حکومت کی خصوصی توجہ کے بغیر صحت کا شعبہ بہتر نہیں ہو سکتا، ڈاکٹر یاسمین راشد

محمود قریشی  جمعرات 5 اپريل 2018
ارکان اسمبلی کو اپنے لیے نہیں بلکہ عوام کے فائدے کے لیے قانون سازی کرنی چاہیے۔ فوٹو: ایکسپریس

ارکان اسمبلی کو اپنے لیے نہیں بلکہ عوام کے فائدے کے لیے قانون سازی کرنی چاہیے۔ فوٹو: ایکسپریس

وارث سرہندی کی ’’علمی اردو لغت‘‘ کے مطابق لفظ سیاست کے معانی یہ ہیں: حفاظت، نگہبانی، انتظام، معاملات ملکی وغیرہ۔ اصطلاح میں سیاستدان سے مراد ایک ایسا عوامی اور ویژنری آدمی لیا جاتا ہے، جس میں رہنما بننے کے اوصاف موجود ہوں اور وہ پیچیدہ معاملات کو خوش اسلوبی سے سلجھانے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ شفاف کردار اور لوگوں کا اعتماد کسی بھی اچھے سیاستدان کا اثاثہ ہوتا ہے۔

بدقسمتی سے وطن عزیز کے سیاست دانوں کی اکثریت نے اپنے طرز عمل سے سیاست کو جھوٹ، شعبدہ بازی، کرپشن اور نااہلی کا مترادف بنا دیا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ عوام کی خدمت کرنے کے اکثر دعویدار دراصل اقتدار حاصل کرنے کے بعد خود اپنی خدمت کے لیے بے چین ہوتے ہیں۔ تاہم سیاست کے اس آلودہ سمندر میں کہیں کہیں ایسے شفاف جزیرے ضرور دکھائی دیتے ہیں، جن کی وجہ سے بہتری کی امید پیدا ہوتی ہے۔

ڈاکٹر یاسمین راشد کا تعلق سیاستدانوں کے اس چھوٹے سے قبیلے سے ہے، جو سیاست میں حقیقی معنوں میں عوام کی خدمت کے لیے آتے ہیں۔ وہ ملک کی ممتاز گائناکالوجسٹ ہیں، تعلیمی اور پیشہ ورانہ کریئر میں بہت کامیابیاں سمیٹیں اور اب سیاست میں بھی سرگرم ہیں۔ ان کا شمار تحریک انصاف کے اہم رہنماؤں میں ہوتا ہے۔

ڈاکٹر یاسمین راشد 1950ء میں لاہور میں پیدا ہوئیں۔ اس وقت ان کی والدہ میڈیکل کالج میں زیر تعلیم تھیں جبکہ والد کی ملازمت ایئر فورس میں تھی۔ چنانچہ ان کا بچپن دادا، دادی کے ساتھ گاؤں میں گزرا۔ انہیں ضلع چکوال میں واقع اپنا آبائی گاؤں بہت عزیز ہے، جس سے ان کی بچپن کی یادیں وابستہ ہیں۔ کہتی ہیں، ’’بچپن میں بہت شرارتی تھی۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ایک بچہ، دادا، دادی کے پاس ہو تو اسے دنیا جہان کا لاڈ پیار ملتا ہے، شاید مجھے یہ لاڈ میرے والدین بھی نہ دے سکتے۔‘‘

وہ بہن بھائیوں میں سب سے بڑی ہیں، اُن سے چھوٹے دو بھائی اور ایک بہن ہے۔ تعلیم کا آغاز ساڑھے پانچ سال کی عمر میں پشاور میں ہوا، جہاں ان کے والد تعینات تھے۔ 1961ء میں والد کی ریٹائرمنٹ کے بعد یہ خاندان لاہور آ گیا۔ یہاں ’’کونونٹ آف جیزز اینڈ میری‘‘ سے 1966ء میں سینئر کیمبرج کیا۔ پھر لاہور کالج برائے خواتین سے ایف ایس سی کی۔ کالج میں کھیلوں میں بھی بھرپور حصہ لیا، سوئمنگ، باسکٹ بال، ٹیپ بال اور ٹیبل ٹینس کھیلا کرتی تھیں۔

پاکستان کی سطح پر ٹیبل ٹینس کھیلی اور دوسری پوزیشن حاصل کی۔ ایف ایس سی میں نمبر تھوڑے کم آئے تو ڈینٹل کالج چلی گئیں۔ تین سال یہاں تعلیم حاصل کی اور ٹاپ کیا، اس دوران نیا میڈیکل کالج بننے کی وجہ سے نشستوں میں اضافہ ہوا تو فاطمہ جناح میڈیکل کالج میں ان کا میرٹ پر داخلہ ہو گیا۔ گائناکالوجسٹ بننے کا شوق تھا، اس لیے ڈینٹسٹری کو خیرباد کہا اور دوبارہ پہلے سال سے میڈیکل کی تعلیم کا آغاز کیا۔

لیڈرشپ کی صلاحیت شروع سے ہی ان کے اندر تھی۔ سکول کے زمانے میں الیکشن کے ذریعے اپنے شعبے کی وائس کپتان بنیں۔ لاہور کالج میں وہ سائنس کی پہلی طالبہ تھیں جو سپورٹس پریزیڈنٹ بنیں، اس انتخاب میں کالج کی تمام طالبات ووٹ دیتی تھیں۔ اسی طرح میڈیکل کالج میں بھی طلبہ یونین کی جنرل سیکرٹری اور صدر رہیں۔ فاطمہ جناح میڈیکل کالج سے 1979ء میں گریجویشن کرنے کے بعد اپنے شعبے میں سپیشلائزیشن کی تعلیم برطانیہ سے حاصل کی۔

1985ء میں ملازمت کا آغاز اسسٹنٹ پروفیسر کی حیثیت سے کیا، آنے والے برسوں میں مختلف میڈیکل کالجوں میں تعیناتی رہی، 2010ء میں کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج میں اپنے شعبے کی سربراہ کی حیثیت سے ریٹائر ہوئیں۔ وہ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن(PMA) میں بھی متحرک رہیں، 1988ء میں پہلی دفعہ جنرل سیکرٹری منتخب ہوئیں اور پھر اپنی ریٹائرمنٹ تک اس کے مختلف عہدوں پر رہیں۔ PMA کی پہلی خاتون صدر ہونے کا اعزاز بھی انہیں حاصل ہے۔

ڈاکٹر یاسمین راشد کی شادی میڈیکل کالج میں جانے کے بعد ہی ہو گئی تھی، لیکن تعلیم کے حصول، بچوں کی پرورش اور ملازمت کے لیے انہیں اپنے سسرال والوں کا بھرپور تعاون حاصل رہا۔ ڈینٹسٹری کی تعلیم چھوڑ کر دوبارہ پہلے سال سے میڈیکل کالج میں تعلیم کا آغاز کرنا ان کی زندگی کا مشکل فیصلہ تھا، جس کے لیے والد نے ان کی بھرپور حوصلہ افزائی کی۔

ڈاکٹر یاسمین راشد کنگ ایڈورڈ کالج میں گائناکالوجی کے شعبے کی پروفیسر اور سربراہ رہیں۔ بین الاقوامی مجلوں میں ان کے پچاس سے زائد تحقیقی مقالے شائع ہو چکے ہیں اور اس حوالے سے دنیا بھر میں ان کی ایک شناخت ہے۔ انہوں نے پاکستان میں تھیلسیمیا سے بچاؤ کے لیے بھی قابل قدر کام کیا ہے۔ وہ بتاتی ہیں، ’’جب مجھے پتا چلا کہ ہمارے ہاں تھیلسیمیا کا اتنا بڑا مسئلہ ہے، یہ موروثی مرض ہے اور جو بچے اس مرض کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں، انہیں بہت تکلیف سے گزرنا پڑتا ہے۔

ان کے لیے خون کا بندوبست کرنا ہوتا ہے۔ تو میں نے اس کے لیے حفاظتی تدابیر پر کام کرنا شروع کیا اور یہ بہت بڑی جدوجہد تھی۔ اس وقت پنجاب میں اس سے بچاؤ کا جو سب سے بڑا پروگرام چل رہا ہے، اس کو میں نے ترتیب دیا ہے۔ آج یہ منصوبہ ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ لوگوں کو ٹیسٹوں کی سہولت دے چکا ہے، مجھے خوشی ہے کہ حکومت نے اس کو اون کیا ہے۔ اب خیبر پختونخوا میں بھی یہ پروگرام شروع ہو گیا ہے۔‘‘ تاہم وہ ملک میں شعبہ صحت کی عمومی صورتحال سے خوش نہیں۔

کہتی ہیں، ’’اب دنیا بھر میں یہ بات تسلیم کی جاتی ہے کہ صحت ایک سیاسی ایجنڈا ہے، یعنی حکومت ہی اس ضمن میں لوگوں کو سہولیات اور سستا علاج فراہم کر سکتی ہے، یہ کسی تنظیم یا ادارے کے بس کی بات نہیں۔ اگر حکومت صحت کو اپنی ترجیح بنائے، حکمت عملی تیار کرے اور اس پر عمل درآمد کے لیے فنڈز جاری کرے، تب ہی اس میں بہتری آ سکتی ہے۔ مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں صحت اور تعلیم کو وہ اہمیت نہیں دی گئی جو ان کو دینی چاہیے تھی۔ صحت کے لیے بنیادی انفراسٹرکچر تو ماضی میں گاؤں کی حد تک بھی موجود تھا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ حکومت نے کبھی چاہا ہی نہیں کہ وہ صحت کی سہولیات کو یقینی بنائے۔‘‘

تحریک انصاف ملک کی دوسری جماعتوں سے کیسے مختلف ہے؟ اس سوال کے جواب میں وہ کہتی ہیں، ’’صحت اور تعلیم تحریک انصاف کے بنیادی ایجنڈے میں شامل ہیں۔ اس حوالے سے خیبرپختونخوا میں کام بھی ہوا ہے، لیکن برسوں کے مسائل راتوں رات ٹھیک نہیں ہو سکتے۔ تاہم تحریک انصاف نے اتنا کام ضرور کیا ہے جو لوگوں کو نظر آرہا ہے کہ یہ جماعت ان مسائل کے حل کے لیے سنجیدہ ہے، اس لیے وہاں کے لوگ ہماری کارکردگی سے مطمئن ہیں۔

میں بطور ڈاکٹر سمجھتی ہوں آپ کسی بھی قوم کو صحت اور تعلیم کی اچھی سہولتیں فراہم کریں تو بڑی اچھی قوم بن سکتی ہے، کیوں کہ صحت اور تعلیم کی فکر نہ ہو تو ماں باپ دوسرے کام کر سکتے ہیں، لیکن ہمارے ہاں تو لوگ بیچارے ان بنیادی ضروریات کے لیے اپنی زندگی تک داؤ میں لگا دیتے ہیں۔ یہ زیادتی ہے، کیوں کہ بنیادی طور پر یہ ذمہ داری حکومت کی ہے اور اس کے لیے مناسب پالیسی، قانون سازی اور اس پر عمل درآمد کی ضرورت ہے۔‘‘

وہ قومی سطح پر تحریک انصاف کی بطور اپوزیشن کارکردگی سے بھی مطمئن ہیں۔ ان کے مطابق عمران خان نے عوام کو شعور دیا ہے کہ کرپٹ لوگ ملک کو کھا گئے ہیں، اس لیے اب تبدیلی کی ضرورت ہے۔تاہم وہ اس بات کو تسلیم کرتی ہیں کہ لوگوں کی سوچ بدلنے میں وقت لگتا ہے۔ کہتی ہیں، ’’سیاسی کلچر میں تبدیلی بتدریج آئے گی۔ اس لیے اپنی جدوجہد میں ناکامی پر مایوسی نہیں ہوتی، ہمارا کام صرف کوشش کرنا ہے، اس کا نتیجہ کیا ہوتا ہے، یہ ہمارے بس میں نہیں۔‘‘

وہ سیاست برائے خدمت پر یقین رکھتی ہیں۔ ان کے بقول، ’’ارکانِ اسمبلی کو اس سوچ کے ساتھ آنا چاہیے کہ یہ کارخیر اور لوگوں کی خدمت کا کام ہے، اپنی خدمت کا نہیں، تو جن کو خدمت کا شوق ہے وہ ضرور سیاست اور پارلیمنٹ میں آئیں۔ ایسے قوانین بنائیں جن سے عوام کو فائدہ ہو، ایسے قوانین نہ بنائیں جن سے ان کو خود فائدہ ہو۔

اب افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس حکومت نے کتنی زیادتی کی کہ ایک ایسا شخص جسے نااہل کیا گیا، اس کے لیے قانون پاس کر دیا کہ ایسا شخص جو پارلیمنٹ میں آنے کا اہل نہیں لیکن وہ پارٹی کا سربراہ رہ سکتا ہے، اس کام کے لیے تو قانون سازی نہیں ہوتی اور نہ اس مقصد کے لیے اسمبلی میں آنا چاہیے۔

اسمبلی میں تو بات کرنی چاہیے کہ ملک میں تعلیم اور صحت کی کیا سہولتیں ہیں، ہمیں کیا بہتری لانی چاہیے، تاکہ پاکستان میں سب لوگوں کو ترقی کے برابر مواقع ملیں اور انہیں بنیادی حقوق ملیں، ملک کی انڈسٹری ترقی کرے، ہم نے تو الٹ رستہ لے لیا، جو صنعتیں موجود تھیں، ان کو بھی تباہ کر ڈالا ہم نے۔‘‘ان کے مطابق آنے والے برسوں میں پانی کابحران سنجیدہ مسئلہ ہے، جس کے لیے منصوبہ بندی اور حل ابھی سے سوچنا چاہیے۔ اس بات کو بھی یقینی بنایا جائے کہ انڈیا ہمارا پانی نہ روکے۔

انہیں مطالعے کا شوق بچپن سے ہی تھا۔ انگریزی میڈیم میں تعلیم کی وجہ سے زیادہ تر انگریزی مصنفین کی کتابیں زیر مطالعہ رہیں۔ بعدازاں اردو فکشن کا بھی مطالعہ کیا، لیکن دلچسپی انگریزی کتابوں میں ہی رہی۔ انہیں ایکشن سٹوریز اور تھرلرز بہت اچھے لگتے ہیں، اس لیے الیسٹیئر میکلین (Alistair macLean) اور جان بشن (John Buchan) کی تصانیف شوق سے پڑھیں۔ کامیاب لوگوں کی خودنوشت سوانح عمریاں بھی پڑھیں۔ انہیں اپنے پارٹی چیئرمین عمران خان کی خود نوشت سوانح عمری بھی بہت اچھی لگی اور وہ اس سے بہت متاثر ہوئیں۔

بتاتی ہیں، ’’ان کی زندگی میں بہت جدوجہد ہے، چاہے کھیل کی بات کر لیں یا جب سے سیاست میں آئے تب بھی بڑا وقت گزارا، اس میں لوگوں کے دل میں یہ بات ڈالنا کہ روایتی سیاست ٹھیک نہیں بلکہ سیاست وہ ہے جس میں عوام کے لیے فلاحی کام کیے جائیں، اس بات کا لوگوں کو شعور دیا۔ ہسپتال بنائے اور کامیابی سے چلائے۔ انہوں نے دیہی علاقے میں نمل یونیورسٹی کی بنیاد رکھی، غریب بچوں کو اچھی یونیورسٹی کی سہولت مل جائے، تو آپ ان بچوں کو زندگی میں کتنی مضبوط جگہ پر کھڑا کر دیتے ہیں، حالانکہ سب کو بالخصوص غریبوں کو اچھے مواقع فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔‘‘

میڈیکل کے شعبے میں ان کی والدہ ان کی آئیڈیل ہیں۔ جن سے انہوں نے سخت محنت سیکھی۔ ان کے مزاج میں جو اطمینان اور قناعت پائی جاتی ہے، اس کا سبب بھی اپنے والدین کو قرار دیتی ہیں۔ کہتی ہیں، ’’آپ اگر اللہ توکل ہوں اور جب اس نے کہہ رکھا ہے جو کچھ میں کر رہا ہوں انسان کی بہتری کے لیے ہی کر رہا ہوں، تو پھر انسان مطمئن رہتا ہے، پھر آپ کا طمع بھی ختم ہو جاتا ہے اور آپ کی پریشانی بھی دور ہو جاتی ہے۔‘‘ ان کی ایک بیٹی اور تین بیٹے ہیں۔ سب کی شادیاں ہو چکی ہیں۔

اپنی مصروفیات کی وجہ سے بچوں کے لیے وقت نکالنا مشکل ہو جاتا ہے۔کہتی ہیں، ’’بعض اوقات بہت تکلیف دہ صورتحال ہوتی ہے، کئی دفعہ میرے بچے مجھ سے نظرانداز ہو جاتے ہیں، اگرچہ وہ سب بڑے ہیں، جوان ہیں، لیکن ان کی ماں تو میں ہی ہوں، اور پھر میں ڈاکٹر ہوں، ان کو تھوڑی سی بھی تکلیف ہوتی ہے تو شور مچا دیتے ہیں کہ اماں آپ کہاں ہیں۔‘‘مختلف کھانوں کی شوقین ہیں، پلاؤ بہت پسند ہے، لیکن خود کوکنگ کرنے کا شوق نہیں۔ تقریباً چالیس ملکوں کا سفر کر چکی ہیں۔

دوسرے ملکوں میں خاص طور پر نیوزی لینڈ پسند ہے، جس کے قدرتی مناظر اور سمندر انہیں اچھے لگتے ہیں۔ اپنی زندگی سے بہت مطمئن ہیں۔ کہتی ہیں، ’’اللہ پاک کی مہربانی سے مجھے بہت زیادہ عزت ملی ہے اپنے شعبے کے اندر بھی اور سیاست میں تھی۔ میرے طلبہ اور ساتھی ڈاکٹر بھی میری بہت عزت کرتے ہیں، انسان کو دنیا میں اور کیا چاہیے کہ آپ پڑھاتے ہیں تو آپ کے طلبہ آپ کی عزت کریں، آپ کے کولیگز آپ کی عزت کریں۔‘‘  فائدے کے لیے قانون سازی کرنی چاہیے

ہر کامیابی میرٹ پر حاصل کی

چاہے کھیلوں کا میدان ہو یا تعلیم کا، میری زندگی میں کوئی سفارش نہیں ہوئی۔ اللہ تعالی کی سفارش سب سے بڑی سفارش ہوتی ہے۔ جب میڈیکل کالج میں گئے، اس زمانے میں میرے سسر وزیر تعلیم تھے، لیکن مجھے داخلہ نہیں ملا۔ وہ تو تین سال بعد نشستیں بڑھیں تو میرٹ لسٹ پر میرا نام آیا، کیوں کہ میرے تھوڑے سے نمبر کم تھے، اس لیے ویٹنگ لسٹ میں سب سے اوپر تھی۔ پھر میں نے میڈیکل کالج میں بہت اچھے نمبروں سے ہر سال کا امتحان پاس کیا، ہاؤس جاب اپنی میرٹ پر کی، میں پبلک سروس کمیشن سے پہلی دفعہ سینئر رجسٹرار منتخب ہوئی اور میں نے ٹاپ کیا۔ اس کے بعد اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر بھی ٹاپ کیا، پھر میں پروفیسر بھی پبلک سروس کمیشن کے ذریعے بنی۔ برطانیہ سے MRCOG اور FRCOG کی ڈگریاں حاصل کیں۔

 ہمارے خاندان میں خواتین بھی کام کرتی ہیں

سب سے اہم چیز جو میرے والد نے مجھے دی، وہ خود اعتمادی ہے۔ انہوں نے یہ اعتماد دیا کہ اگر میں لڑکی یا عورت ہوں تو میری گھر میں اتنی ہی اہمیت ہے جتنی میرے بھائیوں کی۔ سترہ برس کی عمر میں جب میں کالج کی طالبہ تھی، میرے والد صاحب نے اپنی گاڑی مجھے دے دی تھی۔ میں کالج میں واحد سٹوڈنٹ تھی جو اپنی گاڑی خود ڈرائیو کر کے آتی تھی۔ بہت سے لوگ والد کو کہتے تھے کہ آپ نے اپنی بیٹی کو اتنی آزادی دے دی ہے، تو میرے والد صاحب کہتے کہ مجھے اس سے کوئی پریشانی نہیں، مجھے اس پر اعتماد ہے۔ اس وجہ سے چھوٹی عمر میں ہی میرے اندر اعتماد پیدا ہو گیا۔ پھر میں سپورٹس میں حصہ لیتی تھی، مجھے پتا تھا کہ مردوں کے درمیان کیسے رکھ رکھاؤ سے رہنا ہے اور میرا طرز عمل کیا ہونا چاہیے۔ اس لیے مجھے کبھی کوئی مسئلہ نہیں ہوا۔ والدین خود محنتی تھے، جب میں پیدا ہوئی میری والدہ تعلیم حاصل کر رہی تھیں۔ ہمارے خاندان میں کوئی بندہ یہ سوچ ہی نہیں سکتا کہ وہ محنت نہ کرے، میری بیٹی بھی ڈاکٹر بنی۔ میری تینوں بہویں بھی ملازمت کرتی ہیں اور سب بڑی محنت کرتی ہیں۔ ہونا بھی یہ چاہیے، کیوں کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے زندگی میں امتحان کے لیے بھیجا ہوا ہے اور آپ نے آگے زندگی میں بڑی کاوش کرنی ہے، اللہ کو بے کار لوگ پسند نہیں، تو میرے خیال میں ہم سب خاندان کے لوگ خوش قسمت ہیں کہ ہمارے صرف مرد کام نہیں کرتے، ہماری خواتین بھی کام کرتی ہیں۔

’’مجھے کیوں نکالا؟‘‘ کا جواب

یاسمین راشد نے 2013ء کے الیکشن میں لاہور کے ایک حلقے سے سابق وزیراعظم نوازشریف کا مقابلہ کیا، اور 50 ہزار سے زائد ووٹ حاصل کیے۔ اسی حلقے سے ضمنی الیکشن میں بیگم کلثوم نواز کے مقابلے میں ان کے ووٹ تقریباً 47 ہزار تھے۔ وہ کہتی ہیں، ’’میں اس کو اپنے لیے فخر سمجھتی ہوں کہ عمران خان نے مجھے مضبوط امیدوار سمجھ کے یہ حلقہ دیا، انہوں نے کہا تھا کہ میں ٹکٹ تو کسی کو بھی دے سکتا ہوں، لیکن جس طرح آپ الیکشن لڑ سکتی ہیں، اس طرح کوئی اور نہیں لڑ سکتا۔ اس لیے مجھے خوشی ہے کہ انہوں نے مجھ پر اعتماد کیا۔ میں عوامی آدمی ہوں، اپنے حلقے میں سکیورٹی کے بغیر جاتی ہوں، عام لوگوں سے ملتی ہوں، جب کہ شریف فیملی میں ایسا کرنے کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔

جہاں تک نواز شریف کے ’’مجھے کیوں نکالا؟‘‘ کا تعلق ہے تو میں نے انہیں کئی مرتبہ چیلنج کیا ہے کہ وہ مجھے بلائیں تو میں انہیں سمجھا دوں گی کہ عدالتی فیصلہ کیا ہے۔ ساری دنیا کو پتا ہے کہ آپ منی ٹریل نہیں دے سکے۔ اقامے پر بات اس لیے آئی کہ یہ کرپشن کے لیے تھا۔ آپ وزیراعظم پاکستان ہیں یا چوکیدار ہیں جو آپ کو اقامے کی ضرورت پڑی۔ کیا ویزے کا مسئلہ تھا، دبئی کا ویزہ ملنا تو کوئی ایسی بڑی بات نہیں، مجھے چوبیس گھنٹے کے اندر ویزہ مل جاتا ہے۔‘‘  n

عمران خان اختلاف رائے کو اہمیت دیتے ہیں

میں نے عمران خان جیسا لیڈر نہیں دیکھا جس نے اتنا اختلاف رائے سننے کے باوجود کبھی غصہ کیا ہے، نہ کبھی ناراض ہوئے ہیں۔ سب کی صبر سے بات سنتے ہیں۔ اگر ہم اپنے نقطہ نظر پر قائل کر لیں تو ہماری بات مان لیتے ہیں، اگر وہ ہمیں قائل کر لیں تو ہم ان کی بات تسلیم کر لیتے ہیں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ یمن فوج بھیجنے کا جو معاملہ تھا، ہم نے ان کو کہا کہ آپ پارلیمنٹ میں جائیں اور ان کو روکیں، ہمارے کہنے پر وہ پارلیمنٹ میں گئے اور آواز اٹھائی کہ فوج بالکل نہیں جانی چاہیے۔ تو وہ بالکل مشورے سنتے ہیں اور اختلاف رائے بھی سنتے ہیں لیکن یہ ہے کہ ایک دفعہ وہ جب کسی بات پر فیصلہ کر لیتے ہیں تو ہم تنظیمی لوگ ہیں، اس لیے ان کا فیصلہ مانتے ہیں۔ جسٹس وجیہہ الدین کے ساتھ ایشو بھی یہ تھا کہ وہ اپنی سفارشات دینے کے بعد فیصلہ بھی خود کرنا چاہ رہے تھے۔ حالانکہ اگر آپ نے کسی کو لیڈر مانا ہے تو یہ اس کاحق ہے کہ سفارشات کی روشنی میں خود مناسب فیصلہ کرے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔