انتخابی منشوروں کا تعارف

حسان خالد  بدھ 10 اپريل 2013
سیاسی جماعتوں کے انتخابی وعدوں کا جائزہ۔  فوٹو : فائل

سیاسی جماعتوں کے انتخابی وعدوں کا جائزہ۔ فوٹو : فائل

 اگر انتخابات کے اس موسم میں کوئی ہم سے کسی ایسی تحریر کے متعلق پوچھے، جس میں اچھی اچھی ’’سبق آموز‘‘ باتیں لکھی ہوں تو بغیر کسی تردد کے ہمارا مشورہ ہوگا، ’’کسی بھی سیاسی جماعت کے منشور کا مطالعہ کرلیں۔‘‘ صاحب! یہ مذاق نہیں، فی الواقع ایسا ہی ہے۔

سیاسی جماعتوں کے منشور کیا ہیں، خواب ناک سیرگاہیں ہیں، جس میں ہر کسی نے اعداد و شمار کی بازی گری اور لفظوں کی جادوگری سے، سہانے سپنے دکھا کر دلفریب دنیائیں بسا رکھی ہیں۔ کوئی معاشی ترقی کو بلند سطح پر پہنچانے کیلئے پر تول رہا ہے، تو کوئی عوام کو بااختیار بنانے کیلئے فکر مند ہے۔ ایک جماعت ملک کو اندرونی و بیرونی قوتوں کے نرغے سے نکالنا چاہتی ہے، تو دوسری جماعت قیام امن کیلئے بیرونی دنیا سے معاملہ بندی کرنے کی خواہاں ہے۔

کوئی پرامن پاکستان چاہتا ہے تو کوئی نیا پاکستان۔ ان جماعتوں کے منشور کے مطالعے سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ قدرت نے ان سب کو وہ نگاہ بصیر عطا کی ہے، جس سے کوئی مسئلہ چھپا ہوا نہیں رہ سکتا۔ ان کے دلوں میں عوام کا درد ہے، مسائل کا انہیں علم ہے، حل معلوم ہے، قابلیت ازل سے موجود ہے، بس اقتدار ملنے کی دیر ہے، پھر بسم اللہ…!
ملک کی اہم سیاسی جماعتوں کے منشور کا اجمالی تعارف پیش خدمت ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی

5 PPP Protester

الیکشن 2013ء کیلئے پیش کیے جانے والے پارٹی منشور کی ایک اہم بات تو یہ ہے کہ پیپلزپارٹی، جوکہ غریبوں اور مزدوروں کی جماعت ہونے کی دعویدار ہے، نے اپنا منشور انگریزی میں شائع کرایا ہے اور اردو پڑھنے والوں کیلئے اس کا اردو ترجمہ شائع کرانا ضروری نہیں سمجھا۔ منشور کا آغاز چار سطری نعرے سے ہوتا ہے:

روٹی، کپڑا اور مکان
علم، صحت، سب کو کام
دہشت سے محفوظ عوام
اونچا ہو جمہور کا نام

’’روٹی، کپڑا اور مکان‘‘ کے مقبول نعرے پر ذوالفقار علی بھٹو نے بھر پور عوامی سپورٹ حاصل کی تھی، پیپلزپارٹی کی چوتھی حکومت نے اپنی آئینی مدت کے اختتام پر اس نعرے میں کچھ مزید چیزوں کا اضافہ کردیا ہے۔ 75 صفحات پر مشتمل منشور کو مختلف عنوانات کے تحت سات حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔

پارٹی منشور میں بتایا گیا ہے کہ پیپلزپارٹی نے اپنے گزشتہ دور میں پائیدار جمہوریت کی بنیادیں رکھ دی ہیں اور اب زمینی حقائق کے مطابق قابل عمل منشور پیش کیا جارہا ہے، جوکہ پاکستان کے لوگوں سے ایک مقدس وعدہ ہے۔

منشور میں مزدوروں کی کم از کم تنخواہ 18 ہزار مقرر کرنے، مزدوروں کو قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں نمائندگی دینے، 2018ء تک لازمی پرائمری تعلیم کو یقینی بنانے اور پولیو کے خاتمے جیسے اقدامات شامل ہیں۔ تعلیم، صحت، روزگار سب کیلئے ہوگا۔ 50 لاکھ افراد کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے گا، ٹیکس ٹو جی ڈی پی شرح کو 15 فیصد تک بڑھانے، حکومتی قرضوں میں کمی اور بجٹ خسارہ 5 فیصد سے کم کرنے جیسے وعدے شامل ہیں۔ جنوبی پنجاب صوبے کے علاوہ، پارٹی منشور میں کہا گیا ہے، آئندہ NFC ایوارڈ میں سندھ کو کراچی کے میگاسٹی، بندرگاہ اور تجارتی صدر مقام ہونے کی وجہ سے خصوصی گرانٹ دی جائے گی۔

ہائیڈرل، کوئلہ، گیس اور توانائی کے دوسرے ذرائع سے اگلی مدت کے اختتام تک 12,000 میگاواٹ سستی بجلی فراہم کرنے کا وعدہ بھی کیا گیا ہے، تاہم اپنے گزشتہ دور میں پی پی کی حکومت نے زیادہ توجہ رینٹل پاور منصوبوں پر رکھی۔ منشور میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ دور میں 3400 میگاواٹ بجلی نیشنل گرڈ میں شامل کی گئی ہے۔ بلوچستان اور فاٹا کو اعلیٰ اور فنی تعلیم کیلئے 10 ہزار اسکالر شپ فراہم کیے جائیں گے۔ چارٹر آف ڈیموکریسی کے مطابق وفاقی آئینی عدالت کے قیام کی بات کی گئی ہے اور موجودہ عدالتی فعالیت پر تحفظات کا اظہار بھی منشور میں شامل ہے۔

مسلم لیگ (ن)

3 Nawaz Sharif

مسلم لیگ ن گزشتہ دور حکومت میں ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی حکمران جماعت رہی ہے۔ اب وہ 2013ء کے الیکشن کے لیے اس نعرے کے ساتھ میدان میں آئی ہے کہ ’’بدلا ہے پنجاب، بدلیں گے پاکستان۔‘‘ اس کے علاوہ منشور کو ’’مضبوط معیشت، مضبوط پاکستان‘‘ کا نام بھی دیا گیا ہے۔

منشور کا پہلا نکتہ معیشت کی بحالی کو قرار دیا گیا ہے، جس کے ذیل میں برآمدات کو مرحلہ وار 100 ارب ڈالر سے بڑھانا، ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح میں 15 فیصد تک اضافہ، ملکی اداروں کے خسارے کو کم کرکے ان کو نفع بخش بنانے، ترقی کی شرح نمو کو 6 فیصد پر لے جانا اور افراط زر کو گھٹا کر 8 فیصد تک لانے جیسے اقدامات شامل ہیں۔ دوسرا نکتہ توانائی کے بحران کا حل ہے جس میں دو سال تک قابو پا لیا جائے گا۔ تیسرا نکتہ زراعت کی ترقی اور عوام کو خوراک کی سکیورٹی فراہم کرنا ہے۔ چوتھا نکتہ سماجی تبدیلی پیدا کرنا ہے، جس میں تعلیم اور صحت کے شعبوں کا بنیادی کردار ہوگا۔

6 ماہ میں بلدیاتی انتخابات، مزدور کی تنخواہ 15 ہزار، 10 لاکھ نوکریوں کی فراہمی، ڈرون حملے بند کرانے اور ہزارہ، بہاولپور اور جنوبی پنجاب صوبوں کی حمایت جیسے وعدے بھی منشور کا حصہ ہیں۔ فاٹا کے عوام نے کہا تو ان کیلئے بھی الگ صوبہ بنایا جائے گا۔ دہشت گردی کے خلاف مؤثر حکمت عملی بنائی جائے گی، کراچی میں آپریشن کیا جائے گا، دفاعی بجٹ کو پارلیمنٹ میں لایا جائے گا، مسلح افواج کے سربراہان کی تقرریاں مکمل میرٹ پر ہوں گی۔ کرپشن کی روک تھام کیلئے قانون سازی، تمام صوبوں میں دانش سکول قائم کیے جائیں گے اور ہونہار طلبا و طالبات کو لیپ ٹاپ فراہم کیے جائیں گے۔

تعلیم کے ضمن میں مختلف اقدامات اور تجاویز کے علاوہ کہا گیا ہے کہ تعلیم کے شعبے میں 2018ء تک مجموعی قومی پیداوار کا چار فیصد خرچ کرنے کے ہدف کے حصول کی کوشش کی جائے گی جبکہ صحت کے شعبے میں 2018ء تک مجموعی قومی پیداوار کا 2 فیصد بجٹ خرچ کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔ بین الصوبائی ہم آہنگی کے چارٹر کے عنوان کے تحت صوبوں کے درمیان بہتر تعلقات کیلئے اقدامات تجویز کیے گئے ہیں۔ انصاف کی فوری فراہمی کیلئے جہاں مختلف اقدامات کرنے کا ذکر کیا گیا ہے، وہاں وفاقی آئینی عدالت کے قیام کا ذکر اس باب میں نہیں ملتا، جوکہ چارٹر آف ڈیموکریسی میں شامل تھا۔

پاکستان تحریک انصاف

4 PTI Manifesto Photo

پاکستان تحریک انصاف حالیہ برسوں میں ایک بڑی سیاسی قوت کے طور پر ابھر کر سامنے آئی ہے۔ پارٹی نوجوانوں اور تبدیلی کے خواہش مند افراد کو اپنی طاقت قرار دیتی ہے۔ پارٹی کا کہنا ہے کہ وہ 25 فیصد ٹکٹ 35 سال یا اس سے کم عمر کے نوجوانوں کو دے گی۔ انشاء اللہ نیا پاکستان (انصاف، امن، خوشحالی) کے عنوان کے تحت تحریک انصاف نے الیکشن 2013ء کیلئے اپنا منشور جاری کیا ہے۔ 53صفحات کے اس منشور کے اہم نکات میں 90 روز میں کرپشن کا خاتمہ، 3 سال میں لوڈشیڈنگ ختم کرنے اور دہشت گردی کی جنگ سے پاکستان کو نکالنے جیسے اقدامات شامل ہیں۔

90 روز میں بلدیاتی الیکشن کرائے جائیں گے۔ کراچی سمیت ملک کو اسلحے سے پاک کیا جائے گا، ڈرون حملوں کے خلاف پالیسی بنائی جائے گی۔ 65وزارتیں ختم کرکے 18 تک محدود کردی جائیں گی، ملٹری بجٹ پارلیمنٹ میں پیش ہو گا، گورنر، وزرائے اعلیٰ ہاؤسز کو تعلیمی اداروں اور لائبریریوں میں بدل دیا جائے گا۔ ریلوے کی وزارت ختم کی جائے گی، پی آئی اے کو وزارت دفاع سے الگ کیا جائے گا، مڈل تک تعلیم مادری زبان یا اردو میں دی جائے گی، کسی جج، جرنیل یا سرکاری افسر کو مفت پلاٹ نہیں ملے گا۔ تمام ممالک سے برابری کی بنیاد پر تعلقات قائم کیے جائیں گے۔

اس سے قبل تعلیم، توانائی، صنعت اور فنی مہارت میں اضافہ، مقامی نظام حکومت، معیشت، صحت، ماحول، اینٹی کرپشن اور نوجوانوں کے ایشوز پر پارٹی الگ الگ مفصل پالیسی پیپرز شائع کرچکی ہے، جن میں ان موضوعات کا قدر ے تفصیل سے جائزہ لیا گیا ہے اور بہتری کیلئے مختلف اقدامات تجویز کیے گئے ہیں۔

متحدہ قومی موومنٹ

6 MQM Manifesto

الیکشن 2013ء کے لیے متحدہ نے ’’بااختیار عوام‘‘ کے عنوان سے اپنا منشور جاری کیا ہے۔ اس منشور کے اہم نکات میں دوہرے نظام تعلیم کا خاتمہ، زرعی آمدنی پر ٹیکس، خواتین کی پارلیمنٹ میں 50 فیصد نمائندگی اور مقامی حکومتوں کا نظام لانے اور تین ماہ کے اندر مقامی حکومتوں کا الیکشن کرانا شامل ہے۔ منشور کے مطابق دہری شہریت رکھنے والوں کے انتخابات میں حصہ لینے پر عائد پابندی ختم کی جائے گی۔

اگرچہ گزشتہ اسمبلی میں تمام قابل ذکر جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ممبران دہری شہریت کے قانون کی زد میں آئے ہیں، لیکن اس پابندی کے خاتمے کا بہ التزام ذکر متحدہ کے منشور میں ملتا ہے۔

منشور میں کہا گیا ہے کہ سرکاری اور نجی سفری ذرائع، پٹرولیم مصنوعات اور دیگر اشیائے صرف کی قیمتوں کو مقررہ مدت میں کم، پی آئی اے، پاکستان اسٹیل، ریلوے، پیپکو اور دیگر اداروں کی انتظامی کارکردگی میں بہتری، قومی احتساب بیورو کی طرز پر صوبائی احتساب بیورو کے ادارے کا قیام، تمام شہروں میں ماحول دوست بسیں، میٹرو پولیٹن شہروں میں ٹریفک کا انتظام شہری اور ضلعی حکومتوں کے تحت کیا جائے گا اور توانائی بحران پر جلد از جلد قابو پایا جائے گا۔ زرعی اصلاحات کے مطابق زمین کی حد مقرر کرکے اس حد سے زیادہ زمینوں کو بے زمین ہاریوں میں تقسیم کیا جائے گا۔

متحدہ کے منشور میں ایک اہم نکتہ ملک کو اسلحے سے پاک کرانا ہے، جس کے مطابق: ’’ملک کو اسلحے سے پاک کرنے کیلئے اسلحے کی پیداوار، تجارت، غیر قانونی نقل و حمل، درآمد کو روکا جائے گا۔‘‘ خواتین، بچوں اور مذہبی اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ، آزاد خارجہ پالیسی، کشمیر پر بامعنی مذاکرات اور قائداعظمؒ کے تصور کے مطابق فلاحی ریاست کا قیام متحدہ کے منشور کا حصہ ہے۔

متحدہ عام طور پر کراچی اور حیدرآباد سے نشستیں جیتتی ہے۔ کراچی شہر گزشتہ کئی برسوں سے شدید بدامنی، لینڈ مافیا، بھتہ مافیا اور دہشت گردوں کے رحم و کرم پر ہے، جس سے ملک کا معاشی مرکز شدید دباؤ کا شکار ہے اور سرمایہ کار دوسرے ملکوں کا رخ کررہے ہیں۔ ان حالات میں عوام بجا طور پر متحدہ سے توقع رکھتے تھے کہ کراچی کی نمائندہ جماعت ہونے کے ناتے، متحدہ ان مسائل کے حل کیلئے واضح حکمت عملی کے ساتھ سامنے آئے گی اور اقتدار ملنے کی صورت میں ان مسائل کے حل کی یقین دہانی کرائے گی، لیکن ایسی کسی بات کا ذکر متحدہ کے منشور میں نہیں ملتا۔

عوامی نیشنل پارٹی

1 Asfand Yar Wali

الیکشن 2013ء کیلئے پارٹی منشور میں ANP نے اقتدار میں آکر صوبوں کو مزید خود مختاری دینے کا وعدہ کیا ہے۔ گزشتہ دور میں اے این پی کے بہت سے سیاسی رہنما اور کارکن دہشت گردوں کا نشانہ بنے ہیں۔

پارٹی منشور میں پرامن پاکستان کو سرفہرست رکھا گیا ہے، آزاد خارجہ پالیسی کے علاوہ چین، افغانستان، ایران اور بھارت سمیت دیگر پڑوسی ملکوں کے ساتھ بہتر تعلقات، قانونی، سیاسی و انتظامی اصلاحات، مزدوروں کو حقوق کی فراہمی، ملازمت کے مواقع، صنعتوں کا قیام، کھیل و سیاحت کے مواقع بڑھانا، عورتوں، بچوں، بوڑھوں اور اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ وغیرہ منشور کا حصہ ہیں۔

25 صفحات پر مشتمل منشور میں توانائی کے بحران کے خاتمے کیلئے پن بجلی کے جاری منصوبوں پر کام کی رفتار تیز کرنا، تمام یونٹس کو برابری کی بنیاد پر مالیاتی حق سمیت تمام معاملات میں اختیار دینا جیسے نکات بھی شامل ہیں۔

منشور میں کہا گیا ہے کہ اگر قبائلی عوام صوبہ خیبرپختونخوا میں شامل ہونا چاہتے ہیں تو اے این پی اس کا خیر مقدم کرتی ہے، زیادہ سے زیادہ وزارتیں قبائلیوں کو دے کر تعلیم کیلئے اقدامات کیے جائیں گے اور قبائلیوں کو بندوبستی علاقوں کے شہریوں کے برابر تصور کرکے حقوق دیئے جائیں گے۔

پاکستان مسلم لیگ (ق)

7 PML Q

ق لیگ نے اپنے منشور میں مہنگائی، بیروزگاری اور دہشت گردی کے خاتمے اور نئے صوبوں کے قیام کو اپنی بنیادی ترجیحات قرار دیا ہے۔ بلدیاتی الیکشن عام انتخابات کے 100 دن کے اندر کرائے جائیں گے۔ لاہور میٹرو ٹرین منصوبہ بحال ہوگا۔ قبائلی علاقوں میں فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن (FCR) جیسے قوانین کالعدم قرار دیئے جائیں گے۔

گریڈ 1 سے 22 تک ملازمین کو ریٹائرمنٹ پر مکان ملے گا۔ نیشنل سکیورٹی کونسل کا قیام، 1122 سروس اور تعلیم و صحت کی سہولتیں پورے ملک میں فراہم کی جائیں گی۔ منشورمیں ’’تعلیم سب کیلئے‘‘ کے تحت کہا گیا ہے کہ نیشنل ایجوکیشن پالیسی کو فروغ دیا جائے گا۔ پرائمری تعلیم بطور انسانی حق عام کی جائے گی۔

جماعت اسلامی

2 Jamat-e- Islami

ماعت اسلامی نے اپنے منشور میں کہا ہے کہ جماعت ملک کو اسلامی فلاحی ریاست بنانا چاہتی ہے۔ اقتدار ملنے کی صورت میں پہلے چھ ماہ کے اندر ہی 20ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی ضمانت دی گئی ہے۔ منشور میں اعلان کیا گیا ہے کہ اقتدار میں آکر 18 سے 35 سال کی عمر کے درمیان تمام شہریوں (بشمول خواتین) کیلئے ملٹری ٹریننگ لازمی قرار دی جائے گی۔

منشور میں کہا گیا ہے حکمرانوں نے ’’غیر ملکی‘‘ جنگ کو اپنالیا ہے، جس کے نتیجے میں ہماری فوج اپنے ہی لوگوں کے ساتھ حالت جنگ میں ہے۔ جماعت ہر قسم کی دہشت گردی کی مخالف ہے، چاہے یہ ریاست کی طرف سے ہو یا کسی دہشت گرد گروپ کی طرف سے۔ پورے ملک خاص طور پر کراچی میں دہشت گردوں کو پکڑ کر عوام کے سامنے بے نقاب کیا جائے گا اور ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ لاپتہ افراد کا سراغ لگایا جائے گا۔

صحافیوں کی بہتری اور آزادی صحافت کو یقینی بنانے کیلئے مختلف اقدامات تجویز کرنے کے علاوہ کہا گیا ہے کہ ’’میڈیا کو غیر اخلاقی پروگرام چلانے سے روکا جائے گا اور اسے ایک ضابطہ اخلاق کا پابند کیا جائے گا۔‘‘ جہاد کو فروغ دیا جائے گا۔ چین کے ساتھ تعلقات مضبوط کیے جائیں گے۔

بھارت کے ساتھ جامع، بامقصد اورنتیجہ خیز مذاکرات کیے جائیں گے۔ ڈرون حملوں کو روکا جائے گا، غیر ترقیاتی بجٹ کو 30 فیصد کم کیا جائے گا۔ نجی شعبے سے شراکت کے ساتھ ہر سال 10 لاکھ ملازمتیں پیدا کی جائیں گی۔ خواتین کے حقوق کا قانون سازی سے تحفظ کیا جائے گا۔ وراثت اور تعلیم کے حق کو یقینی بنایا جائے گا۔

بھاری جہیز، غیرت کے نام پر قتل، قرآن سے شادی جیسی رسوم کی بیخ کنی کی جائے گی۔ بیواؤں کی دوسری شادی کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔ ایک وقت میں تین طلاقوں کی حوصلہ شکنی کی جائے گی۔

جمعیت العلماء اسلام (ف)

جمعیت العلماء اسلام (ف) نے الیکشن 2013ء کے لیے اپنے پارٹی منشور میں کہا ہے کہ برسراقتدار آکر مزارعوں اور ہاریوں کو زمینداروں و جاگیرداروں کے شکنجے سے آزاد کرائیں گے۔ زمین کے اور زمیندار کے جائز حق کو بھی تسلیم کرتے ہیں۔ کوئی زمیندار، جاگیردار مزارع کو بے دخل نہیں کرسکتا۔ مزدور کو اس کا مقام دلائیں گے اور ملک کو فلاحی ریاست بنائیں گے۔ خارجہ پالیسی کا محور کشمیر ہوگا، خارجہ پالیسی پاکستان کی آزادی، خود متخاری اور مسئلہ کشمیر کے حل پر مشتمل ہوگی۔ جے یو آئی کی حکومت اقتدار میں آکر سب سے پہلے کرپشن کا خاتمہ کرے گی۔

منشور میں پاک ایران گیس پائپ لائن معاہدے پر تنقید کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ہمارے پاس آئندہ 20/25 سال کیلئے گیس کے ذخائر موجود ہیں، لیکن ایران و دیگر ممالک سے گیس معاہدے محض کمیشن کے حصول کے لیے کیے جارہے ہیں۔ منشور میں کہا گیا کہ اسلام کے سوا کوئی دوسرا نظام اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت نہیں کرسکتا۔ تمام مسئلوں سے چھٹکارے کا واحد راستہ اسلامی نظام کا نفاذ ہے۔ تاہم منشور میں اس اسلامی نظام کی وضاحت نہیں کی گئی جو تمام مسائل کو حل کرنے کیلئے جے یو آئی نافذ کرنا چاہتی ہے۔

پاکستان مسلم لیگ (فنکشنل)

8 Peer Pagara Manifesto

پاکستان مسلم لیگ (فنکشنل) نے اپنے منشور میں صحت اور تعلیم کیلئے مجموعی قومی پیداوار کا 6 فیصد مختص کرنے کا اعلان کیا ہے۔ غریب عوام اورملک کو درپیش حل طلب مسائل کو اپنی بنیادی ترجیح قرار دیا گیا ہے۔ پارٹی منشور کے مطابق ریاست بہاولپور کا پرانا اسٹیٹس بحال کیا جائے گا۔ سندھ کے جزیروں کو بیچنے والے معاہدوں کو منسوخ کیا جائے گا۔

سندھ کے پورے صوبے میں امن وامان کا نظام بہتر کیا جائے گا اور تمام ڈویژنوں کے صدر مقاموں میں سٹیزن پولیس کمیٹی متعارف کرائی جائے گی۔ اس کے علاوہ ریسکیو 1122 سروس کا آغاز کیا جائے گا۔ موٹروے پولیس کی طرز پر کراچی، حیدر آباد اور سکھر جیسے شہروں میں جدید ٹریفک پولیس کا نظام لایا جائے گا۔

ماحول کی بہتری کیلئے دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ پانی کی تقسیم کے 1991ء کے معاہدے کو بحال کیا جائے گا۔ ٹیکس نیٹ کو تیس لاکھ لوگوں تک وسیع کیا جائے گا۔ توانائی بحران کے حل کیلئے توانائی کے متبادل ذرائع پر فوکس کیا جائے گا، میرٹ کو یقینی بنانے کیلئے گریڈ 16 اور اس سے بڑے عہدوں کیلئے پبلک سروس کمیشن کے امتحانات کے ذریعے تقرری کی جائے گی۔

٭٭٭
مختلف جماعتوں کے انتخابی منشوروں کے مطالعے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ بیشتر سیاسی جماعتیں اہم اور بڑے نکات پر بظاہر متفق ہیں۔

مثلاً تمام پارٹیاں تعلیم اور صحت پر مجموعی قومی پیداوار کا ایک قابل ذکر حصہ خرچ کرنا چاہتی ہیں۔ بلدیاتی انتخابات پر بھی سب کا اتفاق ہے۔ ٹیکس نیٹ کا دائرہ وسیع کرنے کے نکتے پر بھی یکسانیت پائی جاتی ہے۔ توانائی بحران کا خاتمہ اور قومی اداروں کی بحالی سب کا مشن ہے، اس لیے امید رکھنی چاہیے کہ اگر انتخابات کے نتیجے میں کوئی جماعت واضح اکثریت نہیں حاصل کرپاتی اور مختلف جماعتیں آپس میں مل کر کولیشن گورنمنٹ بناتی ہیں تو بھی سیاسی جماعتوں کو اپنے منشور کے بڑے حصے پر عمل درآمد کرانے میں دشواری پیش نہیں آئے گی۔

کچھ ایشوز سے البتہ پارٹی منشوروں میں صرف نظر کیا گیا ہے۔سابق ڈکٹیٹر مشرف کے ٹرائل کا وعدہ کسی جماعت کے منشور میں نہیں ملتا۔ مسئلہ کشمیر کو بھی وہ اہمیت نہیں دی گئی جو اسے دی جانی چاہیے۔ جمعیت العلماء اسلام (ف) نے اپنے منشور میں اس کو کچھ اجاگر کیا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے منشوروں میں یہ رجحان بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ جن جماعتوں کو اکثریت ملنے کابظاہر امکان نہیں، انہوں نے انتخابی وعدوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔