جیب کٹے سیاستدان

عبدالقادر حسن  بدھ 10 اپريل 2013
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

ان دنوں وطن عزیز میں ایک دوسرے سے بڑھ کر دو ہنگامے برپا ہیں۔ الیکشن اور شادیاں۔ کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا کہ دونوں کا کیا نتیجہ نکلے گا۔ شادی بھی ایک الیکشن ہی ہے جس میں دو امیدوار برسرعام مقابلے پر ہوتے ہیں لیکن یہ ایسا مقابلہ ہے کہ اس میں دونوں جیت جاتے ہیں اور یہ فیصلہ آنے والے حالات پر چھوڑ دیتے ہیں کہ اس معرکے میں جیتا کون اور ہارا کون لیکن میں شادیوں کے ہنگامے خیز جشن کے بارے میں چند تازہ معلومات عرض کرنا چاہتا ہوں۔

میں ان دنوں ہنگاموں سے دور رہتا ہوں لیکن بعض ہنگامے مجھ سے دور نہیں رہ سکتے۔ یہاں فوجی سرپرستی میں چلنے والے ایک کلب اور اس کے اندر قطار اندر قطار شادی گھروں میں سے ایک میں شادی میں شرکت کرنی پڑی۔ بظاہر سب خیریت سے گزر گیا لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ اس شادی کو چور پڑ گئے اسکولوں کے چند نوخیز لڑکے ایک تقریب میں گھس گئے اور انھوں نے بڑے اطمینان کے ساتھ کھیلتے کودتے براتیوں خصوصاً اہل خانہ کی جیبوں کا صفایا کر دیا، وہ تمام سلامیاں اور لفافے جو ملنے جلنے والوں نے شادی والوں کو دیے وہ اڑا لیے گئے۔

خبر یہ ہے کہ یہ واردات اتنی چھوٹی عمر کے لڑکوں نے کی جن پر جیب کتروں کا گمان نہیں گزر سکتا تھا۔ سوال یہ ہے کہ ان لڑکوں کو کس نے بھیجا ان کے پیچھے کون تھا اور اتنے بڑے ادارے میں منتظمین کی سرپرستی کے بغیر یہ واردات اس قدر اطمینان سے کیسے کر دی گئی۔ الیکشن اور شادی بیاہ کے ان شانہ بشانہ ہنگاموں میں یہ نوخیز جیب کترے الیکشن کے کہنہ مشق امیدواروں کو دیکھ کر اس کام میں لگے ہیں یا الیکشن کے امیدواروں نے ان نوعمر جیب کتروں سے یہ ہنر سیکھا ہے کیونکہ عوام کی جیبیں تو انھوں نے بھی بالآخر کاٹنی ہی ہیں لیکن دونوں الیکشن اور شادی کے ہنگاموں میں اپنے اپنے کام پر اتر آئے ہیں۔ شادی والوں کو تو جلدی تھی کہ بس یہی موقع تھا لیکن انتخابی امیدواروں کو کوئی جلدی نہیں ہے۔

ابھی ابھی ٹکٹیں دی گئی ہیں یا بانٹی گئی ہیں اور اب پارٹی کے دفتروں میں ان درخواستوں کے ساتھ موصول ہونے والی رقوم کی گنتی جاری ہے۔ اس ضمن میں جو خبر چھپی ہے اس میں پیپلز پارٹی اور ن لیگ سرفہرست ہیں کروڑوں میں۔ عام اندازہ یہ تھا کہ اس باری پیپلز پارٹی کو تو شاید کوئی قابل ذکر یا قابل حیثیت امیدوار ہی نہ ملے لیکن پھر بھی یہ پارٹی دوسری بظاہر مقبول عام پارٹیوں پر بازی لے گئی اور 37 کروڑ روپے جمع کر لیے، مسلم لیگ ن کو 24 کروڑ اور ق لیگ کو 13 کروڑ ملے تحریک انصاف کو صرف دس کروڑ مل سکے۔ قطع نظر اس کے ان جماعتوں کو ووٹ کتنے ملتے ہیں فی الحال آپ ان امیدواروں سے ہونے والی آمدنی ذہن میں رکھیں جس کی رعائت سے پیپلز پارٹی کو سب سے زیادہ ووٹ ملیں گے۔

یہ پارٹی پہلے تو امیدواروں کی کثرت سے فائدے میں رہتی تھی اور پھر صاحب حیثیت امیدواروں کی وجہ سے بھی۔ میں پہلے بھی ذکر کر چکا ہوں کہ ہمارے ایک مرحوم عزیز دوست سردار اے ایم کے مزاری نے قومی اسمبلی کے ٹکٹ کے لیے اس وقت پارٹی کے صرف چیف ایجنٹ کو اسی لاکھ روپے نقد سے اوپر دیے تھے جو آج کے کروڑہا بنتے ہیں۔ دراصل یہ پارٹی شروع دن سے ہی قسمت کی دھنی ہے مگر افسوس کہ اس نے اس کثیر رقم کی قیمت بھی بہت ادا کی۔ کبھی پیرس میں اسی مال کے حساب کتاب کے تنازعے میں ایک جان گئی اور ایک نوخیز سپوت کثرت منشیات سے فوت ہو گیا اور پھر اس بے پناہ دولت نے بڑی قیمتی جان لے لی۔

بہر حال یہ تو ایک خاندان کا ذاتی معاملہ ہے اصل بات یہ ہے کہ یہ عوامی پارٹی بہت خوش قسمت واقع ہوئی ہے اور اپنے اس گئے گزرے زمانے میں بھی اول نمبر پر ہے۔ لگتا ہے کہ الیکشن میں شاید کوئی ایک پارٹی وفاقی حکومت کے لیے اکثریت حاصل نہ کر سکے اور مخلوط حکومت بنانی پڑے۔ اگر ایسا ہوا تو آپ مت بھولیں کہ جناب آصف زرداری صحیح و سلامت ہیں۔ گزشتہ دنوں میں نے انھیں ایک باکمال سیاستدان کہا تو میرے قارئین ناراض ہو گئے کہ تم سے یہ توقع نہ تھی لیکن پارلیمانی سیاست میں زرداری صاحب نے جو کمالات دکھائے وہ مجھ سے نہیں ان تمام سیاستدانوں سے پوچھ لیں جو پارلیمنٹ میں نمایندگی رکھتے تھے کہ کس طرح زرداری صاحب نے ان کو چپ ہی نہیں دم بخود بھی کر دیا اگرچہ بعض اب پچھتاتے بھی ہیں مگر کرتے وہی ہیں جو کرتے رہے ہیں۔

زرداری صاحب کی سیاسی تربیت ان کے سیاسی کردار کا حصہ بن چکی ہے۔ ایک عالم دین جنہوں نے اپنے آپ کو ذہین سیاستدان مشہور کر رکھا ہے اب تک زرداری صاحب کے دیے ہوئے سرکاری گھر میں قیام کرتے ہیں اور اس گھر کے مشہور و معروف مراعات سے صبح شام فیض یاب ہوتے ہیں۔ ایک اور سیاستدان کے دل میں تو زرداری صاحب نے ایسا ہول ڈال دیا ہے کہ وہ ان کے اثرات سے باہر نکل نہیں پائے۔ کئی دوسرے سیاستدان بھی ہیں جو پندار کے صنم کدے بالکل ہی ویران و برباد کر کے ان کی خدمت میں اب تک حاضر ہیں۔

میں ان سیاسی پردہ نشینوں کے نام افشاء کروں یا نہ کروں اب تو ان سے ایک دنیا متعارف ہو چکی ہے اور سب جانتے ہیں کہ زرداری صاحب نے سیاسی میلے میں ان کی سیاسی جیبیں کاٹ لی ہیں اور اب وہ خالی جیب اپنے سیاسی دیوالیہ پن میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اگر آپ زرداری کے عہد میں سیاستدان نہیں ہیں تو خوش نصیب ہیں۔ چلتے چلتے ایک کمال ملاحظہ فرمائیے کہ اب اس گئے گزرے زمانے میں بھی پیپلز پارٹی نے امیدواروں سے کروڑوں جمع کر لیے ہیں جب کہ ان کے پاس ووٹر نام کی کوئی چیز شاید اب موجود نہیں ہے۔ یہ سب جیب کٹے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔