قتل ہے۔ صرف پنجاب میں ہر ماہ اوسطاً 11 واقعات پیش آرہے ہیں، جبکہ ایک غیر سرکاری ادارے کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق ملک میں روزانہ اوسطاً 11 بچے درندگی کا شکار ہوتے ہیں، اور اعداد و شمار میں صرف وہ کیس آتے ہیں جو پولیس ریکارڈ میں درج ہوتے ہیں۔ نہ جانے کتنے ایسے واقعات ہیں جنہیں سیاسی دباؤ کی وجہ سے ریکارڈ کا حصہ نہیں بننے دیا جاتا یا والدین اپنی عزت کو لوگوں میں تماشا بننے کے ڈر سے کہیں ذکر ہی نہیں کرتے۔ جب بھی کسی کیس کی تفتیش ہوتی ہے تو اس میں زیادہ تر سیاسی یا دولت کے نشے میں امیروں کی بگڑی اولادوں کے نام ہی سامنے آتے ہیں۔

مگر صاحب منصب اس بات پر قائم ہیں کہ ملک میں انصاف رائج ہے، ہم سے اچھی حکومت کوئی کر ہی نہیں سکتا، ہم سے بڑا منصف اس ملک کو ملا ہی نہیں، ہم تو ہیں ہی اس عوام کے خادم اعلیٰ۔

میڈیا کے سامنے زینب کی ماں نےحکومت سے ایک مطالبہ کیا تھا کہ میری معصوم بیٹی کے قاتل کو قصور کی اسی گلی میں پھانسی پر لٹکایا جائے جہاں سے زینب کی لاش ملی تھی۔ مگر حکومت یہ بتانے لگی کہ اس کی قانون میں اجازت نہیں، اور آج معصوم مبشرہ کی ماں وزیرِ قانون سے سوال کر رہی ہے کہ اس ملک کی بیٹیوں کی عزت سے کھیلنے والوں کو زندہ رہنے کی اجازت کس قانون نے دی ہے؟

اگر سپریم کورٹ سے نااہل ہونے والے نواز شریف کی پارٹی صدارت کےلیے ملک کا قانون تبدیل کیا جاسکتا ہے تو ان سفاک درندوں کو سرعام پھانسی کے پھندے پر لٹکانے کےلیے قانون میں تبدیلی کیوں نہیں کی جاسکتی؟ شیطانی کھیل کے حیوانوں کو عبرت کا نشان کیوں نہیں بنایا جاتا؟

سندھ کے چیف جسٹس کے اغواء ہونے والے بیٹے (اویس شاہ) کو ہماری انٹیلی جنس ایجنسیاں کراچی سے 1100 کلومیٹر دور ٹانک، خیبر پختونخواہ کے علاقے میں کارروائی کرتے ہوئے، گاڑی میں موجود 3 دہشت گردوں کو قتل کرتے ہوئے، اویس شاہ کو بچا لیتی ہیں؛ کیونکہ وہ ایک چیف کا بیٹا تھا۔ تو کیا دخترانِ وطن کی ان درندہ صفت لوگوں سے حفاظت کےلیے ہمیں دوسرے ملک کی ایجنسیوں سے مدد لینا ہوگی؟ یا عوام کی حفاظت ہمارے حکمرانوں، سیکیورٹی اور عدل کے اداروں کی ڈیوٹی میں شامل نہیں؟ یا پھر اس قوم کو کہہ دیجیے کہ گھر سے نکلنے والے بچوں پر آیت الکرسی پھونکنا نہ بھولیے، ورنہ کسی انہونی کی صورت میں صاحبِ منصب ذمہ دار نہیں ہوں گے۔

ایک ماں جس کی آہ کے آسمان پر پہنچنے میں دیر نہیں لگتی، معلوم نہیں ہمارے ایوانِ عدل تک کیسے نہیں پہنچ رہی۔ معصوم زینب کےلیے انصاف کی آواز اٹھانے والی عوام جب پولیس کے ہاتھوں اپنی ہی لاشیں لے کر گھر واپس پہنچی تو انصاف کا جنازہ تو اس وقت ہی اٹھ گیا تھا۔ قصور کی معصوم زینب کے کیس میں پوری قوم کے غم و غصے کو ٹھنڈا کرنے کےلیے سوموٹو ایکشن تو لیا گیا مگر اس کیس کوعوامی مطالبے کے مطابق حل کرنے کے بجائے گمنام کردیا گیا؛ اور روایت کے مطابق رحم کی اپیل، ایک سے دوسری کورٹ اور تاریخوں کی نذر کردیا گیا۔ زینب کے والدین آج بھی عدالتوں کے چکر کاٹ رہے ہیں، جس کا نتیجہ آج پھر ایک اور زینب ایوان عدل سے انصاف مانگتی نظر آرہی ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔