معاملہ اٹھارویں ترمیم کا

مقتدا منصور  جمعرات 5 اپريل 2018
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

آج کل ملک میں 18 ویں ترمیم کے حوالے سے ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے ۔ کچھ طاقتور حلقوں کا خیال ہے کہ اس آئینی ترمیم کی وجہ سے ملک کی وحدت کو خطرات لاحق ہوگئے ہیں ۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ آئینی ترمیم عوامی لیگ کے چھ نکات سے زیادہ خطرناک ہے۔

اس بحث میں بعض اہم ریاستی اداروں اور سربراہوں کا تذکرہ بھی آیا، مگر ISPRکے ڈائریکٹرجنرل جنرل آصف غفور نے چند روز پیشتر اپنی پریس کانفرنس میں خاصی تفصیل کے ساتھ ’’باجوہ ڈاکٹرائن‘‘کے خدوخال بیان کر کے ان افواہوں کو ختم کردیا، جو اس حوالے سے گردش کررہی تھی۔

اس کے بعد فوج پر اس حوالے سے انگشت نمائی کا جواز ختم ہو جاتا ہے، مگر اس کے باوجود مختلف حلقوں کی جانب سے اس آئینی ترمیم پر تنقید کا سلسلہ بد ستور جاری ہے ۔ لہٰذا یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ اٹھارویں ترمیم کیا ہے؟ کیا اس سے ملک کی وحدت کو نقصان پہنچنے کاخطرہ ہے؟

18ویں آئینی ترمیم دراصل ایک آئینی پیکیج ہے، جو آئین کی مختلف شقوں میں پائے جانے والے ابہام اور مختلف اوقات میں کی جانے والی غیر جمہوری ترامیم کا جائزہ لینے کے بعد ان میں مناسب اضافے اور ترامیم کے علاوہ بعض شقوں کی تنسیخ پر مبنی ہے۔ اس طرح 25آئینی شقوں میں ردو بدل اور10 مختلف نوعیت کے پارلیمانی فیصلوں کو آئین کا حصہ بنایا گیا ہے۔ جو اقدامات کیے گئے ان میں سابق آمر جنرل ضیا کا نام آئین سے خارج کرنا ۔ صدر کے اسمبلیاں تحلیل کرنے کے غیر  پارلیمانی صوابدیدی اختیار کا خاتمہ۔

صدر کو یہ اختیار 1986 میں غیر جماعتی بنیادوں پر قائم ہونے والی پارلیمان نے 8ویں آئینی ترمیم کی شق 58(2)B کے ذریعے دیا تھا۔  جسے پہلی بار 1998 میں نواز شریف کے دوسرے دور حکومت میں ختم کیا گیا تھا، مگر 2002میں قائم ہونے والی پارلیمان نے سترھویں ترمیم کے ذریعے اسے دوبارہ بحال کردیا تھا۔

صوبہ سرحد کو اس کے اصل نام خیبرپختونخواہ کو آئینی تحفظ دیا گیا ۔ پرویز مشرف کی زیر نگرانی 2002میں قائم ہونے والی پارلیمان کی جانب سے 17ویں آئینی ترمیم اور متعارف کردہ لیگل فریم ورک آرڈر کی تنسیخ ۔ مشترکہ مفادات کونسل(CCI)کی تشکیل نو اور صدر کی جگہ وزیر اعظم کو اس کا چیئرمین مقرر کرنے کی شقوں کی شمولیت۔

اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے تقرر کے طریقہ کار پر نظر ثانی اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے قیام کی منظوری ۔ چیف الیکشن کمشنر کے تقرر میں قائد حزب اقتدار اور قائد حزب اختلاف کی باہمی مشاورت اور رضامندی۔ مشترکہ فہرست(Concurrent List)کا کسی حد تک خاتمہ شامل تھا۔

آئین کی شق 6کے متن میں ترمیم کی گئی اور آئین شکنی میں تعاون کو بھی قابل دست اندازیِ آئین تصور کیا گیا ۔ شق10میں 10Aکا اضافہ (جوشہریوں کے شفاف ٹرائیل کے بارے میں ہے۔) شق 19میں ذیلی شق 19Aکا اضافہ،جو عام شہریوں کی ریاستی امور کے بارے میں معلومات کے حق سے متعلق ہے۔

اسی طرح شق 25 میں ذیلی شق25Aکا اضافہ،جو صوبائی حکومتوں کو پابند کرتی  ہے کہ وہ 5سے16 برس کے تمام بچوں کو مفت لازمی تعلیم مہیا کریں۔ شق63 میں ذیلی شق63Aکا اضافہ، جس میں اپنی جماعت چھوڑنے(Defection)کی صورت میںاراکین اسمبلیوں کی رکنیت کا خاتمہ، جیسے اقدامات تجویز کیے گئے ہیں۔

ملک کے منصوبہ ساز حلقوں کو ان میں سے بیشتر ترامیم سے کوئی علاقہ نہیں ہے ۔ جہاں تک بات سمجھ میں آئی ہے، وہ یہ کہ بعض حلقوں کو اصل اعتراض مشترکہ فہرست کے خاتمے، تعلیم سمیت کئی اہم شعبہ جات کی صوبوں کو منتقلی اورCCIکی تشکیل نو پر ہے۔

کہا یہ جا رہا ہے کہ تعلیم کا شعبہ صوبوں کے حوالے کردینے سے تعلیمی نصاب کی ملک گیر یکسانیت ختم ہو رہی ہے۔ جس کی وجہ سے قومی یکجہتی کو نقصان پہنچ رہاہے۔کیونکہ ہر صوبہ اپنی الگ تاریخ بچوں تک پہنچا رہا ہے۔یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ صوبوں میں اتنی استعداد نہیں کہ وہ تعلیم بالخصوص اعلیٰ تعلیم کی منصوبہ بندی کر سکیں۔لہٰذا ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی صوبوں کو منتقلی کے بارے میں بھی تحفظات سامنے آرہے ہیں۔

کہا جا رہا ہے کہ آٹھ برس گذر جانے کے باوجود صوبے ہائیر ایجوکیشن کمیشن کو صحیح طور پر نہیں چلا پا رہے۔ دوسراتحفظ CCIکی تشکیل نو کے بارے میں ہے۔ اس حوالے سے کہا جا رہا ہے کہ اس کی وجہ سے قومی سلامتی کے امور میں رکاوٹ پیدا ہونے کے امکانات پیدا ہو رہے ہیں۔کیونکہ اس کی سربراہی صدر سے وزیراعظم کو منتقل کرنے سے کونسل میں سیاسی مداخلت کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔

آئیے ! ان اعتراضات کا ناقدانہ جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں ۔ سب سے پہلی بات یہ کہ ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ پاکستان 1946کے عام انتخابات کے نتیجے میں مسلم اکثریتی صوبوں میں قائم ہونے والی صوبائی اسمبلیوں نے پاکستان میں شمولیت کا فیصلہ کیا ۔ یہ تین اسمبلیاں تھیں، یعنی سندھ، بنگال اور پنجاب۔ خیبرپختونخواہ (سابق صوبہ سرحد) میں ریفرنڈم ہوا۔ برٹش بلوچستان دو حصوں میں منقسم تھا، شمالی علاقہ براہ راست برطانیہ کے زیر اثر تھا، جب کہ جنوب مغربی بلوچستان پر خان قلات کی عملداری تھا۔ فروری1948میں جناح۔خان قلات معاہدہ کے نتیجے میں بلوچستان کا پاکستان کے ساتھ انھی شرائط پر الحاق ہوا، جن پر خان قلات کا برطانوی کمشنر مسٹر سنڈیمن کے ساتھ1901میں ہوا تھا۔

اس طرح پاکستان امریکا کی طرح ریاستوں (صوبوں) کی مرضی سے وجود میں آنے والا وفاق ہے، جس میں برٹش انڈیا کے صوبوں نے اپنی آزادی کو نئے ملک میں شامل ہوکر ایک دوسرے کے ساتھ شئیر کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

لہٰذا پاکستان کو وحدانی ریاست بنانے کے سابقہ تمام اقدامات غیر منطقی ہونے کے باعث غلط تھے۔اسی طرح حال یا مستقبل میں اس نوعیت کی کوئی کوشش بھی غیرآئینی، غیر قانونی اور غیراخلاقی ہوگی ۔ اب جہاں تک صوبوں کی انتظامی استعداد کا تعلق ہے، تو اس میں اضافہ تربیت، تجربہ اور مشاہدے سے ممکن ہوتا ہے۔

ریاست ہائے متحدہ امریکا جو 13 ریاستوں کے الحاق سے1776میں وجود میں آیا تھا،آج 50 ریاستوں پر مشتمل ہے۔ ان میں سے کوئی بھی ریاست کسی بھی شعبے میں ماہر نہیں تھی ۔ ان ریاستوں نے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون اور مدد کے ذریعے معاملات کو سمجھنے اور بہتر کرنے کی کوشش کی۔ اس عمل میں وفاقی حکومت نے رابطہ کار اور سہولت کار کی ذمے داری ادا کی۔

پاکستان نے جس طرح اپنے قیام کے ابتدائی برسوں کے دورانPIDC قائم کر کے صنعتکاری کے میدان میں اترنے والے نئے سرمایہ کاروں کو فنی اور پیشہ ورانہ مہارت فراہم کرنے کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ اسی انداز میں وفاقی حکومت صوبوں کو مختلف انتظامی امور میں مہارت کے لیے وفاقی سطح پر ادارہ قائم کرکے ان کی استعداد سازی کرسکتی ہے، لیکن محض استعداد کی کمی کو بنیاد یا بہانہ بناکر اقتدار واختیار کی عدم مرکزیت کا راستہ روکنا انتہائی غلط بلکہ ریاست دشمن اقدام ہے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ صوبائی خود مختاری اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کی پہلی سیڑھی ہے، ابھی شراکتی جمہوریت کو فروغ دینے کے لیے ضلع اور پھر یونین کونسل کی سطح تک مختلف شعبہ جات کی منتقلی کا عمل ضروری ہوچکا ہے۔ اس لیے دردمندانہ مشورہ یہی دیا جاسکتا ہے کہ 18ویں ترمیم کو چھیڑنے کے بجائے اختیارات کی مزید عدم مرکزیت کی طرف بڑھاجائے۔ اس عمل سے وفاق کمزور نہیں بلکہ مزید مستحکم ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔