فریادی وزیراعظم

جاوید چوہدری  جمعرات 5 اپريل 2018
www.facebook.com/javed.chaudhry

www.facebook.com/javed.chaudhry

وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی حماقت سے 14 مارچ کو دنیا کی پہلی اسلامی جوہری طاقت پاکستان کو جان ایف کینیڈی ائیرپورٹ پر جو خفت‘ جو ہزیمت اٹھانا پڑی میں بیس دن گزرنے کے باوجود اس تکلیف سے باہر نہیں آسکا‘ وزیراعظم نے کیا کیا؟ میں اس سے پہلے آپ کو میر ظفر اللہ جمالی کا ایک واقعہ سنانا چاہوںگا‘ آپ کو اس واقعے میں آج کے واقعات کی جھلک ملے گی۔

جنرل پرویز مشرف نے2003ء کے آخر میں میر ظفر اللہ جمالی کو ہٹانے اور ہمایوں اختر کو وزیراعظم بنانے کا فیصلہ کر لیا‘ جمالی صاحب کو بھنک پڑ گئی چنانچہ انھوں نے ہاتھ پاؤں مارنا شروع کر دیے‘ وزیراعظم کا خیال تھا امریکا اگر ان کی سپورٹ کرے تو یہ اپنی کرسی برقرار رکھ سکتے ہیں‘ پاکستان پیپلز پارٹی کے لیڈر خواجہ احمد طارق رحیم امریکی سفیر نینسی پاول کے قریب تھے‘ جمالی صاحب نے احمد طارق رحیم کے ذریعے امریکی وزیر خارجہ کولن پاول کے ساتھ رابطہ کیا۔

امریکی وزیر خارجہ نے انھیں واشنگٹن کے دورے کی دعوت دے دی‘ جنرل پرویز مشرف کو سازش کا علم ہو گیا‘ صدر نے شریف الدین پیرزادہ کو وزیراعظم کے وفد میں شامل کر دیا اور پیر زادہ کو حکم دیا ’’آپ سائے کی طرح وزیراعظم کے ساتھ رہیںتاکہ یہ اکیلے کسی امریکی کے ساتھ ملاقات نہ کر سکیں‘‘ صدر نے وزیراعظم کو بھی ہدایت کی ’’امریکا کے ساتھ پاکستان کے بے شمار ایشوز چل رہے ہیں۔

شریف الدین پیرزادہ آپ کے ساتھ رہیں گے‘ یہ قانونی نکات میں آپ کی مدد کریں گے‘ آپ انھیں ہر ملاقات میں ساتھ رکھیں‘‘ وزیراعظم نے وعدہ کر لیا لیکن امریکی سفیر کے ذریعے کولن پاول کو اطلاع کر دی’’ ہمارے وفد جب بیٹھ جائیں تو آپ مجھ سے درخواست کریں‘ کیا ہم اکیلے میں بات کر سکتے ہیں‘ آپ اس کے بعد اپنے لوگوں کو باہر بھجوا دیں‘ میں بھی اپنے وفد کو بھجوا دوں گا اور یوں ہم ون ٹو ون ملاقات کر سکیں گے‘‘ یہ فیصلہ ہو گیا۔

وزیراعظم امریکا پہنچے ‘ ملاقات ہوئی‘ کولن پاول نے پلان کے مطابق وزیراعظم سے کہا’’ مسٹر پرائم منسٹر کیا ہم چند لمحوں کے لیے اکیلے بات کر سکتے ہیں‘‘ ظفر اللہ جمالی نے ہاں میں سرہلا دیا‘ کولن پاول نے اپنے لوگوں کو کانفرنس ہال سے نکال دیا‘ جواب میں جمالی صاحب نے بھی اپنے وفد کو اشارہ کر دیا‘ شریف الدین پیرزادہ بھی مجبوری کے عالم میں باہر آ گئے۔

انھوں نے وہاں سے صدر جنرل پرویز مشرف کے پرنسپل سیکریٹری جنرل حامد جاوید کو فون کر کے بتایا ’’جناب مجھے باہر نکال دیا گیا ہے‘ وزیراعظم اور کولن پاول دونوں اب اکیلے ہیں‘ یہ اندر کیا کر رہے ہیں‘ میں نہیں جانتا‘‘ میر ظفر اللہ جمالی اور کولن پاول کے درمیان کیا بات چیت ہوئی وزارت خارجہ اور پاکستانی سفارت خانے کی فائلیں خاموش ہیں تاہم امریکا نے وزیراعظم کے دورے کے بعد اچانک میر ظفراللہ جمالی کی شرافت اور خدمات کا اعتراف شروع کر دیا۔

جنرل مشرف کو ان تعریفوں میں ایک دوسرا محمد خان جونیجو نظر آنے لگا چنانچہ صدر نے انھیں ہر صورت ہٹانے کا فیصلہ کر لیا‘ امریکا ہمایوں اختر کو بھی پسند کرتا تھا‘ صدر نے امریکا کو خوش کرنے کے لیے شروع میں ہمایوں اختر کو وزیراعظم بنانے کا فیصلہ کیا لیکن جب ہمایوں اختر نے مبارکبادیں وصول کر لیں تو شوکت عزیز سامنے آ گئے اور یہ وزیراعظم بن گئے۔

ہم اب وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے امریکی دورے کی طرف آتے ہیں‘ وزیراعظم 14 مارچ کو6 دن کے لیے امریکا گئے‘ یہ اپنی ہمشیرہ افشاں عباسی کی عیادت کے لیے گئے تھے اور وزیراعظم کا کہنا تھا یہ دورہ نجی تھا چنانچہ یہ کمرشل فلائیٹ پر اسٹاف کے بغیر عام شہری کی حیثیت سے امریکا پہنچے‘ وزیراعظم نے گرین پاسپورٹ پر سفر کیا‘ یہ ائیرپورٹ پر عام مسافروں کی لائین میں کھڑے ہوئے۔

سیکیورٹی اہلکاروں نے عام مسافروں کی طرح ان کے جوتے اور بیلٹ بھی اتروائی‘ یہ باقاعدہ تلاشی کے گیٹ سے بھی گزرے اور یہ عام لوگوں کی طرح خوار ہو کر ائیرپورٹ سے باہر آئے‘ وزیراعظم کی یہ سادگی قابل تقلید اور قابل تعریف ہے‘ میں 22 برسوں سے پاکستانی حکمرانوں سے درخواست کر رہا ہوں آپ غریب اور پسماندہ ملک کے سربراہ ہیں‘ آپ پورا جہاز لے کر یورپ اور امریکا نہ جایاکریں‘ یہ اس غریب ملک کے غریب عوام کے ساتھ زیادتی ہے لیکن اس کا ہرگز ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہمارا وزیراعظم امریکی ائیرپورٹ پر تلاشی دے کر پوری قوم کو ذلیل کرا دے۔

ہم 21 کروڑ لوگوں کا ملک ہیں‘ ہم دنیا کی آٹھویں اور پہلی اسلامی جوہری طاقت بھی ہیں‘ وزیراعظم اس طاقت اور اس ملک کا نمایندہ ہوتا ہے چنانچہ آپ کو کس نے اجازت دی آپ پوری قوم کو اس طرح ذلیل کرا دیں‘ آپ سو مرتبہ نجی دورے پر جائیں‘ آپ ذاتی جیب سے ٹکٹ خریدیں اور آپ کمرشل فلائیٹ پر اکانومی کلاس میں سفر کریں‘ قوم آپ کی سادگی‘ ایمانداری اور درویشی کو سات سلام کرے گی لیکن یورپ ہو یا امریکا ہو دنیا کو ہمارے وزیراعظم کو عزت دینا ہو گی۔

ہم کسی ملک کو اپنی بے عزتی کی اجازت نہیں دے سکتے‘ شاہد خاقان عباسی کو یاد ہو گا‘ امریکا نے 2002ء میں بھارتی وزیردفاع جارج فرنانڈس اور2012 ء میںاداکار شاہ رخ خان کے ساتھ یہ سلوک کیا تھا‘ بھارت نے امریکا سے ناک رگڑوا کر معافی منگوائی تھی‘ جارج فرنانڈس کے واقعے کے دو سال بعدامریکاکے صدر بل کلنٹن(یہ اس وقت تک سابق ہو چکے تھے) بھارت کے دورے پر آئے۔

بھارت میں جارج فرنانڈس کی مخالف جماعت کانگریس کی حکومت تھی لیکن بھارتی حکومت نے اس کے باوجود اعلان کیا ’’ہم ائیرپورٹ پربل کلنٹن کی اسی طرح تلاشی لیں گے جس طرح ہمارے وزیر کی ڈیلیس ائیرپورٹ پر ہوئی ‘‘ امریکا کی وزارت خارجہ نے فوری طور پر انڈیا سے تحریری معذرت کی اور اس کے بعد بھارتی وزارت خارجہ نے بل کلنٹن کو دہلی میں داخل ہونے کی اجازت دی۔

جولائی 2004ء میں جب ڈپٹی سیکریٹری آف اسٹیٹ رچرڈ آ رمٹیج بھارت کے دورے پر آیا تو اس نے بھی جارج فرنانڈس کے واقعے پر معافی مانگی  لیکن شاہد خاقان عباسی نے پوری قوم کو جان ایف کینیڈی ائیرپورٹ پر ذلیل کرا دیا اور ہم نے احتجاج تک نہ کیا‘ کیوں؟ایسی کیا مجبوری تھی جس کی وجہ سے آپ یہ ذلت بھی چپ چاپ برداشت کر گئے؟ آپ نے امریکی حکومت کو اپنی آمد کی اطلاع کیوں نہیں دی‘ آپ نے پاکستانی سفارت خانے کو کیوں مطلع نہیں کیا؟ دوسرا اگر وزیراعظم نجی دورے پر تھے تو یہ 17 مارچ کونائب صدر مائیک پنس سے کیوں ملے؟

یہ ملاقات اتنی اچانک اور خفیہ کیوں تھی؟ یہ ملاقات اگر امریکا کی طرف سے تھی تو آپ نے ائیرپورٹ کے واقعے کے بعد یہ ملاقات منسوخ کیوں نہیں کی؟وزیراعظم کو اگر سپریم کورٹ کا چیف جسٹس فریادی کہہ دے تو میاں نواز شریف سمیت پوری پارٹی کو آگ لگ جاتی ہے لیکن وزیراعظم امریکی ائیرپورٹ پر پوری قوم کو ذلیل کروا دیں تو حکومت اور پارٹی دونوں خاموش رہتے ہیں‘کیوں؟ کیا میاں نواز شریف کے پاس ان سوالوں کا کوئی جواب ہے؟

ہم چند لمحوں کے لیے مان لیتے ہیں وزیراعظم ایک درویش منش اور ایماندار انسان ہیں اور یہ اپنی درویشی اور ایمانداری میں پوری قوم کو ذلیل کرا بیٹھے لیکن سوال یہ ہے وہ اسٹاف کہاں تھا جو وزیراعظم کے صاحبزادے کو سیکیورٹی کے بغیر سینیٹ نہیں جانے دیتا اور اگر سینیٹ کی وزیٹرز گیلری میں صاحبزادے کی ایم این اے حامد الحق کے ساتھ توتکار ہو جائے تو سرکاری گارڈز ایم این اے کی پھینٹی لگا دیتے ہیں۔

اس اسٹاف نے وزیراعظم کو اکیلے نیویارک جانے کی اجازت کیسے دے دی؟ وزارت خارجہ کا پروٹوکول ڈیپارٹمنٹ دن میں دس مرتبہ وزیراعظم کی ویسٹ کوٹ ٹھیک کراتا ہے‘ یہ لوگ انھیں جگہ جگہ روک کر سمجھاتے ہیں ’’سر آپ صرف شاہد خاقان عباسی نہیں ہیں‘ آپ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیراعظم ہیں‘پلیز وزیراعظم کی طرح بی ہیو کریں‘‘ وزیراعظم جب پوری قوم کو ذلیل کرانے کے لیے نیویارک تشریف لے جا رہے تھے تو ان لوگوں نے بھی انھیں سمجھانے کی ہمت نہیں کی‘ آپ نے انھیں کیوں نہیں روکا؟ کیا یہ آپ کی ڈیوٹی نہیں تھی‘ کیا آپ کا کام صرف یس سر ہے؟

میرا چیف جسٹس ثاقب نثار سے بھی گلہ ہے‘ سپریم کورٹ مریضوں اور طالب علموں کی اہانت پر سوموٹو نوٹس لے لیتی ہے‘ ججز جس کو چاہتے ہیں اور جب چاہتے ہیں بلا لیتے ہیں لیکن جہاں پوری قوم کی بے عزتی ہوئی وہاں ہماری عدلیہ بھی خاموش ہے‘ کیوں؟

آپ وزیراعظم کو طلب کر کے یہ کیوں نہیں پوچھتے آپ کو قوم کی تذلیل کی کس نے اجازت دی تھی‘ آپ وزیراعظم کے اسٹاف اور وزارت خارجہ کے پروٹوکول ڈیپارٹمنٹ کو بلا کر الٹا کیوں نہیں لٹکاتے؟اور آپ پارلیمنٹ کا کمال بھی دیکھئے‘ پی آئی اے کی ائیر ہوسٹس اگر ایم این اے یا سینیٹر کو چائے نہ دے تو پوری پارلیمنٹ کا استحقاق مجروح ہو جاتا ہے لیکن وزیراعظم اور ملک کی اہانت پر پارلیمنٹ کو بھی کوئی فرق نہیں پڑا‘ یہ خاموش بیٹھی ہے‘ کیوں؟

اور وزیراعظم نجی دورے کے دوران امریکی نائب صدر مائیک پنس سے کیوں ملے تھے؟ یہ کہیں میاں نواز شریف کی فریاد لے کر امریکا تو نہیں گئے تھے اور یہ دورہ کہیں میر ظفر اللہ جمالی کی طرح ’’ہمیں بچاؤ وزٹ‘‘ تو نہیں تھا چنانچہ آپ فریادی ہونے کی وجہ سے امریکا میں ہر قسم کی تذلیل برداشت کر گئے‘ اس سوال کا جواب کون دے گا؟ اور آپ وزیراعظم کی درویشی ملاحظہ کیجیے یہ صادق سنجرانی کو سینیٹ کی بے عزتی سمجھتے ہیں لیکن ان کی وجہ سے جو کچھ امریکا میں پاکستان کے ساتھ ہوا یہ اس پر مسکرا دیتے ہیں‘ آپ کی ایمانداری اور آپ کی غیرت کو سلام ہے۔

آپ یقین کیجیے جان ایف کینیڈی ائیرپورٹ پر تلاشی دینے کے بعد مجھے شاہد خاقان عباسی کو وزیراعظم کہتے ہوئے شرم آ رہی ہے‘ ہمارے محبوب عباسی نے واقعی ثابت کر دیا یہ وزیراعظم نہیں ہیں‘ یہ صرف میاں نواز شریف کی کرسی کے ’’کیئر ٹیکر‘‘ ہیں اور جس دن میاں نواز شریف نے ان کے ہاتھ میں کشکول پکڑا دیا‘ یہ اس دن کشکول پکڑ کر بھی فریاد شروع کر دیں گے‘ یہ میاں نواز شریف کی فرمانبرداری میں پورے ملک کی تلاشی کرا دیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔